اسد علی طور کے مطابق جو تین شخصیت اس وقت بہت ایکٹو تھی ان میں ایک آرمی چیف قمر جاوید باجوہ، اس وقت کے ڈٰی جی سی جنرل فیض حمید جو بعد میں ڈی جی آئی ایس آئی بھی بنے اور تیسری شخصیت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار تھے۔ اسد طور کے مطابق پریس کانفرنس والی شخصیت ان تینوں میں سے کوئی ایک شخصیت ہو سکتی ہیں۔ اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پریس کانفرنس کرنے والی شخصیت پر ان کے سابقہ محکمے کا دباؤ ہے جس کے نتیجے میں وہ یہ پریس کانفرنس کرنے جا رہے ہیں۔
پریس کانفرنس کرنے والی مکمنہ شخصیات کے ناموں پہ تجزیہ کرتے ہوئے اسد علی طور کا کہنا تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ وہ شخصیت نہیں ہو سکتے۔ وہ اپنی ریٹائرمنٹ کے آخری لمحوں تک بہت طاقتور ہیں لہٰذا یہ ممکن نہیں ہے کی کوئی آرمی میں سے ان کے اوپر دباؤ ڈال سکے۔ دوسری شخصیت ثاقب نثار ہو سکتی ہیں۔ مگر اس بات کے کم امکان ہیں کیوں کہ سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان جو عمران خان کے بارے میں کافی نرم رویہ رکھتے ہیں وہ کیسے ثاقب نثار کے اوپر دباؤ ڈال کر ان سے عمران خان کے خلاف پریس کانفرنس کروا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ معزز جج صاحبان سابق چیف جسٹس کے اوپر بظاہر اتنا اثر رسوخ بھی نہیں رکھتے کہ ان سے اتنا بڑا کام کروا سکیں۔
اسی لئے تمام انگلیاں ایک ہی شخصیت کی طرف اٹھتی ہیں اور وہ ہیں جنرل فیض حمید۔ ان کا کہنا تھا کہ فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس اور ان کے سینیئر صحافی عامر متین کو دیے گئے انٹرویومیں کی گئی گفتگو کی کڑیاں ملائی جائیں تو یوں لگتا ہے جیسے وہ شخصیت جنرل فیض حمید ہی ہوں گے۔ فیصل واوڈا نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران انکشاف کیا تھا کہ کچھ غیر سیاسی شخصیات عمران خان اور تحریک انصاف کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کر رہی ہیں۔ صحافی شہزاد اقبال کے پروگرام میں فیصل واوڈا نے کہا ہے کہ عمران خان کو غلط مشورے دینے والوں میں دو غیر سیاسی شخصیات ہیں اور تین پارٹی کے کیڑے ہیں۔ واوڈا کا ان دو غیر سیاسی شخصیات ہیں کے حوالے سے اشارہ بھی اسٹیبلیشمنٹ کی طرف ہے۔ لہٰذا کچھ لوگ ان کڑیوں کو ملا کر نتیجہ اخذ کر رہے ہیں کہ وہ شخصیت جنرل فیض حمید ہی ہیں۔
اسد طور کا کہنا ہے کہ عامر متین صاحب تحریک انصاف کی اندر کی صورتحال کی بات کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف کی جو اس وقت کی پالیسی ہے اور ان کا فوجی قیادت کے بارے میں جو رویہ ہے کیا ان کو کہیں سے اس رویہ کی شہ مل رہی ہے؟ کیا ان کو فوج کے اندر سے سپورٹ حاصل ہے؟ اگر ایسا ہے تو کیا فوج کے پاس اس کے ثبوت موجود ہیں؟ اگر ایسا ہے تو پھر اس لئے فیصل واوڈا سے پریس کانفرنس کروا کر فوج کے اندر سے ان لوگوں کو پیغام پہنچایا گیا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اب ان کے اوپر دباؤ ڈال کر ان سے عمران خان کے خلاف پریس کانفرنس کروائی جائے۔ عین ممکن ہے وہ شخصیت جنرل فیض حمید ہی ہوں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اس بات کا اعتراف کریں کہ عمران خان کو لانے میں ان کا کردار تھا۔
نواز شریف اور مریم نواز نے عمران خان کو اقتدار میں لانے کے سلسلے میں سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ جنرل فیض حمید کو بنایا ہے اور اب بھی کبھی کبھی مریم نواز کہتی ہیں کہ عمران خان کو ساؤتھ پنجاب سے سپورٹ مل رہی ہے۔ مریم نواز کا اشارہ جنرل فیض حمید کی طرف ہوتا ہے جو اس وقت کور کمانڈر بہاولپور تعنیات ہیں۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے بھی یہ الزام لگایا تھا کہ جنرل فیض ہی ان کے گھر آئے تھے اور ان کو نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت کے خلاف فیصلہ دینے پر مجبور کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ اگر ایسا کریں گے تو ہماری دو سال کی محنت ضائع ہو جائے گی۔ اسد طور نے مزید کہا کہ 27 اکتوبر کی پریس کانفرنس میں ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ندیم انجم سے اس حوالے سےسوال کیا گیا تو انہوں نے اس سوال کو جٹھلایا نہیں بلکہ یہ کہا کہ اس پر پھر کبھی سیر حاصل گفتگو ہوگی۔
اسد علی طور کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان کو اقتدار میں لانے کے لئے ان کی حریف جماعت مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں پر پارٹی سے وفاداریاں بدلنے کے لئے دباؤ ڈالا گیا اور ان کو عدالتوں سے نااہل بھی کروایا گیا۔ 2018 کے الیکشن میں آر ٹی ایس کو بھی اس لئے بٹھایا گیا کہ عمران خان کو برتری دلوا کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچایا جائے۔ اور یہ سب کچھ جنرل فیض حمید اور ان کے ادارے کی ایما پر ہو رہا تھا۔
آئندہ چند روز میں پنجاب اور کے پی میں سے تحریک انصاف کے مزید لوگوں کی طرف سے انکشافات اور پریس کانفرنسز متوقع ہیں۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے چند ماہ قبل توہینِ عدالت کیس کی سماعت کے دوران کہا تھا کہ ہو سکتا ہے عمران خان کو پتہ ہی نا ہو کہ انہوں نے لانگ مورچ کو لے کر ڈی چوک پر آنا ہے یا پھر H-9 تک ہی محدود رہنا ہے۔ معزز کورٹ کی طرف سے عمران خان کو ایک واضح ریلیف دینے کی کوشش کی گئی ہے ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ عمران خان کو اس بات کا علم نا ہو کہ کورٹ کے ساتھ ان کا وعدہ صرف H-9 تک محدود رہنے کا ہے۔ یہ کہنا ہے صحافی اسد علی طور کا جنہوں اپنے تازہ ترین وی لاگ میں یاددہانی کروائی کہ عمران خان مسلسل کنٹینر سے اپنے سپوٹرز کو پیغام دے رہے تھے کہ آپ لوگوں نے ڈی چوک پہ ہی آنا ہے۔
اسد علی طور کا کہنا تھا کہ عدالت کی بظاہر دکھائی گئی نرمی کی وجہ سے عمران خان نے سوموار 31 اکتوبر کو ہوئی سماعت کے دوران عدالت میں جھوٹا بیان جمع کروایا کہ ان کو عدالت کے ساتھ H-9 تک رہنے والے وعدے کا علم ہی نہیں تھا۔ اسد علی طور کے مطابق یہ بات غیر منطقی نظر آتی ہے کہ عمران خان کو یا ان کے ساتھ کنٹینر پر موجود دیگر افراد کو عدالت کے ساتھ کیے گئے اقرار کا پتہ ہی نہ ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ آج عمران خان نے کنٹینرسے اعلان کیا ہے کہ توشہ خانہ کیس میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے خارج کر دیا ہے۔ حالانکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ابھی تک اس فیصلے کو خارج نہیں کیا۔ اسد طور کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ ابھی تک عدالت میں ہے تو عمران خان کو کس طرح پتہ چل گیا کہ ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ لے بھی لیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان عدالتوں کو مسلسل بدنام کیے جا رہے ہیں۔ توہین عدالت کا نوٹس ان کو بھیجنے کی کوئی جرات نہیں کرتا۔