• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
ہفتہ, جنوری 28, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

طبلِ جنگ بجنے سے موت کی آخری چیخ تک

سیماب رضا by سیماب رضا
نومبر 18, 2019
in بین الاقوامی سیاست, میگزین
2 0
0
طبلِ جنگ بجنے سے موت کی آخری چیخ تک
12
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

پچھلے سال جَب پہلی بار میرا اردو بلاگ چھپا تو بے حد خوشی ہوئی اور یہ جان کر اور بھی زیادہ کہ یہ بلاگز پوری دنیا میں پڑھے جاتے ہیں۔ کافی عرصے سے کُچھ لکھا نہیں تو پڑھنے والے پوچھنے لگے کہ آپ لِکھ کیوں نہیں رہیں؟ جواب میں یہی کہا کہ جَب دِل کو کوئی بات لگے گی تو ضرور لکھونگی۔ خدا کرے کہ یہ بلاگ ہندوستان میں رہنے والوں کی، یا کم از کم جاوید اختر صاحب کی نظر سے ضرور گزر جائے۔

پلوامہ واقعے کے بعد جِس طرح بھارتی میڈیا اور فنکاروں نے پاکستان کے خلاف بولنا شروع کیا اور اُس کے بعد جَب وزیرِاعظم عمران خان نے جوابی بیان دیا تو دِل کی حالت بہت ہی عجیب ہو گئی اور میں یہ تحریر لکھنے پر مجبور ہوئی۔ میں پچھلے تیرہ سال سے کینیڈا میں مقیم ہوں، یہاں آنے سے پہلے پاکستان میں آرمی بپلک کالج میں بطور لیکچرر درس وتدریس سے منسلک رہی۔

RelatedPosts

آپریشن جبرالٹر، جس کی ناکامی سے 1965 کی جنگ شروع ہوئی

پاک فوج نے بھارتی جاسوس کاپٹر پاکستانی سرحد کے اندر داخل ہونے کی کوشش کے دوران مارگرایا

Load More

کینیڈا آنے کے بعد کوئی جاب نہیں کی لیکن 2018 میں یہاں کے مقامی سکول بورڈ میں رضاکارانہ طور پر انگریزی زبان کی تعلیم دینا شروع کی۔ طریقہ کُچھ یوں تھا کہ ایک دَس ہفتوں پر محیط پروگرام کے لئے مُجھے باقی تمام رضاکاروں کے ساتھ ٹریننگ کے لئے بلایا گیا۔ ٹریننگ مکمل ہوئی اور میں ایک مقامی سکول میں بطور رضاکار انگریزی پڑھانے لگی۔ مُجھے چار طلبہ کی ذمہ داری سونپی گئی جِن کے نام بتانے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ ہر طالبِ علم کی ذاتی انفارمیشن کو خفیہ رکھنے کا حلف وہ مُجھ سے ٹرینگ کے درمیان ہی اُٹھوا چکے ہیں، اس لئے میں یہاں طلبہ کے فرضی نام ہی استعمال کرونگی۔

چار میں سے دو طلبہ مشرقِ وسطیٰ سے آئے ہوئے پناہ گزین ہیں اور دو طلبہ ایسے ہیں جِن کے والدین ہندوستان سے ہجرت کر کے کینیڈا آئے ہیں۔ مُجھے اِن بچّوں کو پڑھاتے ہوئے اب کئی ہفتے گزر چکے ہیں اور اُن میں سے ایک انڈین بچّہ پروگرام کے دس ہفتے مکمل کر چکا ہے۔

دَس ہفتوں کے اختتام ہر مجھے اُس کا ٹیسٹ لینا تھا اور پھر رپورٹ لکھنی تھی۔ فرض کر لیں کہ بچّے کا نام آنند ہے، میں آنند کا ٹیسٹ لے رہی تھی کہ اچانک انگریزی بولتے بولتے نہ جانے کب میں لا شعوری طور پر اردو میں کہنے لگی “چلو آنند جلدی سے بتائو یہ کونسی آواز ہے” تو آنند اپنی گول گول آنکھیں اور بڑی کر کے مُجھے دیکھنے لگا اور پھر کہنے لگا “ہاؤ ڈو یو سپیک دِس، مائی مدر سپیکس دِس لینگویج (آپ یہ زبان کیسے بول سکتی ہیں؟ یہ زبان تو میری والدہ بولتی ہیں)”۔ میں نے جواب دیا کیونکہ “میں پاکستانی ہوں اور مُجھے اردو بولنے آتی ہے”۔

وہ فوراً بولا “اردو کیا ہوتی ہے؟” میں نے جواب دیا “اردو بالکل ہندی جیسی ہوتی ہے”

اِس پر اُس نے پوچھا “کین یو سپیک پنجابی؟ (کیا آپ پنجابی بول سکتی ہیں؟)”

تو میں نے جواب دیا ” آہو مینو پنجابی وی آندی اے۔ توں پنجابی اے؟ (ہاں مجھے پنجابی بھی آتی ہے۔ تم پنجابی ہو؟)” تو وہ جواب دینے کی بجائے شرما گیا۔ میں یہ بتانا بھول گئی کہ اِن بچّوں کی عُمر کوئی چھ یا سات سال کے لگ بھگ ہے، اِس لئے بہت ہی معصوم ہیں۔

اِس گفتگو کے بعد آنند کا ٹیسٹ مکمل ہو گیا اور اُس نے سَب ٹھیک ٹھیک بتایا۔ میں نے اُس سے کہا کہ “آنند یو گاٹ فُل مارکس (آنند تمہیں پورے نمبر ملے ہیں)” وہ بہت خوش ہو گیا اور پھر میں نے اُسے انگریزی میں بتایا کہ آنند میں تمہارے لئے ایک گفٹ لائی ہوں اور چونکہ تُم نے اتنا اچھا ٹیسٹ دیا ہے اِس لئے یہ رہا تمہارا گفٹ۔ گفٹ دیکھ کر اُس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ وہ ایک چھوٹا سا پیکٹ تھا جِس میں “لیگو” تھے۔ مُجھے وہ دو ڈالر کا ڈالر سٹور سے مِل گیا تھا۔ لیکن آنند کے لئے اُس کی قیمت اتنی تھی جتنے کی اُس کی آنکھوں کی چمک۔ میں نے اُس سے انگریزی میں کہا کہ اِس تحفے کو سکول میں نہیں کھولنا اور گھر جا کر اپنی امّی کو دکھانا اور پھر اُن کے سامنے کھولنا تاکہ وہ بھی خوش ہوں اور تُم پر فخر کریں۔ آخِر میں میں نے آنند سے کہا “آنند اپنی امّی کو یہ بھی بتانا کہ میری مِس پاکستانی ہیں”۔ یہ کہہ کر میری انکھوں میں آنسو آ گئے اور زندگی میں پہلی بار مُجھے بہت شدّت سے احساس ہوا کہ پاکستانی اور ہندوستانی قوم کو کِس طرح جنگ کی بھٹی میں جھونکا گیا ہے، وہ تمام تر باتیں میرے دماغ میں پھرنے لگیں جو بچپن سے ہمیں نصاب میں اور ٹی وی پروگراموں میں دکھائی اور سنائی جاتی ہیں۔ ویسے ہی پروگرام ہندوستان میں وہاں کے لوگوں کو دکھائے، پڑھائے اور سنائے جاتے ہیں۔

میں نے اپنے آپ سے پوچھا “سیماب، کیا تیرے پاس اِن بچّوں کی معصومیت کا کوئی جواب ہے؟ اور اگر تو اِن سے محبت کرتی ہے تو کیا تو اچھی پاکستانی نہیں رہی؟”

میرا سوال یہی ہے کہ آخر حب الوطنی کا معیار یہی کیوں ہے کہ ہندوستانی پاکستانیوں سے نفرت کریں اور پاکستانی ہندوستانیوں سے؟ ہندوستان اور پاکستان میں بسنے والے کیا جانیں کہ جب اِن دونوں ممالک کے بیچ تناؤ پیدا ہو جاتا ہے تو ہم پردیسی کِس طرح تڑپ جاتے ہیں۔ ہمارا روز کا اُٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے، بات چیت ہوتی ہے، دوستیاں ہوتی ہیں، کبھی کسی پارک میں کبھی بچّوں کے سکول کے باہر۔ ملک میں رہنے والے بالکل اِس بات کو محسوس نہیں کر سکتے کہ بیرونِ ملک پاکستانی اور ہندوستانی کتنے اچھے دوست بَن جاتے ہیں۔ جَب اِن دونوں ملکوں کے درمیان ٹھن جاتی ہے تو نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں ایک دوسرے سے نفرت کا احساس پیدا کرنا پڑتا ہے جو کہ پیدا ہو ہی نہیں پاتا۔

اِس بات سے کسی کو انکار نہیں ہے کہ کشمیر میں ہندوستان نے ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں لیکن ابھی جِس شان سے سعودی شہزادے کو پاکستانی اعزاز سے نوازا گیا حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ سعودی عرب مغربی ممالک سے ہتھیار خرید کر کِس بے دردی سے یمن پر مظالم ڈھا رہا ہے، اُس سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا معیار دہرا ہے۔ نہ تو یمن سعودی عرب کا اندرونی معاملہ ہے اور نہ ہی کشمیر ہندوستان کا۔ جہاں بات لاکھوں انسانی جانوں کی آ جائے وہاں معاملہ انسانیت کا ہوتا ہے اور ہر انسان کا فرض ہے کہ اُس پر آواز اُٹھائے۔
ہندوستان سے کشمیر پر بات ضرور کیجیے لیکن یمن کی طرف سے آنکھ بند کر لینا کہاں کی انسانیت ہے؟ مانا کہ جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات ہوتی ہے لیکن دوسرے اسلامی ممالک پر ہونے والے ظلم پر چپ سادھ لینا کیا ظلم کا ساتھ دینا نہیں ہے؟

ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ کا نعرہ لگا کر معصوم بے گناہ عوام کو موت کے منہ میں دھکیلنے سے بہتر ہے کہ آرام سے بیٹھ کر بات کی جائے۔ کسی کشمیری نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ اِس لڑائی میں نقصان کسی کا نہیں ہو رہا، بارڈر کی دونوں جانب بچّے صرف غریب کے مارے جا رہے ہیں۔ یاد رکھیے کہ طبلِ جنگ بجنے سے موت کی آخری چیخ تک کا دورانیہ بہت خوفناک ہوتا ہے۔ اُس کے بعد دِل دہلا دینے والی خاموشی ہوتی ہے، بہت سے دریدہ بدن، ہزاروں لاشیں اور بھکرے ہوئے بالوں میں سسکتے سندور یا کسی بیوہ کی سسکیاں۔

اے خدا! تو بھی اِس جنگ کو منظوری نہ دیجیو۔

Tags: پاک بھارت جنگجنگ کا طبلسیماب رضا
Previous Post

ملعون کیمرا، مریم کا سر اور سرخ نشان

Next Post

پاک بھارت: 70 سال کے جڑواں ضدی بوڑھے

سیماب رضا

سیماب رضا

Related Posts

کراچی شہر میں پانی کی قلت پیدا کرنے میں کس کس کا ہاتھ ہے؟

کراچی شہر میں پانی کی قلت پیدا کرنے میں کس کس کا ہاتھ ہے؟

by محمد عبدالحارث
جنوری 27, 2023
0

کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے 36 سالہ سپروائزر فرقان اختر کو منگھوپیر ضلع غربی میں اپنی موٹرسائیکل پر سڑکوں پر گھوم...

پنجاب کی نگران کابینہ میں کون کس کا رشتے دار ہے؟

پنجاب کی نگران کابینہ میں کون کس کا رشتے دار ہے؟

by وجیہہ اسلم
جنوری 27, 2023
0

سیاسی رشتے دار، بیوروکریٹ، بزنس مین اور نئے چہرے نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی کی کابینہ میں شامل ہیں۔ گورنر ہاؤس...

Load More
Next Post
پاک بھارت: 70 سال کے جڑواں ضدی بوڑھے

پاک بھارت: 70 سال کے جڑواں ضدی بوڑھے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

Aamir Ghauri Nawaz Sharif

نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟

by عامر غوری
جنوری 27, 2023
0

...

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

by عاصم علی
جنوری 18, 2023
0

...

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

by طارق بشیر
جنوری 18, 2023
0

...

ایک اقلیتی حقوق کے کمیشن کی تشکیل کیسے بارآور ثابت ہو سکتی ہے؟

ایک اقلیتی حقوق کے کمیشن کی تشکیل کیسے بارآور ثابت ہو سکتی ہے؟

by پیٹر جیکب
جنوری 14, 2023
0

...

Ahmad Baloch Kathak dance

بلوچستان کا ایک غریب چرواہا جو بکریاں چراتے چراتے آرٹسٹ بن گیا

by ظریف رند
جنوری 6, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

Cover for Naya Daur Urdu
64,514
Naya Daur Urdu

Naya Daur Urdu

پاکستان کی ثقافت اور تاریخ کو دیکھنے کا ایک نیا زاویہ

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In