• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
بدھ, اگست 17, 2022
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

’لبرل‘ آمر کی خوبیاں؟

رامیش کمال سیّد by رامیش کمال سیّد
نومبر 18, 2019
in سیاست, میگزین
8 0
0
’لبرل‘ آمر کی خوبیاں؟
10
SHARES
46
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

ہنگامہ خیز اور پرتشدد حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے جو تلخی اور متشدد رویوں سے مزین ہیں اور پوری پاکستانی ریاست کو گھیرے ہوئے ہیں یہ شاید حیران کن امر نہیں ہے کہ پاکستان کی پہلے سے موجود مختصر ترقی پسندوں کی برادری میں سے کچھ افراد غیر روایتی لبرل سیاسی خیالات اور نظریات کی جانب مائل ہو رہے ہیں۔ ان غیر روایتی تصورات میں سے سب سے بڑا خیال یہ ہے کہ سیکیولر اور لبرلز پر مشتمل مطلق العنان کی وقتی اسٹیبلشمنٹ کسی طور ملکی مسائل کو کم سے کم پچاس فیصد کم کر کے ایک مستحکم جمہوریت کی بنیاد رکھے گی۔ گو ابتدا میں یہ نظریاتی طور پر منتشر گروہ کو ایک پرکشش خیال لگتا ہے جس سے وہ اپنے بگڑے حالات سنوار سکتے ہیں اور تصور کرتے ہیں کہ ایک ہم آہنگ سوچ والے مشترکہ امیدوار کو طاقت سونپ دی جائے جو پھر بتدریج اختلاف کرتی آوازوں کو ختم کر سکے۔ اس طرح کی سوچ فلسفیانہ طور پر ہی متضاد اور تباہ کن ہے۔

اگر آپ مقبولیت کو تمام چیزوں سے مقدم جانتے ہیں جو کہ کسی بھی طور پر عقلمندانہ فعل نہیں ہے تو آپ کو تمام مقبول خواہشات کو غیر مشروط طور پر تسلیم بھی کرنا چاہیے۔

یہ چند ترقی پسند اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے پاکستانی جو "لبرل آمر” کے اس خواب کو تعبیر کی جانب لے جانے کی بات کرتے ہیں نہ صرف کھلم کھلا اپنے مخالفین کے منہ پر اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ لوگوں کی آراء ان کے نزدیک محض اس وقت اہمیت رکھتی ہے جب وہ ان کے خیالات سے مطابقت رکھتی ہے بلکہ وہ کھلم کھلا دانشوارانہ محاذ پر اپنی شکست کا اعتراف بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ آخر کار کسی بھی فرقے یا سوچ کے پیروکار فریب خیال میں مبتلا ہو کر خود کو ان  دھوکوں میں مبتلا رکھ سکتے ہیں جن کا محور طاقت پر قبضہ جمانا اور ان تمام متبادل نظریات کو ختم کرنے کے گرد گھومتا ہے جو تنقیدی جائزے کے گرد گھومتے ہیں اور ان میں سے چند مقبول خیالات پر بھی حاوی آ جاتے ہیں۔ اس طرح کے افراد کو پھر جمہوریت سے لگاؤ بھی چھوڑ دینا چاہیے۔ اگر ان کے نزدیک نظام محض اس وقت ہی معتبر ہے جب وہ ان کے مخصوص مفادات کا تحفظ کرے۔ اگر آپ مقبولیت کو تمام چیزوں سے مقدم جانتے ہیں جو کہ کسی بھی طور پر عقلمندانہ فعل نہیں ہے تو آپ کو تمام مقبول خواہشات کو غیر مشروط طور پر تسلیم بھی کرنا چاہیے۔

RelatedPosts

جدید مغربی طرزِ جمہوریت، انڈین نیشنل کانگرس اور متحدہ قومیت کی تشکیل کا نام نہاد فلسفہ

وطن عزیز پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت کا مستقبل

Load More
اومر ٹوریہوژ، پانامہ کا سابق ملٹری ڈکٹیٹر جو عوام میں بیحد مقبول تھا

حقیقت پسندی پر مبنی بات کی جائے تو ترقی پسند فرد کا کسی طور آمر بن جانے کا نظریہ پہلے سے ہی ایک نامعقول قیاس ہے۔ وہ کس طرح سے طاقت حاصل کریں گے اور اس پر گرفت قائم رکھیں گے؟ ان کی تائید کرنے والوں کی بنیادیں کہاں ہوں گی؟ اور وہ کس قسم کی خاص پالیسیوں کو اپنائیں گے؟ محسوس یوں ہوتا ہے کہ ابھی تک کسی نے بھی گہرائی میں جا کر کامیابی کے ساتھ "لبرل آمر” کو مسلط کرنے کے محرکات کے بارے میں غوروفکر نہیں کیا ہے۔ اگر بحث کی خاطر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ ایک ‘صحیح’ فرد طاقت حاصل کرے گا پھر بھی اس بات کا امکان بیحد کم ہے کہ وہ مطلوبہ تبدیلی لا پائے گا۔

پاکستان ایک منتشر اور بدنظمی کا شکار ریاست ہے جہاں قانون اور آئین کی عملداری ناپید ہے اور مرکزی حکومت کی اپنے اختیارات کو استعمال کرنے کی صلاحیت بھی محدود ہے۔ پاکستان نے اپنی تاریخ کا آدھا حصہ فوجی مارشل لاؤں تلے بتایا ہے اور اس سے گلیوں میں بسنے والے عام آدمی کی زندگی پر کوئی مثبت فرق نہیں پڑا ہے۔ ایک لبرل آمر کو اپنے تمام اصول بھلا کر قدامت پسند عوام کو خوش رکھنا پڑے گا اور ادارے بنانا پڑیں گے تاکہ وہ اپنی پوزیشن برقرار رکھ سکے۔

ابتدائی طور پر اگر ہمارا لبرل آمر معجزانہ طور پر اپنی مرضی مسلط کرنے میں کامیاب ہو بھی جائے تو اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ وہ تبدیل ہو کر ایک ظالم آمر نہیں بنے گا جیسے کہ کئی دور جدید کے آمر بن چکے ہیں۔ عراق کا صدام حسین، شام کا بشار الاسد اور شاہ ایران یہ تمام آمر ترقی پسند مزاج کے حامل اور سیکیولر اقدار کی جانب مائل تھے لیکن کوئی بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ ان تینوں پسندیدہ رہنماؤں نے شدت پسند متبادل ذرائع کو فروغ دیا۔

ایک پاکستانی لبرل آمر شدت پسندی ختم کرنے کے بجائے شدت پسندی کے خطرے کو زندہ رکھنا چاہے گا تاکہ اس کی آڑ میں وہ اپنی کوتاہیاں چھپا سکے۔ ایک سیاستدان کیلئے یہ سودمند ہوتا ہے کہ وہ دو برے اشخاص میں سے کم برا شخص ہے، جبکہ آمر کیلئے یہ خدا کی جانب سے ایک تحفہ ہوتا ہے اگر اس کا دشمن غیر منطقی بنیاد پرست ہو جو ریاست کی بقا کیلئے خطرات پیدا کرنے کی استعداد تو نہیں رکھتا لیکن عوام کو دہشت زدہ کرنے کی قابلیت رکھتا ہے، اور عوام پھر اپنے مسیحا (آمر) کے سامنے سربسجود ہو جاتی ہے تاکہ وہ انہیں بچا سکے۔ شام میں بشارالاسد سول وار کے باوجود ابھی تک اقتدار کی مسند پر فائز ہے کیونکہ اس کی معتدل مزاج اور جمہوریت پسند اپوزیشن کی جگہ داعش اور مختلف شدت پسند تنظیموں نے لے لی ہے۔ متبادل کی ساکھ متاثر  ہونے سے دمشق کو بے پناہ فائدہ حاصل ہوا ہے۔

اس لئے اس بات پر شک کرنے کی گنجائش بہت کم ہے کہ ایک سیکیولر پاکستانی آمر اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کی خاطر عوام کے خلاف ایک غیر معمولی خطرے کو تیار نہیں کرے گا۔ اگر ہمارا آمر اپنی مرضی مسلط کرنے کی صلاحیت رکھنے والا ہوا تو وہ ظلم کی جانب مائل ہو جائے گا اور اگر وہ مرضی نہ کر پایا تو وہ ایک اور ناکارہ آمر ثابت ہو گا۔

حقیقت میں یہ انتہائی بیوقوفانہ سوچ ہے کہ کسی وقت "صیح آدمی” اچانک سے نمودار ہو گا اور محض اپنے ارادے کے بل بوتے پر پاکستان کو ایک ترقی یافتہ ملک بنا ڈالے گا۔ پاکستانیوں کی نظم و ضبط والی مضبوط سیاسی جماعتوں اور قابل حکومتی مشینری کو پسند کرنے کے بجائے شخصی کرشمے سے متاثر ہونے کی عادت نے عوام کو مسیحا کے بخار میں مبتلا کر ڈالا ہے جس کے باعث یہ عوام محض یہ تصور کرتی ہے کہ ایک ہیرو آئے گا اور اپنی غیر معمولی قوتوں کے دم پر ملک کے تمام مسائل پلک جھپکتے ہی حل کر ڈالے گا۔ لوگوں کو یہ حقیقت سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کوئی بھی بڑے سے بڑا رہنما بھی اداروں کے ڈسپلن اور فعال بیوروکریسی کے بغیر کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ ہمارے لئے یہ بہتر ہے کہ ہم نامعقول اور مضحکہ خیز باتوں کے بارے میں خواب دیکھنے میں وقت اور وسائل کا زیاں کرنے کے بجائے اپنے وسائل سیاسی نظام کی پختگی، مضبوطی اور اسے بتدریج بہتر بنانے پر صرف کریں۔

Tags: جمہوریترامیش کمال سیدلبرل آمرنیا دور
Previous Post

‘میں خمیازہ ساحل کا’: اردو افسانے کی دنیا میں علی ایک خوشگرار اضافہ ہے

Next Post

سمال ڈاگ سِنڈروم: انٹرنیٹ ٹرولز اور ان کے جارحانہ طرز عمل کا نفسیاتی جائزہ

رامیش کمال سیّد

رامیش کمال سیّد

Related Posts

شاعری سے ٹی ٹی پی کمانڈر تک کا سفر کرنے والے عمر خالد خراسانی کون تھے؟

شاعری سے ٹی ٹی پی کمانڈر تک کا سفر کرنے والے عمر خالد خراسانی کون تھے؟

by عبداللہ مومند
اگست 8, 2022
0

یہ سال 2006ء کا دور تھا اور میں ضلع مہمند کے ایک مقامی سکول میں ساتویں جماعت کا طالب علم تھا۔ ہمارے...

سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف مشہور جھوٹے پروپیگنڈے

سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف مشہور جھوٹے پروپیگنڈے

by حسن نقوی
اگست 8, 2022
0

سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف پروپیگنڈے کئے گئے کہ انہوں نے اپنے ہی سینما کے باہر ٹکٹ بلیک کئے۔ شہید...

Load More
Next Post
سمال ڈاگ سِنڈروم: انٹرنیٹ ٹرولز اور ان کے جارحانہ طرز عمل کا نفسیاتی جائزہ

سمال ڈاگ سِنڈروم: انٹرنیٹ ٹرولز اور ان کے جارحانہ طرز عمل کا نفسیاتی جائزہ

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

Imran Khan lobbying US CIA Station chief

عمران خان کی لابنگ فرم کا سربراہ پاکستان میں CIA کا سابق سٹیشن چیف ہے

by نیا دور
اگست 17, 2022
0

...

سلمان اقبال اور کچھ اینکرز نے مراعات کی خاطر ARY ملازمین کی نوکریاں داؤ پر لگا دیں

سلمان اقبال اور کچھ اینکرز نے مراعات کی خاطر ARY ملازمین کی نوکریاں داؤ پر لگا دیں

by عمر اظہر بھٹی
اگست 13, 2022
0

...

"آپ آزاد ہیں”، نوجوان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے پاکستان کو واپس لیں

"آپ آزاد ہیں”، نوجوان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے پاکستان کو واپس لیں

by عرفان رضا
اگست 13, 2022
1

...

سوات پر عسکریت پسندوں کے سائے: کیا جنت نظیر وادی سوات ایک بار پھر کشیدگی کی جانب گامزن ہے؟

سوات پر عسکریت پسندوں کے سائے: کیا جنت نظیر وادی سوات ایک بار پھر کشیدگی کی جانب گامزن ہے؟

by عبداللہ مومند
اگست 13, 2022
0

...

Salman Iqbal

وہ 5 کیسز جن میں ARY کو برطانیہ میں پراپیگنڈا اور ہتک عزت کا مجرم ٹھہرایا گیا

by نیا دور
اگست 10, 2022
0

...

میگزین

شاعری سے ٹی ٹی پی کمانڈر تک کا سفر کرنے والے عمر خالد خراسانی کون تھے؟

شاعری سے ٹی ٹی پی کمانڈر تک کا سفر کرنے والے عمر خالد خراسانی کون تھے؟

by عبداللہ مومند
اگست 8, 2022
0

...

سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف مشہور جھوٹے پروپیگنڈے

سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف مشہور جھوٹے پروپیگنڈے

by حسن نقوی
اگست 8, 2022
0

...

آمر سے لڑتے ہوئے جان دینے والا "وارث میر”

آمر سے لڑتے ہوئے جان دینے والا "وارث میر”

by بشیر ریاض
جولائی 11, 2022
0

...

Abdul Sattar Tari

عبدالستار تاری – جس کے پائے کا طبلہ نواز آج دنیا میں موجود نہیں

by محمد شہزاد
جولائی 7, 2022
1

...

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

Cover for Naya Daur Urdu
64,738
Naya Daur Urdu

Naya Daur Urdu

پاکستان کی ثقافت اور تاریخ کو دیکھنے کا ایک نیا زاویہ

Naya Daur Urdu

1 hour ago

Naya Daur Urdu
پٹرول کی قیمت کم یا بڑھانے کا اختیار اوگرا کے پاس ہے حکومت کا اس پر کوئی دباؤ نہیں ہے، تیل کی قیمت کا تعین وہی کرتےہیں ہم نے کوئی ٹیکس نہیں لگایا، حکومت کے پاس جیب سے پیسے دینے کی گنجائش نہیں ہے، شاہد خاقان عباسی ... See MoreSee Less

Video

View on Facebook
· Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on Linked In Share by Email

Naya Daur Urdu

2 hours ago

Naya Daur Urdu
شہباز گل کے اوپر آپ جو قانونی چارہ جوئی کرنا چاہتے ہیں کریں کیونکہ انہیں وہ بیان ہرگز نہیں دینا چاہیے تھا، انہوں نے بہت بڑی غلطی کی ہے اس قسم کا بیان قابل قبول نہیں ہے، سینیٹرفیصل جاوید ... See MoreSee Less

Video

View on Facebook
· Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on Linked In Share by Email

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In