مولانا کے لانگ مارچ سے متعلق حکومت پہلے دن سے ہی غلط اندازے لگاتی رہی یا یوں کہیں کہ ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کا مظاہرہ کرتی رہی۔ حکومتی جغادری اسے متنازع انتخابات میں اپنی ’کامیابی‘ اور مولانا کی شکست قرار دے کر ان کا مذاق اڑاتے رہے اور کہتے رہے کہ عوام نے مولانا کو مسترد کر دیا ہے اور ان کے پاس افرادی قوت ہی نہیں کہ وہ ملین مارچ کر سکیں۔
اس حکومت کا سب سے بڑا المیہ ہی یہ ہے کہ اس میں شامل ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ کیونکہ ہم امپائر کی مدد سے آئے ہیں اس لئے ہمیں کوئی خطرہ نہیں گو کہ ان میں ایک کثیر تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو تقریباً ہر حکومت کے ساتھ رہ چکے ہیں اور انہیں بخوبی علم ہے کہ جو حکومتیں کسی کے اشارہ ابرو پر بنتی ہیں ان کی رخصتی بھی وہی طے کرتے ہیں۔ اس حکومت کے مرکزی اور صوبائی وزرا کرام نے شائد مولانا اور حزب اختلاف کے دیگر قائدین کی تضحیک کو اپنے منشور میں شامل کر لیا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ مولانا کو کبھی بارہواں کھلاڑی اور کبھی ڈیزل کہہ کر ان کا تمسخر اڑاتے رہے۔
راولپنڈی کے شیخ صاحب جو ’پنڈی والوں‘ سے تعلقات کی نسبت پہچانے جاتے ہیں ابھی کل تک کہہ رہے تھے کہ مولانا سے وہ لوگ بات کر رہے ہیں جو کرتے رہے ہیں اور جن کی بات سنی جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مولانا ’فیس سیونگ‘ مانگ رہے ہیں جو انہیں دے دینی چاہیے لیکن لاہور میں مولانا صاحب کی مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کرنفرنس سننے کہ بعد ‘گذارش’ کر رہے ہیں کہ مولانا کو بات چیت کے دروازے بند نہیں کرنا چاہئیں۔
ہر پارٹی انتخابات جیتنے کے بعد حکومت چلانے کے لئے حزبِ اختلاف سے تعلقات کار بہتر رکھنا چاہتی ہے تاکہ سکون سے امور مملکت چلائے جا سکیں لیکن اس حکومت کے وزیر اعظم نے اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر ہی میں دھمکیاں دیں کہ کسی کو این آر او نہیں ملے گا، یہ سب چور اور ڈاکو ہیں اور اس کے بعد تمام وزرا کرام نے اس کو کورس کی شکل میں گانا شروع کر دیا۔ دیکھا جائے تو اس حکومت کو ایک آئیڈیل حزب اختلاف ملی تھی جس نے نہ صرف یہ کہ مولانا کے کہنے پر اسمبلی سے استعفا نہیں دیا بلکہ مولانا کو اس بات پر قائل کر لیا کہ وہ بھی استعفا نہیں دیں گے۔ حکومت کو احساس ہونا چاہیے تھا کہ ان کے پاس سادہ اکثریت بھی نہیں اور وہ دیگر پارٹیوں کی بیساکھی پر کھڑی ہے لیکن حکومت وقت نے پہلے دن ہی گنڈاسہ اٹھا کر جنگ کا اعلان کر دیا۔
اگر اس ایک سال میں حکومتی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یا تو انہوں نے پچھلی حکومت کے پروجیکٹس پر اپنے نام کی تختیاں لگائی ہیں یا پھر نیب پر دباؤ ڈال کر اپنے مخالفین کو جیلوں میں ڈا لا ہے۔ اس حکومت کے وزرا کی کارکردگی پریس کانفرنسز اور ٹاک شوز میں زبانی جمع خرچ کے سوا کہیں نظر نہیں آتی۔ ان لوگوں کے پاس ہر سوال کا ایک ہی جواب ہے کہ ہمیں ملک تباہ حالت میں ملا ہے۔
اب ذرا آتے ہیں لانگ مارچ کی طرف تو مولانا یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ انہیں اسمبلی سے دور رکھنے میں کن قوتوں کا ہاتھ ہے۔ مولانا کا کہنا ہے کہ 2013 میں بھی انہی قوتوں نے ان کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈال کر انہیں صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت سازی سے باہر کر دیا لیکن انہوں نے صبر سے کام لیا۔ اگر دیکھا جائے تو مولانا صاحب نے تو 2018 کے انتخابات کے فوراً بعد ہی ان انتخابات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا لیکن مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سے مشورے کے بعد اپنا احتجاج مؤخر کر دیا۔ اس دوران وہ نچلے نہیں بیٹھے بلکہ انہوں نے ملک کے تمام بڑے شہروں میں ملین مارچ نکالے اور اپنے کارکنوں کو مسلسل متحرک کیے رکھا۔
مولانا کے مطالبات کو دیکھا جائے تو بنیادی نکتہ وہی ہے جو مسلم لیگ (ن) کے قائد کا ہے یعنی ’ووٹ کو عزت دو‘۔ مولانا نے جیل میں میاں صاحب سے ملاقات بھی کی اور ان کی مکمل تائید حاصل کر کے لوٹے جبکہ پیپلز پارٹی سے ملاقات کے بعد انہیں مایوسی ہوئی لہٰذا انہوں نے اپنی توجہ کا مرکز مسلم لیگ (ن) کو ہی بنائے رکھا۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ عدالت عظمیٰ سے اپنی نااہلی کے بعد نواز شریف نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے مختلف مقامات پر خطاب کرتے ہوئے عوام سے وعدہ لیا تھا کہ وہ جب اور جہاں سے کال دیں گے تو عوام لبیک کہیں گے۔ بجا کہ مولانا نے اس سال میں پندرہ بڑے ملین مارچ کے ذریعے اپنے حلقہ انتخاب کو لانگ مارچ کے لئے تیار کر لیا تھا لیکن مولانا کے لانگ مارچ میں جان نواز شریف کی اسی کال سے پڑی ہے جو انہوں نے احتساب عدالت میں پیشی کے وقت عوام کو دی۔ اب مولانا کے ساتھ صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی علاوہ پنجاب کی عوام بھی بڑی تعداد میں ہوگی۔
اس ایک سال میں مہنگائی اور بیروزگاری نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ معاشرے کا کون سا طبقہ ہے جو اس حکومت سے نالاں نہیں؟ لوگ سڑکوں پرآ کر مظاہرے کر رہے ہیں۔ اس سے قبل کہ غیض و غضب سے بھری عوام قانون کو ہاتھ میں لے، حزب اختلاف کی جماعتوں کا لانگ مارچ وقت کی ضرورت ہے تاکہ احتجاج کو قانون کی حدود میں رکھا جا سکے۔
اب آخر میں یاد کیجئے کہ میاں صاحب نے کہا تھا کہ میری جنگ نہ عمران کے خلاف ہے اور نہ زرداری کے بلکہ یہ جنگ ‘خلائی مخلوق’ کے خلاف ہے جو نظر نہیں آتی لیکن واردات ڈال دیتی ہے۔ اور اب ذرا اس پر بھی غور کیجئے کہ پچھلے ایک ہفتے سے مولانا صاحب بالواسطہ طور پر کس کو مخاطب کر کے خبردار کر رہے ہیں تو بات سمجھ میں آ جائے گی۔
یہ جنگ اس ’آسیب‘ کے خلاف ہے جو پچھلے 72 سال سے اس ملک پر قابض ہے اور نظر بھی نہیں آتا۔ ہم اس قسم کا احتجاج ماضی قریب میں ترکی میں دیکھ چکے ہیں۔ ملک فیصلہ کن مرحلہ میں داخل ہو چکا ہے کہ اب نہیں تو کبھی نہیں۔ فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہے۔ شاعرِ انقلاب فیض احمد فیض کہتے ہیں؛
یہ بازی عشق کی بازی ہے جو چاہے لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں