• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
ہفتہ, فروری 4, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

قرضوں پر انحصار اس لئے ختم نہیں ہو سکتا کہ ہم چالیس برس سے حالتِ جنگ میں ہیں

محمد ضیاالدین by محمد ضیاالدین
نومبر 20, 2019
in تاریخ, معیشت, میگزین
3 0
0
قرضوں پر انحصار اس لئے ختم نہیں ہو سکتا کہ ہم چالیس برس سے حالتِ جنگ میں ہیں
16
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

محمد ضیاالدین اس مضمون میں کہتے ہیں کہ پاکستان نے اپنی معیشت کے امداد پر دارومدار کا آغاز ایوب خان کے دور سے کیا اور چالیس سال مسلسل جنگ کے دوران ہم اسے ٹھیک نہیں کر سکتے تھے۔ ہمارے وسائل اور دولت کی تقسیم کو بہتر بنائے بغیر مختلف حکومتوں کیلئے معیشت کے ماڈل کو درست کرنا ناممکن تھا۔

پاکستان اس دن سے حالت جنگ میں ہے جب سابقہ سوؤیت یونین نے افغانستان پر چڑھائی کی تھی۔ یہ 1979 کے آخر میں ہوا۔ اور اب سال 2019 آ چکا ہے۔ یعنی تقریباً چالیس برس۔ ان تمام سالوں میں ہم جنگ کی کیفیت میں رہے۔

RelatedPosts

موجودہ دور میں معیشت کی بدترین حالت، بڑی تعداد میں پیسہ باہر گیا: خفیہ ایجنسی کی رپورٹ پر وزیر اعظم عمران خان ہکا بکا

کیس درست بھی ہوتا، نیب ثابت نہ کر پاتی: ضیاالدین؛ ان ہاؤس تبدیلی مشکل ہے: مرتضیٰ سولنگی

Load More

پہلی افغان جنگ، دوسری افغان جنگ، تحریک طالبان پاکستان کے خلاف جنگ، آپریشن راہ راست، آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد، جنوبی اور شمالی وزیرستان سے دہشت گردوں کا صفایا۔ اور ہم سب یہ جانتے ہیں کہ جنگیں خالی جیبوں کے ساتھ نہیں لڑی جاتیں۔ 1979 سے چھڑی افغان جنگ، ہم نے دونوں افغان جنگیں آزاد دنیا بشمول چین اور عرب ممالک کے سے اربوں ڈالرز لے کر لڑیں۔ پہلی افغان جنگ کے وقت ہم نے اندازاً پچاس ارب امریکی ڈالرز وصول کیے۔

لیکن جب 1988 میں ضیاالحق کی موت ہوئی تو اس وقت کچھ بھی دکھانے کیلئے موجود نہیں تھا کہ یہ اربوں ڈالرز کہاں گئے۔ بلکہ مرحوم ڈاکٹر محبوب الحق جو غلام اسحاق خان کی نگران حکومت میں وزیر خزانہ تھے، انہیں آئی ایم ایف کے پاس 15 کروڑ ڈالرز کی ہنگامی امداد لینے کیلئے جانا پڑا۔ لیکن آئی ایم ایف نے کہا کہ معاہدے پر دستخط بینظیر بھٹو کی آنے والی حکومت کے ساتھ ہوں گے۔

الٹی گنگا: لیکن کیا یہ واقعی ضیا کا کیا دھرا تھا؟

لیکن شاید میں الٹی گنگا بہا رہا ہوں۔ ہمیں ابتدا سے جائزہ لینا چاہیے۔ یہ ایوب خان کے دور حکومت کا زمانہ تھا جب فوجی بجٹ کو فنانس کرنے کا آغاز ہوا اور امریکہ سے فوجی مدد (CENTO) اور  (SEATO)کے معاہدوں کے تحت لی گئی۔ یہ امداد ٹینکوں اور دوسری جنگ عظیم کے پرانے لڑاکا طیاروں کی صورت میں آئی۔ بہت سے کنٹونمنٹ کے علاقے بھی اسی امداد کے تعاون سے بنائے گئے۔ اور ایوب خان نے سویلین بجٹ کو امریکہ سے (PL 480) کے تحت لائی گئی امداد کے تحت بھرا۔ اس کے باعث ہماری اپنی گندم کی پیداواری صلاحیت تباہ ہو گئی اور نتیجتاً برصغیر میں گندم پیدا کرنے والا بڑا ملک ہونے سے گندم درآمد کرنے والا ملک بن گئے۔ ایوب خان کی حکومت ٹیکس نہ دینے کے کلچر کے فروغ کا باعث بنی۔ جہاں تک ہماری جانب سے اپنی مالیاتی صلاحیتوں کو بڑھانے کی کاوشوں کا سوال ہے تو یہ ان کے خاتمے کا آغاز تھا۔

ایوب نے دانستاً پاکستان میں ٹیکس کلچر کو پھلنے پھولنے ہی نہیں دیا کیونکہ اسے وڈیرہ شاہی اور ان بڑے کاروباروں کی مدد درکار تھی جو لائسنسوں اور پرمٹوں کے اجرا سے دانستاً کھڑے کیے گئے تھے۔ دوست احباب اور سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے خاندانوں کو لائسنسوں اور پرمٹوں سے نوازا جاتا تھا۔ بہت سے مواقع پر پپلک سیکٹر میں پی آئی ڈی سی کی جانب سے لگائی گئی صنعتوں کو سیاسی حلیفوں کو کوڑیوں کے مول بیچا گیا۔

بنکوں کو اجازت تھی کہ 30 فیصد سرمایہ کاری کے بدلے میں 70 فیصد سرمایہ مہیا کریں جو کہ زیادہ تر ٹیکسٹائل اور کیمیکل کی صنعتوں سے متعلق تھا۔ سرمایہ کار درآمد شدہ مشینری کی قیمت گوشواروں میں زیادہ ظاہر کر کے باقی کی 30 فیصد رقم بھی واپس وصول کر لیتے تھے اور لوٹی ہوئی رقم بیرون ممالک بنکوں میں جمع کروا دیتے تھے۔ اگلے مرحلے میں اپنے کاروبار کے آغاز کے بعد وہ برآمدات کی مالیت کم درج کرواتے اور اس سے حاصل شدہ منافع کو بھی بیرونی بنکوں میں جمع کروا دیتے۔ منی لانڈرنگ کی ابتدا بہت پہلے ایوب خان کے دور حکومت میں ہو گئی تھی۔

لائنسس اور پرمٹ سسٹم

صرف یہی نہیں وہ اپنے کاروبار کے شیئرز سٹاک مارکیٹ میں بیچ کر بھی منافع حاصل کرتے تھے۔ مثال کے طور پر ایک شئیر دس روپے میں ماعکیڑ میں بیچا جاتا تھا اور پھر سٹاک مارکیٹ میں افواہیں پھیلا کر شیئرز کی قیمتیں گرا کر وہی شئیر پانچ روپے میں خرید لیا جاتا تھا۔ اور 99 فیصد حصص اپنے خاندان میں ہی رکھے جاتے تھے۔ اور چونکہ وہ کوئی کاروباری لوگ نہیں بلکہ لائسنسوں اور پرمٹوں کے اجرا کے ذریعے سے کاروباری بنے تھے، اس لئے وہ اپنا سرمایہ کاروبار کو پھیلانے میں استعمال نہیں کرتے تھے اور نہ ہی نئی مشینری خریدتے تھے۔ اور وہ معیاری اشیا فراہم کرنے کے بجائے ٹیکس چوری کے علاوہ بجلی، پانی اور گیس کی بھی چوری کرتے تھے تاکہ ان کا منافع مزید بڑھ سکے۔

حب الوطنی کا پرچار کر کے جو مدت حکمرانی میں توسیع کی گئی وہ ایک الگ داستان ہے۔ لیکن یہاں پر پھر ایک بار کافی ثبوت موجود ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کو اس لئے سولی چڑھایا گیا کیونکہ باقی چیزوں کے علاوہ وہ ٹیکس کے شعبے میں انقلابی اصلاحات لانا چاہتا تھا اور زرعی شعبے پر ٹیکس لگانا اس کی سب سے اولین ترجیح تھی۔

ضیاالحق کے دور میں غلام اسحاق خان کی زیر نگرانی معیشت پر بیوروکریسی کا تسلط

ضیاالحق کا دور حکومت آیا اور غلام اسحاق خان اس حکومت میں معیشت اور مالیات کے شعبہ جات کے وزیر مقرر ہوئے۔ اسحاق خان نے بھٹو کے نیشنلائزیشن کے عمل کو ختم کرنے کیلئے کاروباروں کو ڈی نیشنلائز کرنا شروع کیا لیکن نتیجتاً معیشت بیوروکریسی کے تسلط میں چلی گئی۔ اسحاق خان نے بھی ٹیکس نافذ کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ حکومت چلانے کیلئے قومی بنکوں سے 6 فیصد پر سرمایہ بطور قرض لیا جبکہ بنک اس وقت 10 سے 15 فیصد شرح کے ساتھ سرمایہ قرض کے طور پر دیتے تھے۔ اس کے باعث نہ صرف ملک کا بنکاری کا نظام تباہ ہو گیا بلکہ ٹیکس کلچر بھی معاشرے میں جڑیں مضبوط نہ کر پایا۔

فری مارکیٹ میں داخلہ اور اچانک توڑ پھوڑ

اور یہ وہ وقت تھا جب ہمارے ملک میں صارفین پر عائد محصولات کی اصطلاح متعارف ہوئی۔ یہ پیپلز پارٹی کی سماجی بہبودی معیشت کے ماڈل کے خاتمے کا آغاز تھا جو سوشلزم سے متاثر پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت نے اپنانے کی کوشش کی۔ ہم اچانک آزاد مارکیٹ میں داخل ہو گئے۔ اور اس وقت تک بدنام زمانہ قرضے فراہم کرنے والی مالیاتی ایجنسی دا پیرس کلب نے ہمارے سالانہ بجٹ کو ڈکٹیٹ کرنا شروع کر دیا تھا۔ ایک مرتبہ جب اس وقت کے منصوبہ بندی کے وزیر ڈاکٹر محبوب الحق سے پیرس کلب کا مستقل گاہک ہونے کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا جواب انتہائی حیران کن تھا۔

انہوں نے کہا کہ بیرونی امداد دراصل ڈونرز کا ہماری معیشت کے مستحکم ہونے پر یقین ہونے کا ثبوت ہے۔ اس وقت کے معیشت دان جو حقیقت دیکھنے سے قاصر تھے وہ یہ تھی کہ امداد کی شکل میں ملے ہر ایک ڈالر میں سے 99 سینٹ واپس ڈونرز کے پاس چلے جاتے تھے۔ کبھی کنسلٹنسی کے معاوضے کے طور پر اور کبھی ڈونز سے درآمدات کی قیمیتوں کے تعین میں ڈکٹیشن لیکر اور کبھی شپنگ کے معاوضے کے طور پر۔ اور جو بچ جانے والا ایک سینٹ ہوتا تھا وہ سول اور دفاعی بیوروکریسی کی جیب میں چلا جاتا تھا۔

یہ دوسروں پر انحصار کرنے کا ایک تھکا دینے والا سفر ہے

یہ ایک مختصر سا جائزہ ہے کہ کیسے پاکستان بتدریج ایک امداد پر دارومدار کرنے والا ملک بنتا چلا گیا اور اپنی سیاسی اور معاشی خود مختاری امداد دینے والوں کے آگے کھوتا چلا گیا۔ اور کیسے اس نے ان کے ان احکامات کی بھی تکمیل کی جو قومی مفاد کے حق میں نہیں تھے۔

اور یہ ایک مختصر سا جائزہ اس بارے میں بھی ہے کہ کیسے ایوب خان کے دور سے ملک کے معیشت دانوں نے مالیاتی پالیسیاں اس طرح سے تشکیل دیں کہ ٹیکس کا کلچر ملک میں فروغ ہی نہ حاصل کر پایا۔

اصل سوال: کیا کوئی ملک خالی جیب کے ساتھ چالیس برس تک جنگیں لڑ سکتا ہے؟

اب اپنے اصل سوال کی جانب بڑھتے ہیں۔ کیا کوئی ملک چالیس برس تک خالی جیب جنگیں لڑ سکتا ہے اور وہ بھی جب وہ بیرونی امداد کا محتاج ہو اور اس ملک کے پاس اپنے وسائل پیدا کرنے کی صلاحیت بھی موجود نہ ہو؟ اس کا جواب صاف ہے۔ تو پھر ہم ان جنگوں میں ملوث کیوں ہوئے؟ اور وہ بھی ادھر ادھر سے قرضے حاصل کر کے۔ یہ سوچے بنا کہ جب ان قرضوں کی واپسی کا وقت آئے گا تو کیا ہو گا؟

ہم نے اور زیادہ قرضے حاصل کیے تاکہ گذشتہ قرضوں کو واپس کر سکیں اور پیسوں کو جنگوں میں استعمال کر سکیں۔ درآمدات بڑھیں لیکن محصولات کی وصولی نہیں۔ بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے دور میں اور اس کے پہلے سال کے چھ ماہ کے اختتام پر یہ معلوم پڑا کہ آمدن نہیں بڑھ رہی تھی۔ حکومت نے مختلف درآمدی اشیا پر ڈیوٹی بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ لیکن سال کے اختتام پر معلوم ہوا کہ درآمدات تو بڑھ گئیں لیکن محصولات میں کوئی بہتری نہیں آئی۔

پھر وزیر اعظم بینظیر بھٹو سے ایک پریس کانفرنس میں پوچھا گیا کہ ایسا کیوں ہوا؟ انہوں نے جواب دیا کہ وہ بھی اس کی وجہ جاننا چاہیں گی اور تین صحافیوں (راقم جس کا تعلق ڈان سے، فرحان بخاری فنانشل ٹائمز سے اور ابصار عالم جو اس وقت دی نیشن کے ساتھ منسلک تھے) سے کہا کہ سی بی آر چیف کے پاس جائیں اور ان سے وجوہات جاننے کی کوشش کریں۔ سی بی آر چیف ایک متاثر کن شخص تھے لیکن انہوں نے کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر کئی ماہ تک جواب دینے میں تاخیر کی۔ جب انہوں نے دیکھا کہ ہم پیچھا نہیں چھوڑنے والے تو انہوں نے جواب دیا کہ دیکھو اس بات کی وجہ کہ ہماری درآمدات اتنی بڑھ گئی ہیں لیکن محصولات میں اضافہ نہیں ہوا، دراصل یہ ہے کہ ہماری سٹریٹیجک درآمدات پر کوئی ڈیوٹی عائد نہیں ہوتی ہے۔

کمرے میں ہاتھی کی موجودگی

تحریک انصاف کی حکومت کو کمرے میں ہاتھی کی موجودگی کو پہچاننے کیلئے بہتر کام کرنا ہو گا اور اپوزیشن اور دیگر عناصر پر ملک پر قرضے چڑھانے کی تنقید ختم کرنی ہو گی۔ کوئی بھی باآسانی دیکھ سکتا ہے کہ سال 2005 کے بعد سے قرضوں کا حجم تیزی سے کیوں بڑھا ہے۔ 2005 سے لے کر آج تک ہم جنگیں لڑتے آئے ہیں۔ کبھی بقا کی جنگ، کبھی بچاؤ کی جنگ اور ان کے درمیان ہم نے 70 ہزار پاکستانی شہری جن میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار بھی تھے گنوا ڈالے۔ اور مالیاتی اعتبار سے 2005 سے لے کر آج تک ملنے والے قرضوں کی رقم جتنا نقصان بھی برداشت کیا ہے۔

Tags: ایوب خان کا دور حکمرانیپاکستان کی قرضوں پر مبنی معیشتپاکستان کی معیشتپاکستان کے قرضےمحمد ضیا الدین
Previous Post

کیا نیت کے بغیر شدت پسندوں کا خاتمہ ممکن ہے؟

Next Post

بلاول اور نواز شریف کی ملاقات کا مطلب دونوں جماعتوں کا اتحاد نہیں

محمد ضیاالدین

محمد ضیاالدین

مصنف سینیئر صحافی اور انگریزی اخبار ایکسپریس ٹربیون کے مدیرِ اعلیٰ رہے ہیں۔

Related Posts

گلگت بلتستان؛ خالصہ سرکار کے قوانین کے تحت ملکیتی زمینوں پر حکومتی قبضہ جاری

گلگت بلتستان؛ خالصہ سرکار کے قوانین کے تحت ملکیتی زمینوں پر حکومتی قبضہ جاری

by سرور حسین سکندر
فروری 3, 2023
0

گوہری کھرمنگ کے مکین سید مبارک نے ہمیں بتایا کہ 23 اور 24 اکتوبر 2022 کی درمیانی شب کھرمنگ کے ہیڈ کوارٹر...

جہلِ مرکب (Pseudoscience) کیا ہے؟

جہلِ مرکب (Pseudoscience) کیا ہے؟

by حمزہ ابراہیم
فروری 3, 2023
0

'پڑھا لکھا جاہل' کی اصطلاح اکثر ایسے لوگوں کے بارے میں استعمال کی جاتی ہے جن کے پاس الفاظ کا ذخیرہ تو...

Load More
Next Post
بلاول اور نواز شریف کی ملاقات کا مطلب دونوں جماعتوں کا اتحاد نہیں

بلاول اور نواز شریف کی ملاقات کا مطلب دونوں جماعتوں کا اتحاد نہیں

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

عمران خان، اور ان کے ارد گرد بیٹھے سیاسی آوارہ گردوں کی اصل حقیقت!

عمران خان، اور ان کے ارد گرد بیٹھے سیاسی آوارہ گردوں کی اصل حقیقت!

by عاصم علی
فروری 2, 2023
1

...

فیض حمید صاحب، سب اچھا نہیں ہے!

فیض حمید صاحب، سب اچھا نہیں ہے!

by عاصم علی
فروری 3, 2023
0

...

Aamir Ghauri Nawaz Sharif

نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟

by عامر غوری
جنوری 30, 2023
0

...

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

by عاصم علی
جنوری 18, 2023
0

...

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

by طارق بشیر
جنوری 18, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

Cover for Naya Daur Urdu
64,514
Naya Daur Urdu

Naya Daur Urdu

پاکستان کی ثقافت اور تاریخ کو دیکھنے کا ایک نیا زاویہ

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In