لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم کا کہنا تھا کہ عمران خان جس آرمی چیف کو میر جعفر اور میر صادق جیسے غداروں کی صف میں کھڑا کرتے ہیں اسی آرمی چیف سے تحریک عدم اعتماد کے موقع پر کہتے تھے کہ بےشک آپ عمر بھر کے لئے آرمی چیف کا عہدہ اپنے پاس رکھیں مگر حزب اختلاف کے رہنماؤں کو جیل میں بند کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی طرف سے لائی گئی عدم اعتماد کو کچلنے میں ان کی مدد کریں۔
حیران کن بات تو یہ ہے کہ عمران خان نے ڈی جی آئی ایس آئی کی اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے سینیئر صحافی عامر متین کو دیے گئے انٹرویو میں کہا ہے کہ انہوں نے جنرل باجوہ کو سیاسی تعاون کے بدلے مدت ملازمت میں توسیع کی آفر کی تھی۔ یہ سول بالادستی کو قائم کرنے اور حقیقی آزادی حاصل کرنے کا کون سا طریقہ ہے جس میں آپ پاکستان کے آئین کے مطابق غیر سیاسی ادارے کے سربراہ کو اپنے سیاسی فائدے کے لئے غیرآئینی رشوت کی پیشکش کر رہے ہیں۔ اب عمران خان اپنے سیاسی جلسوں میں اس بات کو بڑی ڈھٹھائی کے ساتھ دہرا رہے ہیں کیوں کہ وہ جانتے ہیں ان کے سامعین پاکستان کے آئین سے زیادہ ان کی 'عمرانیات' پہ یقین رکھتے ہیں۔
جنوری 2020 میں عمران خان نے اپنے دور حکومت میں آرمی چیف جنرل باجوہ کو پارلمینٹ کے اندر سے آرمی ایکٹ 1952، ایئر فورس ایکٹ 1953 اور پاکستان نیوی آرڈیننس 1961 میں غیر معمولی ترامیم کا بل پاس کروا کر آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد 60 سے 64 برس کروائی۔ اس وقت نہ تو ان کو پاکستان کے آئین کا خیال رہا اور نہ ہی سویلین بالادستی کا۔ تب ان کو اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے لئے آرمی چیف کی ضرورت تھی جس کے لئے وہ کسی حد تک بھی جانے کو تیار تھے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب عمران خان ہر نجی اور غیر نجی محفل میں آرمی چیف جنرل باجوہ کی مدح سرائی کرتے ہوئے نظر آتے تھے۔
یہ ایک شرمناک، کرپٹ اور غیر قانونی اقدام ہے کہ جب آپ اپنے ذاتی مفاد اور اپنے ذاتی ایجنڈے کی ترویج اور تکمیل کے لئے آرمی چیف کو 'تاحیات' آرمی چیف رہنے کی غیر آئینی اور غیر قانونی رشوت کی پیشکش کرتے ہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں ارباب غلام رحیم اور پرویز الٰہی جیسے سیاسی طفیلیے پرویز مشرف کو تاحیات باوردی صدر بنانے کی سیاسی آوارگی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ کیسا حسین اور ظالمانہ اتفاق ہے کہ آج وہی پرویز الٰہی اور ارباب رحیم جیسے لوگ آپ کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔ اب اس کو قوت کشش سمجھا جائے یا نظریاتی ہم آہنگی جس نے آپ کو اپنے ہم خیال گروپ میں شامل کر دیا ہے۔ بقول شاعر، پہنچی وہیں پی خاک جہاں کا خمیر تھا۔
امپائر کی انگلی سے شروع ہو کر ایک چلتی ہوئی منتخب جمہوری حکومت کو گرانے سے ہوتے ہوئے تاحیات آرمی چیف بنانے کی آرزو سے گزر کر اپنی مرضی کے ڈی جی آئی ایس آئی لگانے سے لے کر اب بات اپنی مرضی کے آرمی چیف لگوانے تک آن پہنچی ہے۔ دوسروں کو اپنا امپائر کھڑا کر کے کھیلنے کا طعنہ دینے والے کیا اس بات کا جواب دے سکتے ہیں کہ ہر تعیناتی اپنی مرضی کے مطابق کرنے سے کون سی بالادستی قائم ہو رہی ہے اور کون سے آئین کو مضبوظ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے؟
اقتدار کے کھو جانے کے بعد عمران خان یہ کہتے ہوئے پائے جا رہے ہیں کہ وہ بے اختیار وزیراعظم تھے سارے اختیارات تو اسٹیبلشمنٹ کے پاس تھے۔ تو جناب والا یہ تو ایک سنگین جرم ہے کہ آپ نے عوام کے جمہوری مینڈیٹ کو غیر سیاسی طاقتوں کے حوالے کر دیا حالانکہ آپ خود کہا کرتے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ کی وہی پالیسی ہے جو میری پالیسی ہے اور یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کی پہلی حکومت ہے جس میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں۔ اب اس میں سے کون سی بات درست ہے ایک پیج والی یا پھر بے اختیار وزیر اعظم والی؟ جو بات درست نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ جہاں آپ کے ذاتی ایجنڈے کی تکمیل ممکن ہو وہاں پہ ہی سویلین بالادستی اور آئین کی پاسداری ہے اور جہاں آپ کی خواہشات کی تکمیل نہ ہو رہی ہو وہاں پہ غداری اور آئین شکنی بھی ہے اور سویلین بالا دستی پہ منڈلاتے ہوئے خطرات بھی۔
یاد رہے یہ وہی عمران خان ہیں جو اکثر الزام لگاتے ہیں کہ نواز شریف نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ کو بطور رشوت گاڑی کی پیشکش کی تھی۔ آج وہی عمران خان خود اپنے منہ سے تسلیم کر رہے ہیں کہ میں نے بطور رشوت آرمی چیف کو توسیع کی پیشکش کی اور بدلے میں ان سے حکومت بچانے کا مطالبہ کیا۔ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ کیا کوئی ایک الزام بھی ایسا بچا ہے جس کے عمران خان خود مرتکب نہ ہوئے ہوں؟ توشہ خانہ، ذاتی فائدوں کے لئے ملک ریاض کو 50 ارب کی چھوٹ دینا، امپائر کو ساتھ ملا کر کھیلنا اور اب آرمی چیف کو رشوت کی پیشکش۔
آخر میں ظفر صھبائی کا ایک شعر بھی موقع کی مناسبت سے برداشت کر لیجیے کہ:
جھوٹ بھی سچ کی طرح بولنا آتا ہے اسے
کوئی لکنت بھی کہیں پر نہیں آنے دیتا