• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
اتوار, جنوری 29, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

ہم مثبت خبریں کہاں سے لائیں؟

عامر حسینی by عامر حسینی
نومبر 18, 2019
in انسانی حقوق, سیاست, میگزین
5 0
0
ہم مثبت خبریں کہاں سے لائیں؟
28
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

جب پنجاب کے ضلع خانیوال کی تحصیل جہانیاں میں کورٹ کچہری کے عین سامنے ماں اور بیٹی کو دیرینہ دشمنی کی بنیاد پہ گولیاں مار کر قتل کر دیا جائے اور حملہ آور آسانی سے فرار ہو جائیں تو ایسے میں مثبت رپورٹنگ یہی ہوگی کہ واقعہ من و عن بیان کیا جائے اور حساس ترین علاقے میں سکیورٹی انتظامات پہ سوال اٹھایا جائے۔

مثبت رپورٹنگ یہ بھی ہوگی کہ ریاست کہتی ہے کہ ہر شہری کی جان کی اہمیت برابر ہے تو کیا اس کورٹ میں بیٹھنے والے جج صاحبان کو قتل کرنا بھی اتنا ہی آسان ہوتا جتنا ان ماں بیٹی کو کرنا تھا؟ اگر جواب نہیں میں ہے تو پھر اگلا سوال ’کیوں؟‘ ہی ہوگا۔

RelatedPosts

‘دہشت گردی ختم کرنی ہے تو پی ٹی ایم کو آزاد کرنا پڑے گا’

جنرل باجوہ کی توسیع؟ کابینہ کمیٹی کی آرمی ایکٹ میں ترمیم، ‘دوبارہ تقرر’ کی جگہ ‘برقرار’ لکھنے کی تجویز

Load More

اس خواہش کا اظہار پہلی مرتبہ نہیں کیا گیا

ہمارے حکام کو میڈیا سے یہ شکایت ہے کہ وہ ملک کی منفی تصویر کشی زیادہ کر رہا ہے اور مثبت منظر کم دکھا رہا ہے۔ یہ شکایت پہلی مرتبہ سامنے نہیں آئی۔ آزادی سے پہلے فرنگی سرکار کو میڈیا اور ادیبوں سے شکایت تھی کہ وہ مثبت خبر نگاری نہیں کرتے۔ پھر ہمارے اولین دیسی حاکموں کو شکایت ہوئی کہ مثبت خبر نگاری نہیں ہو رہی۔

افسانہ نگار سعادت حسن منٹو سے کہا جاتا تھا کہ وہ سماج کی ننگی تصویر کشی کرتا ہے۔ اور معاشرے کے کپڑے اتارنے میں لگا ہوا ہے۔ اس نے جواب میں کہا تھا کہ معاشرے کے کپڑے تو پہلے ہی اترے ہوئے ہیں۔ معاشرے کے ننگ کو ختم کیے بغیر صحافی یا ادیب سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ یہ ننگ اپنی خبر، تجزیے یا کہانی میں نہ دکھائیں عبث ہے۔

مظاہروں اور سامنے آنے والے اعداد و شمار کو نہ شائع کریں تو اس سے حقیقت کہاں چھپے گی؟

بلوچستان کے صحافیوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ کوئٹہ پریس کلب کے سامنے بھوک ہڑتالی کیمپ میں متاثرین جبری گمشدگی کی تعداد میں روز بروز اضافے کو نہ دکھائیں یا اس معاملے پہ ہونے والے مظاہروں اور سامنے آنے والے اعداد و شمار کو نہ شائع کریں تو اس سے حقیقت کہاں چھپے گی؟ کیسے ایک شاعر کو اپنے اردگرد جنم لینے والے المیوں کو منظوم کرنے سے روکا جائے گا؟ کیسے کسی دماغ کو ان کہانیوں کو بننے سے روکا جا سکتا ہے جو جبری گمشدگی، مسخ شدہ لاشیں، وسائل کی لوٹ، ریاستی و غیر ریاستی تشدد اور انسانی حقوق کی بے پناہ خلاف ورزیوں پہ تخلیق کی دیوی کو مہمیز لگاتی ہیں؟ سماج سے حساسیت کو ختم کرنے کی کوشش ہمیشہ الٹ نتائج دیتی ہے۔ جب مین سٹریم میڈیا یا علاقائی پریس صورت حال کی معروضی خبر نگاری سے روک دیا جاتا ہے۔ واقعات کی معروف ذرائع سے تصدیق اور ان کی اشاعت و نشر کرنے پہ سنسر لگتا ہے تو پھر دوسرے طریقوں سے ان کی ترسیل ہوتی ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پھر افواہوں کا بازار سرگرم ہوتا ہے۔ پروپیگنڈا ترقی کرتا ہے۔ سچ جھوٹ سے ملتا ہے۔ حقیقت افسانے سے ملتی ہے اور ہر کسی کے پاس اپنا سچ اور اپنا جھوٹ ہوتا ہے۔

قبائلی علاقوں سے متعلق رپورٹنگ کا ایک ذریعہ سکیورٹی ادارے، دوسرا پی ٹی ایم ہے

جن علاقوں میں اس وقت شورش ہے، چاہے ان کا تعلق بلوچستان سے ہے یا قبائلی علاقہ جات سے، وہاں پہ ہوئے فوجی آپریشن اور وہاں پہ اس وقت کی صورت حال بارے جانکاری کا ایک ذریعہ تو سکیورٹی اداروں کے ترجمان ہیں جبکہ دوسرا ذریعہ اس وقت پشتون حقوق کے نام پہ کھڑی سب سے بڑی تحریک پشتون تحفظ موومنٹ کا میڈیا سیل اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ ہیں۔ ان علاقوں تک انسانی حقوق کے آزاد کمیشن کی رسائی نہیں ہے اور نہ ہی میڈیا کے لوگوں کی آزادانہ رسائی وہاں ممکن ہے۔ ایسے میں خبر کے ذرائع بہت حد تک مبہم ہوتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہے افواہیں طاقتور ہوئی ہیں۔ واقعات کے سچے اور جھوٹے ہونے کے بارے میں حتمی رائے قائم کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔

آخرکار شہید بچوں کے دکھی والدین کو اس سانحے بارے ان کے سوالات کے جواب فراہم کرنے میں کیا امر مانع تھا؟

آرمی پبلک سکول پشاور کے سانحے پہ اول دن سے جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ موجود تھا جو کئی سالوں بعد سپریم کورٹ کے حکم پہ بنی مگر یہ کمیٹی بھی غیر مؤثر ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ اگر اس سانحے میں سکیورٹی میں غفلت برتنے کے ذمہ داران کا تعین ہوا ہوتا اور ان کے خلاف کارروائی کو پبلک کیا گیا ہوتا اور معاملات پہ اسرار کا پردہ نہ پڑا ہوتا تو اس سانحے پہ کم ازکم یہ الزام نہ لگتا کہ یہ سانحہ اندر کے لوگوں کی کارستانی ہے۔ اس واقعے کو امریکی سامراجی کیمپ اور ان کے حامی کمرشل لبرل جیسے ایکسپلائٹ کر رہے ہیں ویسے وہ نہ کر پاتے۔ آخرکار شہید بچوں کے دکھی والدین کو اس سانحے بارے ان کے سوالات کے جواب فراہم کرنے میں کیا امر مانع تھا؟ کیا فضل حق ایڈووکیٹ اپنے بچے کی شہادت کے اسباب جاننے کا حق نہیں رکھتا؟ کیا لاپتہ ہوجانے والے افراد کے اہل خانہ یہ سوال کرنے میں حق بجانب نہیں ہیں کہ ان کے پیاروں کو بازیاب کرانے میں حکومت اور ریاست کے جملہ ادارے ناکام کیوں ہیں؟ اور آج تک غائب کرنے والوں کے ذمہ دار عناصر کو باز کیوں نہیں رکھا گیا؟

458 ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دے دی گئی ہے

پاکستان میں معیشت، سیاست اور عام آدمی کی زندگی کے محل وقوع میں کوئی بھی بڑی مثبت خبر آئی نہیں ہے۔ اب جب یہ سطور لکھی جا رہی تھیں تو خبر آئی کہ 458 ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دے دی گئی ہے اور اس میں جان بچانے والی اشد ضروری ادویات بھی شامل ہیں۔ اس سے پہلے ایک بار پھر ڈالر کی قیمت اوپر جانے سے مہنگائی کی تیسری لہر آئی ہے۔ حکومت کے پہلے چار مہینوں میں عوام نے تین بار مہنگائی کے بڑے جھٹکے سہے ہیں۔ تجاوزات کے خلاف آپریشن کی زد میں چھوٹے دکاندار، ٹھیلے و سٹال والے آئے ہیں۔ اس سے ہزاروں خاندانوں سے دیکھتے ہی دیکھتے روزگار چھن گیا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے بلوچستان میں کل غربت کا 65 فیصد بتاتے ہیں۔ سندھ میں وہ یہ تعداد 34 فیصد اور پنجاب میں 26 فیصد کہتے ہیں۔ لاہور شہر میں کئی سو سکولوں کی عمارتیں گرنے والی ہیں۔ صوبائی وزیر تعلیم کا کہنا ہے کہ وہ ان کی فی الفور مرمت نہیں کروا سکتے کیونکہ فنڈ نہیں ہیں۔ اگر چیف منسٹر پنجاب پچاس ارب روپے کا پیکج ڈیرہ غازی خان کو دے سکتے ہیں تو لاہور کے سو سے زائد خستہ سکولوں کے لئے ان کا صوابدیدی اختیار حرکت میں کیوں نہیں آتا؟ وزیراعظم میانوالی کو خصوصی پیکج دے سکتے ہیں تو یہ خصوصی پیکج لاہور کے خستہ حال سکولوں کے لئے کیوں نہیں آ سکتا؟ سرائیکی صوبہ بنانے کے وعدے پہ بھی عمل سو دن میں نہیں ہوا۔ اب تک کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔

سماج میں چین، سکھ، شانتی پیدا کیے بغیر ان سب کے ہو جانے کی خبر کیسے دی جائے؟

اس صورت حال میں جس قسم کی خبر نگاری کو حکام مثبت خبر نگاری کہتے ہیں وہ کرنا سرے سے ممکن نہیں ہے۔ سماج میں چین، سکھ، شانتی پیدا کیے بغیر ان سب کے ہو جانے کی خبر کیسے دی جائے گی اور ان کے نہ ہوتے ہوئے کالم یا تجزیہ میں حکومت کی تعریف اس باب میں کیسے ہوگی؟

Tags: آرمی پبلک سکولپشتون تحفظ تحریکپی ٹی ایمحکومت پاکستانعامر حسینیلاپتہ افرادمثبت رپورٹنگنیا دور
Previous Post

وزیراعظم صاحب! منی ٹریل تو بنتی ہے

Next Post

خواتین کے خلاف تشدد اور “یونائیٹ” مہم

عامر حسینی

عامر حسینی

Related Posts

اتنا جھوٹ بولوں گا کہ اور خطرناک ہو جاؤں گا

اتنا جھوٹ بولوں گا کہ اور خطرناک ہو جاؤں گا

by عاصم علی
جنوری 29, 2023
0

لوگوں کو اتنا جھوٹ بار بار بتاؤ کہ وہ سچ ماننے لگ جائیں اور جھوٹ اس حساب سے بولنا ہے کہ پہلے...

اصالتِ ماہیت اور مکتبِ خراسان

اصالتِ ماہیت اور مکتبِ خراسان

by حمزہ ابراہیم
جنوری 28, 2023
0

جدید سائنس نے یہ بتایا ہے کہ چیزیں مرکبات (Molecules) سے مل کر بنی ہیں۔ ان کی صفات مرکبات کی ترتیب اور...

Load More
Next Post
خواتین کے خلاف تشدد اور “یونائیٹ” مہم

خواتین کے خلاف تشدد اور "یونائیٹ" مہم

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

Aamir Ghauri Nawaz Sharif

نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟

by عامر غوری
جنوری 27, 2023
0

...

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

by عاصم علی
جنوری 18, 2023
0

...

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

by طارق بشیر
جنوری 18, 2023
0

...

ایک اقلیتی حقوق کے کمیشن کی تشکیل کیسے بارآور ثابت ہو سکتی ہے؟

ایک اقلیتی حقوق کے کمیشن کی تشکیل کیسے بارآور ثابت ہو سکتی ہے؟

by پیٹر جیکب
جنوری 14, 2023
0

...

Ahmad Baloch Kathak dance

بلوچستان کا ایک غریب چرواہا جو بکریاں چراتے چراتے آرٹسٹ بن گیا

by ظریف رند
جنوری 6, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

Cover for Naya Daur Urdu
64,514
Naya Daur Urdu

Naya Daur Urdu

پاکستان کی ثقافت اور تاریخ کو دیکھنے کا ایک نیا زاویہ

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In