انسانی حقوق کا عالمی دن ہر سال 10 دسمبر کو منایا جاتا ہے۔ 10 دسمبر 1948 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انسانی حقوق کی قرارداد منظور کی تھی جس میں پوری دنیا میں بسنے والے انسانوں کے بنیادی حقوق کا تعین کرتے ہوئے ان کی فراہمی کو یقینی بنانے کا اعادہ کیا گیا تھا۔ اس سال انسانی حقوق کے دن کے موقع پر “یونیورسل ڈیکلئیریشن آف ہیومن رائٹس” کی 70 ویں برسی منائی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ اس سال انسانی حقوق کے دن کے موقع پر تمام دنیا کے انسانوں کو اپنے اور دیگر انسانوں کے بنیادی، معاشی سیاسی اور سماجی حقوق کیلئے کھڑے ہونے کا پیغام بھی دیا جا رہا ہے۔ اس دن کے موقع پر عالمی برادری کو اس امر سے بھی آگاہ کرنے کی مہم چلائی جائے گی کہ انسانی حقوق کی فراہمی کے بنا سسٹینیبل گروتھ کے ہدف تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ انسان نے شعور اور فہم کی منازل طے کرنے کے بعد اس حقیقت کو جانا ہے کہ ایک صحت مند سماج کی تشکیل کیلئے یہ بیحد ضروری ہے کہ اس میں بسنے والے تمام افراد کو بنا کسی تفریق کے آرا رکھنے اور ان کا اظہار کرنے، تعلیم اور صحت کی سہولیات، نجی اور خاندانی زندگی آزادانہ طور بتانے، انصاف اور صنفی برابری کے حقوق حاصل ہوں۔ اور ریاست یا سماج کی جانب سے ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا منافرت پر مبنی سلوک نہ برتا جائے۔ انسانی حقوق کے حصول کا یہ سفر بیحد طویل اور کٹھن ہے اور انسان نے پچھلی صدی میں انسانی حقوق اور ایک مثبت سماج قائم کرنے میں ان کی حیثیت کو جانا اور پہچانا ہے۔
انسانی حقوق کے دن کی مختصر تاریخ
جنگ عظیم دوئم کے خاتمے کے بعد دنیا کے بیشتر ممالک کو اس امر کا ادراک ہوا کہ کسی بھی جامع انسانی حقوق کی عالمی قانون سازی کے بنا نازی حکومتوں جیسی ظالم حکومتیں اپنے شہریوں اور دنیا کے دیگر انسانوں پر ناقابل یقین حد تک ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھا سکتی ہیں۔ چنانچہ یہ ممالک اس نتیجے پر پہنچے کہ اقوام متحدہ کے ذریعے بنیادی انسانی حقوق کی ایک ایسی قرار داد منظور کروائی جائے جس میں نہ صرف بنیادی انسانی حقوق کی مکمل تشریح موجود ہو بلکہ ان کے تحفظ کو ممکن بنانے کیلئے جامع حکمت عملی بھی موجود ہو۔ دنیا کے مختلف ممالک اور مختلف سیاسی و سماجی پس منظر سے تعلق رکھنے والے 18 افراد پر مبنی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی اور اسے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی قرارداد کا متن تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔
10 دسمبر 1948 کو انسانوں کے حقوق کی قرارداد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کی گئی۔ اس وقت اقوام متحدہ کے ممبران کی تعداد 58 تھی۔ ان اٹھاون ممالک میں سے 48 ممالک نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔ اس قرارداد کے حق میں ووٹ دینے والے ممالک میں پاکستان، بھارت اور چین بھی شامل تھے۔ جبکہ 8 ممالک نے اس قرارداد کے حق یا مخالفت میں ووٹ دینے سے اجتناب کیا۔ ان ممالک میں سعودی عرب روس اور جرمنی شامل تھے۔ سعودی عرب اور روس کا خیال تھا کہ انسانی حقوق کی یہ قرارداد ان کے سیاسی اور سماجی ڈھانچوں پر اثر انداز ہوتے ہوئے اقتدار کے عمل میں رکاوٹ کا باعث بنے گی۔ جبکہ یمن اور ہنڈارس نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال:
پاکستان چونکہ ان ممالک میں شامل ہے جنہوں نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا تھا اس لئے اس سے توقع کی جاتی ہے کہ یہ اپنی سرزمین پر ان بنیادی انسانی حقوق کی پاسداریوں پر مکمل عملدرآمد کروائے گا جن کا ذکر اقوم متحدہ کی قرارداد میں موجود ہے۔ لیکن اس کے برعکس پاکستان میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال انتہائی تشویش ناک امر ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان میں ریاست کی جانب سے اظہار رائے کی آزادی پر قدغنیں عائد ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق پروینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ 2016 کو انسانی حقوق کے علمبرداروں کو ہراساں کرنے اور انہیں پابند سلاسل کرنے کیلئے استعمال کیا گیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی اس رپورٹ کے مطابق جبری گمشدگیوں کا دائرہ کار بھی پاکستان بھر میں پھیل گیا۔ صحافیوں پر نامعلوم افراد کی جانب سے حملوں میں اضافہ ہوا۔ توہین مذہب کے قوانین کے باعث مشعال خان کی جان گئی اور کئی شہروں میں توہین مذہب کو بنیاد بنا کر امن و امان کے مسائل پیدا کیے گئے۔ اقلیتوں کا معاشی و سماجی استحصال جاری رہا۔ کم عمری کی شادی پر پابندی لگانے کی کاوشوں کو پارلیمنٹ نے ناکام بنا دیا۔ 2016 میں غیرت کے نام پر قتل کو ایک جرم قرار دینے کے باوجود عورتوں کو غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا رہا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان میں 58 فیصد گھروں میں خوراک کی کمی ہے اور نیشنل نیوٹریشن سروے کے مطابق 44 فیصد بچے اپنی عمر کے مطابق صحت مند نشوونما پانے میں ناکام رہتے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کی رواں سال میں جاری ہونے والی رپورٹ میں بھی پاکستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق پاکستان میں خواتین، اقلیتیوں اور خواجہ سراؤں کو امتیازی سلوک اور متعدد حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جبکہ حکومت پراسیکیوشن کے ذریعے ذمہ دار افراد کو سزائیں دلوانے اور ان اقلیتوں اور برادریوں کو تحفظ دینے میں ناکام رہی۔ بلوچستان میں جبری گمشدگیاں، توہین مذہب کے قوانین، مذہبی رسومات کی ادائیگی اور مرضی کا عقیدہ رکھنا، پاکستان کے انسانی حقوق سے وابستہ بڑے مسائل کے روپ میں موجود رہے۔ جبکہ خواتین اور بچیوں کے خلاف تشدد، جس میں غیرت کے نام پر قتل، تیزاب گردی، گھریلو تشدد، اور جبری شادی جیسے واقعات شامل ہیں، بڑی تعداد میں رونما ہوئے۔
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ پاکستانی انسانی حقوق کے علمبرداروں کے مطابق ملک میں ہر سال غیرت کے نام پر ایک ہزار کے لگ بھگ قتل کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں اور علمبردار انسانی حقوق کے تحفظ کا مؤثر بیانیہ تشکیل دینے میں ناکام رہے ہیں
پاکستان میں بنیادی انسانی حقوق کی پامالیوں کے مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں دیکھا جاتا ہے جس کی بڑی وجہ آبادی کے ایک بہت بڑے حصے کا اقوام متحدہ یا ریاست کی جانب سے فراہم کردہ اپنے بنیادی حقوق سے متعلق آگہی کا موجود نہ ہونا ہے۔ بہت سی ایسی تنظیمیں اور افراد جو انسانی حقوق کی پاسداری کیلئے کام کرتے ہیں وہ ایک ایسا بیانیہ تشکیل نہیں دے پائے جو آبادی کے نیم خواندہ یا مذہبی رجحان رکھنے والے حصے کو اپنی جانب راغب کرنے پائے۔
مشہور شاعر، ادیب اور دانشور افتخار عارف اس ضمن میں کہتے ہیں کہ تیسری دنیا میں کام کرنے والی انسانی حقوق کی زیادہ تر تنظیمیں غیر ملکی ڈونرز کے اشاروں کی محتاج ہوتی ہیں اور ان کا مقصد فنڈنگ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ یہ تنظیمیں اور اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے کارکن محض تعلقات عامہ کا دائرہ بڑھانے اور میڈیا کی توجہ حاصل کر کے بیرونی فنڈنگ حاصل کرنے کیلئے اجلاس اور سیمینار منعقد کرتے رہتے ہیں۔ افتخار عارف اپنی دانست میں درست بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ اکثر و بیشر انسانی حقوق کے علمبردار بڑے بڑے نام اور تنظیمیں پسے ہوئے طبقات کو نظر انداز کرتے ہیں اور نچلی سطح پر کوئی مربوط کام نہیں کرتے۔ ان کی تقریبات اور سیمینار اکثر و بیشتر بڑے بڑے ہوٹلوں اور کلبوں میں منعقد کیے جاتے ہیں جن میں شرکت کرنے والے زیادہ تر افراد خود اشرافیہ سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ چند پسے ہوئے طبقات سے کچھ افراد کو ان اجلاسوں اور سیمیناروں میں وڈیو شوٹ اور فوٹو سیشن کیلئے مدعو کر لیا جاتا ہے تاکہ ملکی اور غیر ملکی میڈیا پر تشہیر کا سامان پیدا کیا جا سکے۔
جبکہ دوسری جانب مذہبی اور قدامت پسند گروہ اور افراد نے کامیابی کے ساتھ آبادی کے ایک بیحد بڑے حصے کو یہ باور کروا دیا ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور کارکن دراصل غیر ملکی کارندے ہیں جو بیرونی قوتوں کے اشاروں پر پاکستان میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں کو اجاگر کر کے ملک کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں اور کبھی بھی فلسطین، کشمیر یا دیگر دنیا میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں کو اجاگر نہیں کرتے۔
بنیاد پرستوں اور مذہبی گروہوں کا یہ بیانیہ صورتحال کو مزید پیجیدہ بنانے کا باعث بنتا ہے۔ کیونکہ ان پڑھ اور نیم خواندہ افراد جو کہ آبادی کے اکثریتی حصے پر مشتمل ہیں مذہبی بنیادوں پر اس بیانیے پر من و عن یقین کرتے ہیں جس کے نتیجے میں انسانی حقوق سے آگاہی دینا مزید مشکل ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر غیرت کے نام پر قتل اور جبری شادی جیسے جرائم کو مذہبی عقائد سے نتھی کر کے ان جرائم کو قبولیت کی سند دے دی جاتی ہے۔ اسی طرح احمدی برادری اور دیگر اقلییتوں کا استحصال بنیادی حق اور باعث ثواب عمل سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ ایل جی بی ٹی (LGBT) برادری کے پاس تو جینے کا حق ہی موجود نہیں ہے کیونکہ بنیاد پرستوں کے نزدیک ہم جنس پرستی ناقابل معافی گناہ ہے۔
مذہبی اور بنیاد پرست گروہوں کا مذہب کو استعمال کرتے ہوئے آبادی کے ایک بہت بڑے حصے میں اپنے بیانیے کو کامیاب بنانا اور انسانی حقوق کے علمبردار اشخاص اور تنظیموں کا اپنی آرام دہ پوزیشن سے باہر نکل کر مذہبی اور بنیاد پرست گروہوں کو ڈائیلاگ میں شریک نہ کر پانا بھی پاکستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی بڑی وجہ ہے۔
دوسری جانب ریاست ایسے اقدامات اٹھانے اور پالیسیاں مرتب کرنے سے اجتناب برتتی ہے جو کہ مذہبی اور سماجی مقبول خیالات سے متصادم ہوں۔ اس کے باعث وہ گروہ جو انسانی حقوق کی پامالیوں کیلئے مذہب اور سماجی اقداروں کو استعمال کرتے ہیں وہ مزید مضبوط ہو جاتے ہیں۔
پاکستان کے امریکہ میں سابق سفیر حسین حقانی اس ضمن میں مختلف رائے رکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیمیں اور کارکن بہت بہتر کردار ادا کر رہے ہیں۔ حسین حقانی کا کہنا ہے کہ “ریاست کے سپانسرڈ بیانیے کو چیلنج کرنا اور اس سے مختلف سوچ رکھنے پر پابندیوں سے لڑنا آسان کام نہیں ہوتا ہے۔” ان کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کی پاسداری کو ممکن بنانے کیلئے مذہبی اور قدامت پرست گروہوں سے مذاکرات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس ضمن میں حسین حقانی کا کہنا ہے کہ “اس بات کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ مذہبی گروہ جنہیں ریاست کی پشت پناہی حاصل ہے وہ ڈائلاگ کے عمل میں سنجیدہ ہیں۔ ریاست ان گروہوں کو بنیادی انسانی حقوق پر قدغنیں عائد کرنے کیلئے استعمال کرتی ہے اور یہ گروہ اپنے سوا دیگر تمام افراد کو گناہ گار سمجھتے ہیں جن کو خاموش کروانا ان کے نزدیک بیحد ضروری ہے”۔
خیر یہ خیالات اپنی جگہ لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ آئی اے رحمان اور مرحومہ عاصمہ جہانگیر نے اسی سماج میں پرخار راستوں پر چلتے ہوئے ایک اعصاب شکن اور کڑا سفر طے کر کے سماج میں بسنے والے پسے ہوئے طبقات کے حقوق کی جنگ لڑی ہے اور کہیں نہ کہیں ان طبقات کو بنیادی حقوق دلوانے میں کامیای حاصل کی ہے اور اثر انداز ہوئے ہیں۔ مرحومہ عاصمہ جہانگیر کو اسی سال اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے اور اتفاق سے یہ ایوارڈ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی قرارداد کے منظور ہونے کے ستر سالہ جشن کے موقع پر دیا گیا ہے۔
خیر پاکستان میں انسانی حقوق کی پاسداری اور ان کے تحفظ کا سفر بیحد لمبا ہے اور ایک طویل راہ اس ضمن میں طے کرنا باقی ہے۔ امید یہ رکھنی چاہیے کہ پاکستان میں مستقبل میں آئی اے رحمن اور عاصمہ جہانگیر جسی مزید قد آور شخصیات پیدا ہوں گی جو کہ انسانی حقوق کے خلاف موجود بیانیے کو ختم کر کے انسان دوست بیانیے کی بنیاد رکھیں گی۔ کیونکہ جب تک پاکستان میں بسنے والے ہر شخص کو اس کے بنیادی انسانی حقوق نہیں مل جاتے تب تک پاکستان میں ایک صحت مند اور پرامن سماج کا پنپ پانا ممکن نہیں ہے۔ سماج انسانوں سے بنتے ہیں اور انسان جس قدر آسودہ اور مطمئن ہوں سماج بھی اتنے ہی آسودہ اور مطمئن ہوا کرتے ہیں۔ انسانوں کی آسودگی میں کلیدی کردار انسانوں کو ان کے باہمی انسانی حقوق کی فراہمی کا ہوا کرتا ہے۔