سوموار کی شام ایک ٹوئٹر تھریڈ میں سابق وزیر اعظم نے لکھا کہ "دس لاکھ لانے کا دعوی کرنے والا ابھی تک دو ہزار بندے اکٹھے نہیں کر سکا۔ عوام کی لا تعلقی کی وجہ وہ شر انگیز جھوٹ ہیں جن کا کچا چٹھہ قوم کے سامنے آ چکا ہے۔"
"اس نے ایک کے بعد ایک جھوٹ اتنی بے دردی اور ڈھٹائی سے بولا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کو مجبوراً اپنی خاموشی توڑ کر قوم کو سچ بتانا پڑا جس کا جواب یہ اتنے دن گزرنے کے بعد بھی نہیں دے سکا۔ اسی لئے اس کا سارا زور حسبِ عادت صرف گالی گلوچ تک محدود ہے۔
"میں نے شہباز شریف سے کہہ دیا ہے کہ یہ دو ہزار کا جتھہ لے آئے یا 20 ہزار کا، نہ اس فتنے کا کوئی مطالبہ سننا ہے نا ہی اسے کوئی فیس-سیونگ دینی ہے، جس کے لئے یہ بیتاب ہے۔ وزیر اعظم کو اپنی تمام تر توجہ عوامی خدمت پر مرکوز رکھنی چاہیے۔"
یاد رہے کہ دو روز قبل رؤف کلاسرا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں سینیئر صحافی محمد مالک نے بتایا تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کوششیں کر کے حکومت اور پی ٹی آئی نمائندگان کو اکٹھے بٹھا دیا تھا لیکن نواز شریف نے جلد انتخابات پر کسی قسم کی لچک دکھانے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد یہ مذاکرات بلا نتیجہ ختم ہو گئے۔
رؤف کلاسرا نے پوچھا کہ عمران خان جس اعتماد کے ساتھ لانگ مارچ کر رہے ہیں اور اسلام آباد کی طرف گامزن ہیں کیا ان کو کوئی گارنٹی دی گئی ہیں یا کچھ لوگ تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ان کو اداروں کے اندر سے بھی حمایت حاصل ہے جس کے جواب میں مالک صاحب کا کہنا تھا کہ خان صاحب نے حکومت کے کھو جانے کے بعد شہرت بہت حاصل کی۔ یہ پہلی تبدیلی تھی۔ عمران خان نے بیانیہ بہت بنایا اور بے پناہ سپورٹ حاصل کی۔ یہ پاکستان کی تاریخ رہی ہے کہ لوگ اس لیڈر کو پسند کرتے ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔