وزیر اعظم کا نظریہ اپنا الو سیدھا کرنے سے زیادہ کچھ نہیں

08:12 PM, 31 Oct, 2020

علی وارثی
وزیر اعظم عمران خان نے جمعہ کے روز چھپنے والے جرمن جریدے ڈیر شپیگا کو دیے جانے والے انٹرویو میں ایک مرتبہ پھر اعلان کیا ہے کہ پاکستان کا میڈیا پوری دنیا کے مقابلے میں زیادہ آزاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ یہ بات ایسے ہی نہیں کہہ رہے بلکہ اس سے پہلے 20 سال برطانیہ میں رہ چکے ہیں اور وہاں انہوں نے بوتھم کے خلاف مقدمہ بھی جیتا تھا کیونکہ برطانیہ میں ہتک عزت کے قوانین انتہائی مضبوط ہیں لیکن پاکستان میں ان کے اوپر اور ان کی حکومت پر غلط الزامات لگتے رہتے ہیں لیکن وہ یہاں پر ان الزامات کا کچھ نہیں کر سکتے۔ میرے اوپر غلط الزامات ہیں، میں عدالتوں کے چکر لگاتا رہتا ہوں لیکن بطور وزیر اعظم بھی مجھے انصاف نہیں مل رہا۔

تاہم، اس کے فوراً بعد انٹرویوئر نے ان سے سوال کیا کہ آپ تو جو نیا قانون لے کر آ رہے ہیں اس میں تو فوج پر کسی بھی قسم کی تنقید پر پابندی لگائی جا رہی ہے اور یہ صرف سکیورٹی اداروں کو ہی تحفظ دیتا ہے تو اس سے تو ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ معاملہ سچائی سامنے لانے کی بجائے محض اتنا ہے کہ یہ سکیورٹی ادارے خود فیصلہ کریں گے کہ ہتکِ عزت کیا ہے۔ وزیر اعظم کا جواب تھا کہ دیکھیں دنیا میں سب ممالک اپنے اداروں کو تحفظ دیتے ہیں۔ ہمارے سکیورٹی ادارے روزانہ جنگ میں قربانیاں دے رہے ہیں۔ ہم ان کو وہاں تحفظ نہیں دیں گے جہاں یہ غلط ہوں گے۔ ہم صرف وہاں تحفظ دیں گے جہاں ان پر حملے کیے جا رہے ہوں گے۔

صحافی نے ان سے پھر استفسار کیا کہ جناب اس قانون کے مطابق تو صحافیوں کے لئے فوج سے متعلق رپورٹ کرنا ہی ناممکن ہو جائے گا تو وزیر اعظم کا جواب تھا کہ سکیورٹی اداروں سے متعلق معاملات کو دیکھنے کا ایک مختلف طریقہ ہوگا۔ ان کا احتساب میڈیا نہیں حکومت کے ذریعے ہوگا۔ اگر مجھے کچھ غلط لگا تو میں آرمی چیف سے بات کر لوں گا۔ فوجی آپریشنز میں ہمیشہ ہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں اور کبھی کبھار جب ایسا ہوتا ہے تو ہم ان پر بات بھی کرتے ہیں لیکن یہ سب باتیں کھلے عام نہیں ہونی چاہئیں۔ جب سپاہی اپنی جانیں دے رہے ہوں، ہمیں بیچ چوک میں ان کے حوصلوں کو پست کرنے والی باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔

وزیر اعظم عمران خان سے اس انٹرویو میں یہ بھی پوچھا گیا کہ آپ کو جو بائیڈن اور ڈانلڈ ٹرمپ میں سے کون جیتتا نظر آ رہا ہے تو عمران خان کا کہنا تھا کہ عوامی رائے میں اب تک جو بائیڈن آگے ہیں لیکن ڈانلڈ ٹرمپ بہت غیر متوقع طریقوں سے سیاست کرتے ہیں کیونکہ وہ روایتی سیاستدانوں کی طرح نہیں۔ وہ اپنے ہی اصولوں کے تحت کھیلتے ہیں۔ ان سے سوال ہوا کہ آپ کی باتوں سے ایسا لگتا ہے کہ آپ کو ان کی یہ ادا بہت پسند ہے، تو عمران خان نے کہا کہ بطور ایک ایسے سیاستدان کے جس نے اپنی ذاتی جماعت بنائی اور 22 سال میں اس کو پاکستان کی سب سے بڑی جماعت بنایا، مجھے بھی بہت کچھ ایسا کرنا پڑا ہے جو کہ غیر معمولی تھا۔ ہم وہ پہلی جماعت تھے جس نے سوشل میڈیا کا استعمال کیا اور نوجوانوں کو اپنے جلسوں جلوسوں میں لے کر آئے۔

انہوں نے چین کی بھی بہت تعریف کی جب ان سے پوچھا گیا کہ وہاں پر ایک جماعتی حکومت ہے اور آپ کے خیال میں پاکستان کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔ وزیر اعظم نے جواب دیا کہ جی ہاں، چین نے جو کچھ کر دکھایا ہے وہ تعریف کے قابل ہے۔ میں چین کی تعریف کرتا ہوں کہ انہوں نے 70 کروڑ افراد کو غربت کی لکیر سے اوپر اٹھایا ہے اور پچھلے سات سال میں 450 وزرا کو کرپشن الزامات پر جیلوں میں ڈالا ہے۔

مگر ساتھ ہی انہوں نے بھارت کی مثال دیتے ہوئے مودی سرکار کو فسطائی سوچ کی مالک قرار دیا اور اس کا تقابل ہٹلر کی نازی پارٹی سے کیا۔

ان پانچ مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ وزیر اعظم صاحب کسی بھی نظریے کو نہیں مانتے۔ ان کے نزدیک میڈیا پاکستان میں آزاد ہے لیکن کچھ ادارے ہیں جنہیں وہ تنقید سے بالاتر سمجھتے ہیں، اس سے متعلق رپورٹنگ پر پابندی عائد کرنے والے قوانین متعارف کروانا چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ریاست کو ان اداروں کو تحفظ دینا چاہیے۔ اس کا ایک عملی نمونہ حال ہی میں ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کا معاملہ تھا کہ جب میڈیا میں ان پر کرپشن الزامات سامنے آئے تو اس کی کوئی انکوائری نہیں کروائی گئی، میڈیا نے اس معاملے پر بالکل خاموشی اختیار کیے رکھی اور معاملہ وزیر اعظم کے اپنے پاس آیا، انہوں نے اس پر کوئی کارروائی کرنے کی بجائے کہا کہ وہ عاصم باجوہ کے دیے گئے جواب سے مطمئن ہیں اور اس پر کسی بھی قسم کی مزید کارروائی کی ضرورت نہیں۔ اس مقصد کے لئے قانون سازی کی بھی ضرورت نہیں پڑی۔ مگر کم از کم یہ تو واضح ہے کہ جب احتساب کا عمل حکومت کے اپنے ہاتھ میں ہوگا تو احتساب کیسا ہوگا۔

اسی طرح وہ بھارتی حکومت کی اختلاف کو دبانے کی کوششوں کو فسطائیت سمجھتے ہیں مگر چینی صدر کی ایسی ہی کاوشوں کو کرپشن کے خلاف جنگ کا نام دینے کی نہ صرف مکمل حمایت کرتے ہیں بلکہ خود بھی ویسا ہی کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ کے بھی مداح ہیں اور خود کو ان کے جیسا سمجھتے ہیں۔ اور خود کو میڈیا کی آزادی کا داعی بھی کہلوانا چاہتے ہیں۔ ان کی یہ سب باتیں یہی ثابت کرتی ہیں کہ سیاست کا کھیل انتہائی بے درد ہوتا ہے۔ اس میں نظریہ وغیرہ بعد کی باتیں ہوتی ہیں۔ بس اپنا الو سیدھا کرنا ہوتا ہے، اور اس کام میں بلاشبہ ہمارے وزیر اعظم اب طاق ہو چکے ہیں۔
مزیدخبریں