مریم نواز کا فرضی دورہ جڑانوالہ اور اقلیتی ارکان سے تصوراتی ملاقات

سیاسی جماعتوں میں اقلیتی ونگ بنا کر سیاسی جماعتیں انہیں اپنی ہی جماعت کے اندر مذہب کی بنا پر الگ کر رہی ہیں جو مذہبی امتیاز ہی کی شکل ہے۔ یوتھ ونگ ہو سکتا ہے مگر صنف یا مذہب کی بنیاد پر الگ کرنا قومی دھارے سے الگ کرنا لگتا ہے۔ مریم بی بی سوچ میں پڑ گئیں۔ بولیں، آپ کی بات میں دم ہے۔ یہ تو نہیں ہونا چاہئیے۔

05:42 PM, 31 Oct, 2023

عطاء الرحمٰن سمن

27ستمبر 2023 کی رات، پچھلے پہر بار بار فون کی گھنٹی میری نیند میں مخل ہو رہی تھی۔ نیند اور سُستی کے زیر اثر فون دیکھنے کا کشٹ نہیں ہو پا رہا تھا۔ اُدھر کوئی بات کرنے کے لیے اس قدر بے قرار تھا کہ فون کی گھنٹی تواتر سے بجے جا رہی تھی۔ ناچار فون پر نظر ڈالی تو دوسری جانب جاوید ڈیوڈ صاحب کو پایا۔ فوراً واپس کال کی تو دوسری طرف سے زُود رنج جاوید صاحب نے شکایت آمیز ڈانٹ میں ہماری شان میں چند اسم صفات ارزاں کیں جو یہاں رقم کرنے میں اخلاقی حدود مانع ہیں۔ بعد ازاں فرمایا 'کل صبح ساڑھے آٹھ بجے میرے ہاں پہنچ جاؤ۔ ہاں شلوار قمیض پہن کے آنا'۔ 'سر کیا پروگرام ہے؟' میں نے معذرت خواہانہ لہجے میں دریافت کیا۔ 'کل صبح ہماری ملاقات بی بی مریم نواز سے ہے۔ ہاں جڑانوالہ کیس کے بارے کوئی اپ ڈیٹ ہو یا سفارشات ہوں تو تیار کر لینا۔ اچھا کل ملتے ہیں'۔ میری بات بیچ میں کاٹ کر انہوں نے جواب دیا۔ اِس سے قبل کہ مَیں کوئی دیگر سوال کرتا دوسری طرف سے فون بند ہو چکا تھا۔ اِدھر نیند کھل چکی تھی۔ سوچا کل اگر ملاقات ہے تو کیا بات کرنی ہے۔ اگر کچھ لکھنا ہوتا تو اور بات تھی۔ پھر کافی دیر گفتگو کے پہلوؤں پر مغز ماری کرتا رہا اور ایسے ہی نیند آ گئی۔

جاوید صاحب وقت کے معاملہ میں بہت سخت ہیں۔ ایک سیکنڈ کی دیر ہونے پر بھی بدک جاتے ہیں۔ تہیہ تھا کہ انہیں پھسلنے کا موقع نہیں دیا جائے گا چنانچہ مَیں اُن کی ہدایت کے مطابق شلوار سوٹ پہنے آٹھ بج کر بیس منٹ پر اُن کے گھر کے دروازے پر کھڑا تھا۔ جاوید صاحب نے مسکراہٹ اور تحسین کی نگاہ سے استقبال کیا اور میلون اور اکرام جون کے بارے فکر مندی کا اظہار کیا۔ عام حالات میں میلون صاحب کو گھر جا کر تیار کروانا پڑتا ہے تاہم آج خلاف معمول وہ آٹھ پچیس پر پاؤں گھسیٹتے ہوئے دلکشا گارڈن کے موڑ سے نمودار ہو گئے تھے۔ ابھی دو منٹ باقی تھے کہ اکرام جون بھی تیز قدم لیتے ہوئے آن ٹپکے۔ اکرام صاحب نے سب کے ساتھ ہاتھ ملایا اور بہت حلیمی سے بولے؛ 'یار مجھے اِس ملاقات سے معاف رکھیں۔ مَیں چرچ کا ملازم ہوں۔ ہمیں سیاست کی اجازت نہیں۔ میلون صاحب نے عرض کیا کہ یہ سیاست نہیں ہے، جڑانوالہ کے سانحہ کے بارے صرف اظہار یکجہتی کے لئے ملاقات ہے۔ مگر اکرام صاحب نے اپنا پرنالہ وہیں رکھا اور الٹے پاؤں واپس چلے گئے۔

جاوید صاحب نے ہمیں بتایا کہ انہیں بتایا گیا ہے کہ مریم بی بی نے اِس ملاقات کے لیے پندرہ سے بیس منٹ مختص کیے ہیں۔ جاوید صاحب کا ڈرائنگ روم کافی کشادہ ہے اور بیٹھنے کے لئے بھی معقول انتظام ہے۔ ہم لوگ اندر اپنی جگہوں کا طے کر کے باہر کھڑے ہو گئے۔ ابھی نو بجنے میں دس منٹ تھے کہ مریم بی بی کی گاڑی آ گئی۔ اُن کے ساتھ ایک ڈرائیور اور ایک نوجوان لڑکی تھی جس نے ہاتھ میں ایک نوٹ بک تھام رکھی تھی۔ اپنی نشست پر بیٹھ کر کہنے لگیں میرے پاس وقت یہی کوئی پندرہ منٹ تھے۔ میں نو بجنے سے پہلے آ گئی ہوں کہ کچھ اور وقت آپ سے گفتگو ہو جائے گی۔ ہم نے اپنا اپنا تعارف کروایا تو انہوں نے بتایا کہ وہ جڑانوالہ میں متاثرہ تمام چرچز کی قیادت سے مل چکی ہیں اور فرمایا؛ 'جب مجھے معلوم پڑا کہ اسد ٹاؤن جڑانوالہ کے چرچ کے انتظام کرنے والے لاہور سے ہیں تو میں نے سوچا آخر میں ملوں گی اور کچھ دیگر باتیں بھی ہوں گی۔ اتنے میں جاوید صاحب کی اہلیہ آئلین چائے لے آئی تھیں۔ سب کو چائے دے کر عائلین بھی ہمارے ساتھ بیٹھ گئیں۔ مریم بی بی نے چائے اور عائلین کی سُبک رفتاری کی خوب ستائش کی۔

مریم بی بی نے ہم سب پر ایک مسکراہٹ بھری نگاہ ڈالی اور بولیں؛ 'جب جڑانوالہ سانحہ کا علم ہوا تو مجھے بہت دُکھ ہوا۔ مَیں نے جڑانوالہ میں اپنی جماعت کے رہنماؤں کو مسیحی بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہونے کی تاکید کی تھی۔ میں آج اپنی پارٹی کی طرف سے اِس واقعہ پر آپ کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے آئی ہوں۔ پچھلی چند دہائیوں میں ہمارا معاشرہ شرمناک حد تک بد صورت ہو چکا ہے۔ ہم نے دہشت گردی کو ختم کر دیا تھا۔ ہم انتہا پسندی کو ختم کرنے کے بارے موثر اقدامات کی ضرورت کو محسوس کرتے ہیں اور اگر ہمیں وقت ملا تو ﷲ کی مرضی سے اِس کو ختم کر کے دم لیں گے۔ مَیں نے آپ کے دیگر ساتھیوں کو بھی یقین دلایا ہے کہ ہم ہر صورت اِس امر کو یقینی بنائیں گے کہ آئندہ اِس طرح کا واقعہ رونما نہ ہو اور ایسی کارروائی کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے'۔

اپنی گفتگو کے دوران وہ مسز آئلین جاوید کی بے چینی کو بھانپ کر اپنی بات مختصر کرتے ہوئے رُک گئیں اورکہنے لگیں؛ 'مجھے لگ رہا ہے آپ کچھ کہنا چاہ رہی ہیں'۔ آئلین نے کہا؛ 'آپ بجا فرما رہی ہیں مگر میرا خیال ہے کہ اِس انتہاپسندی کے پھلنے پھولنے میں آپ کی جماعت نے بھی حصہ ڈالا ہے۔۔۔' مریم بی بی نے آئلین کی بات کو بیچ میں کاٹ کر کہا۔ آئلین آپ درست کہہ رہی ہیں۔ آپ نے ایک سخت بات نہایت نرم لہجے میں کی ہے۔ عام طور پر لوگ ایسی بات نہیں کرتے۔ مجھے آپ کی بے باکی اچھی لگی ہے اور میں اِس کا احترام کرتی ہوں۔ پھر اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہنے لگیں۔ اب کیا بتائیں۔ طاقتور حلقوں کی طرف سے اُن کی پشت پناہی کی جا رہی تھی اور شاید ابھی تک جاری ہے۔ سیاسی قوتیں بہت کمزور، بٹی اور پچھڑی ہوئی تھیں اور اب بھی ہیں۔ ہمارے ہاں بھی سیاسی معاملات میں بالغ پن کا فقدان تھا۔ چنانچہ یہ سب کچھ مجبوری اور کچھ نا سمجھی میں ہوا۔ اِس عمل کو روکنے کے لیے سیاسی قوتوں کا طاقتور ہونا ضروری ہے۔ سیاسی عمل کے تسلسل کے لئے سیاسی جماعتوں کو آپس میں جڑنا ہو گا۔

پھر بات کو سمیٹتے ہوئے پوچھنے لگیں کہ جڑانوالہ میں اب کیا صورت حال ہے۔ مَیں نے جاوید صاحب کی طرف دیکھا تو انہوں نے اختصار کے ساتھ حملے میں ملوث افراد کی گرفتاری اور مرحلہ وار رہائی پر اور پولیس کی تفتیش پر عدم اطیمنان کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ تاحال گرجا گھروں کی بحالی ممکن نہیں ہوئی۔ لوگوں کو فراہم کی گئی رقم ناکافی بھی ہے اور متاثرہ لوگوں میں سے بہت سے اس سے محروم ہیں۔ جاوید صاحب نے مریم بی بی کو مزید بتایا کہ جڑانوالہ میں متاثرین میں سب سے زیادہ مظلوم طبقہ بچے ہیں۔ انہوں نے اپنے والدین کی بے بسی دیکھی ہے۔ وہ اب سکول نہیں جا رہے۔ ستم یہ ہے کہ مقامی لوگ مسیحیوں کو ہی قصوروار ٹھہرا رہے ہیں۔ مریم بی بی کا چہرہ اُتر گیا۔ کہنے لگیں، یہ سب تو اُس سے بھی زیادہ بُرا ہے جو میں نے سُنا ہے۔ میں اِس سانحہ کے ذمہ داران کو سزا دینے کے لئے حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لئے اپنی پارٹی میں بات کروں گی۔ پچھلے دنوں ہم نے پاکستان مسلم لیگ ن کے مینارٹی ونگ کا کنونشن کیا تھا جس میں تمام اقلیتی کارکنان کو 21 اکتوبر کے پروگرام کی ذمہ داریاں دی گئی تھیں۔

مریم بی بی مجھے اقلیتی ونگ پر آپ کی جماعت سے شدید اعتراض ہے۔ مَیں بیچ میں بول پڑا۔ ایک لمحہ کے لئے وہ حیرت سے خاموش ہو گئیں۔ پھر گویا ہوئیں، اِس میں اعتر اض کا کیا پہلو ہے سمن صاحب۔ میں نے عرض کیا، دیکھیں ہم پر جنرل ضیاء الحق نے جداگانہ انتخابات مسلط کر دیے تھے جن کے باعث ہمارا معاشرہ مذہب، فرقوں، ذاتوں اور دیگر دائروں میں تقسیم در تقسیم سے دوچار ہوا۔ ہم نے بڑی جدوجہد کر کے مخلوط انتخابات بحال کروائے جن کے باعث اقلیتوں کو قومی دھارے میں شامل ہونے کا موقع ملا اور اِس کے مثبت اثرات بھی سامنے آنے لگے ہیں۔ تاہم سیاسی جماعتوں میں اقلیتی ونگ بنا کر سیاسی جماعتیں انہیں اپنی ہی جماعت کے اندر مذہب کی بنا پر الگ کر رہی ہیں جو مذہبی امتیاز ہی کی شکل ہے۔ یوتھ ونگ ہو سکتا ہے مگر صنف یا مذہب کی بنیاد پر الگ کرنا قومی دھارے سے الگ کرنا لگتا ہے۔ مریم بی بی سوچ میں پڑ گئیں۔ بولیں، آپ کی بات میں دم ہے۔ یہ تو نہیں ہونا چاہئیے۔ ٹھہرئیے۔ انہوں نے اپنی ساتھی لڑکی کو بولا کہ اِس پوائنٹ کو نوٹ کرے۔ پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر بولیں، اِس جانب توجہ دلانے کے لئے شکریہ۔ یہ تو صریحاً غیر جمہوری ہے۔ میں اِس بارے میں پالیسی کو درست کروانے کا وعدہ کرتی ہوں۔ اُن کا لہجہ معذرت خواہانہ تھا۔ مَیں نے کہا، مریم بی بی، جمہوری رویے آتے آتے ہی آئیں گے۔

مریم بی بی کہنے لگیں، اِس کے لئے اقلیتی ارکان کو بھی بات کرنی چاہئیے۔ میں نے عرض کیا آپ بجا فرما رہی ہیں۔ قابلِ ستائش بات یہ ہے کہ آپ کی جماعت میں اِس کی گنجائش موجود ہے۔ اگر کسی جگہ پر کسی اقلیتی رکن نے اقلیتی ونگ کا عہدہ لینے سے انکار کیا تو اُسے بڑے دھارے میں شریک کیا گیا ہے۔ خانیوال میں میاں چنوں تحصیل کی ایک یونین کونسل کے چیئرمین چوہدری شمعون قیصر کو جب مسلم لیگ کے اقلیتی ونگ کا کوئی عہدہ دیا گیا تو انہوں نے صاف انکار کرتے ہوئے قیادت سے درخواست کی کہ میں مسلم لیگ کے بڑے دھارے میں کارکن ہی بھلا ہوں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ مجھے کوئی دیگر خدمت سونپی جائے تو بڑے دھارے میں ہی دیں۔ جماعت نے انہیں خانیوال میں مسلم لیگ کا نائب صدر مقرر کیا ہے۔ اسی کو مثال بنا کر یہ امتیاز دُور کیا جانا چاہئیے۔ یہ دیگر سیاسی جماعتوں کے لئے بھی ایک مثال ہو گی۔ مریم بی بی بہت خوش ہوئیں۔ کہنے لگیں، آپ تو لاہور میں ہیں اور جنوبی پنجاب کی اِس قدر خوبصورت مثال آپ کو کیسے معلوم؟ میلون مل یوں گویا ہوئے، 'سسٹر ہم تینوں ضلع خانیوال سے ہیں اور چوہدری شمعون قیصر ہمارے ہم عصر اور ہم جماعت ہونے کے ناطے ہمارے گہرے دوست بھی ہیں۔ وہ مسلم لیگ کے رکن صوبائی اسمبلی بھی رہے ہیں۔

مریم بی بی حیرانی سے دلچسپی لینے لگی تھیں تو مَیں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے اُن سے کہا، مریم بی بی، آپ نے جنوبی پنجاب کے مسیحیوں سے بہت زیادتی کی ہے۔ وہ کیسے؟ وہ حیرت زدہ ہو کر بولیں۔ میں نے عرض کیا، دیکھیے اب اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کو پارٹی کی نشستوں کی بنیاد پر پُر کیا جاتا ہے۔ جی بالکل، انہوں نے ہنگورا دیا۔ پنجاب میں مسلم لیگ نواز کی جانب سے اقلیتی ارکان کا چناؤ کرتے ہوئے جنوبی پنجاب کو صریحاً نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ جنوبی پنجاب میں شمعون قیصر اور قیصر سرویا پنجاب بھر سے مسیحیوں کے ووٹ لے کر منتخب ہو کر مسلم لیگ میں شامل ہوئے تھے اور ہمیشہ مسلم لیگ میں رہے ہیں۔ شمعون قیصر نہایت وفادار، ذہین اور سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے رہنما ہیں۔ دوسری طرف قیصر سرویا پاکستان بھر کے مسیحیوں میں ایک دانشور، سماجی کارکن، سیاست دان اور مدبر رہنما کے طور پر پہچان رکھتے ہیں۔ قیصر سرویا اِن دِنوں پاکستان بھر میں مسیحیوں کے مسائل کے حل کے لئے اپنی تنظیم کے ذریعے کوشاں ہیں۔ رحیم یار خان سے ملتان، خانیوال اور ضلع ساہیوال اور لاہور کے بعض علاقوں میں اُن کا اثر و رسوخ ہے۔ دوسری طرف شمعون قیصر ضلع خانیوال، وہاڑی اور چشتیاں میں مسیحی برادری میں مقبولیت رکھتے ہیں۔ اگر مسلم لیگ کی جانب سے چوہدری شمعون قیصر کو صوبائی اور قیصر سرویا کو قومی اسمبلی کی اقلیتی نشستوں کے لئے نامزد کیا جاتا ہے تو خانیوال اور دیگر جگہوں پر مسیحی اقلیت کے ووٹ انتخابات سے قبل ہی مسلم لیگ کے نمائندہ کے ہو جائیں گے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ چوہدری شمعون قیصر اور قیصر سرویا جس جگہ بھی مسلم لیگ کے امیدوار کی انتخابی مہم میں جائیں گے وہ قومی اور صو بائی اسمبلی کے رکن ہی تصور کئے جائیں گے۔ چنانچہ اُن کے زیر اثر جنوبی پنجاب میں مسلم لیگ کے نمائندوں کو اقلیتی ووٹ یقینی ہو جائیں گے۔

مریم بی بی نے کہا، یہ تو آپ نے خوب بات کی ہے۔ پھر اپنی ساتھی لڑکی کو یہ سب نوٹ کرنے کی ہدایت کر کے مجھ سے پوچھا کہ قیصر سرویا کہاں سے ہیں۔ جاوید ڈیوڈ کہنے لگے، میڈم وہ ملتان سے ہیں۔ قیصر سرویا ایک قومی سطح کے لیڈر ہیں۔ سچ بات ہے کہ اگر وہ اسمبلی میں ہوں تو یوں جان لیں کہ ایوان میں ایک اعلیٰ، با وقار اور صاحب الرائے شخص شامل ہے جس کی وفاداری خریدی نہیں جا سکتی۔ جبکہ شمعون قیصر کا تعلق میاں چنوں تحصیل کے گاؤں 135/16 ایل سٹونز آباد سے ہے۔ جب یہ پہلی بار منتخب ہوا تھا تو اُس وقت اِس کی اتنی سیاسی بصارت نہیں تھی تاہم اب وہ ایک بڑی قامت کا سیاست دان اور رہنما ہے۔ میلون مل نے مریم بی بی کو بتایا کہ چوہدری شمعون قیصر کے بعد اُن کے بھائی فتح جنگ نے 1993 میں صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑا تھا۔ پی ٹی وی پر اُن کی جیت کا اعلان بھی ہو گیا تھا۔ وہ پانچویں نمبر پر تھے۔ ایسے ہوا کہ اُس وقت چوہدری شمعون لاہور میں تھے۔ منظور وٹو کے نمائندے نے ہمارے گاؤں میں آ کر فتح جنگ کو 50 لاکھ پیش کئے اور 50 لاکھ لاہور میں منظور وٹو کو ووٹ دینے کے بعد دینے کا وعدہ کیا۔ فتح جنگ نے شمعون قیصر سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ہم میاں صاحب کے ساتھ ہیں اور اُن کے ساتھ رہیں گے۔ اُس کے بعد منظور وٹو نے ساتویں نمبر پر آنے والی امیدوار شیلا چارلس کا نوٹیفکیشن کروا لیا۔ فتح جنگ بعد ازاں عدالتوں میں دھکے کھاتے رہے۔

مریم بی بی نے کہا۔ اتنی بڑی قربانی۔ مسلم لیگ کے ساتھ اُن کی وابستگی کو میں سلام پیش کرتی ہوں۔ اِس کے ساتھ انہوں نے وقت دیکھا تو آدھے گھنٹے سے اوپر ہو چکا تھا۔ پندرہ منٹ گزرے پندرہ منٹ ہو گئے تھے۔ کہنے لگیں، میرے پاس پندرہ منٹ تھے مگر پتہ ہی نہیں چلا۔ آپ کا شکریہ کہ آپ نے وقت دیا اور مینارٹی ونگ اور جنوبی پنجاب والے پہلو کی نشاندہی کی۔ میں وعدہ کرتی ہوں کہ اِس پر ضرور غور کروں گی اور پارٹی میں بات کروں گی۔ ہم سب نے انہیں باہر آ کر رخصت کیا۔ جاتے ہوئے مریم بی بی نے دوبارہ مینارٹی ونگ اور جنوبی پنجاب سے اقلیتی نشستوں پر نمائندگی لینے پر غور کرنے کا وعدہ کیا۔

مزیدخبریں