• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
اتوار, مارچ 26, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

پاک فوج کے ترجمان اور آئینی حدود

ڈاکٹر محمود صادق by ڈاکٹر محمود صادق
نومبر 23, 2019
in سیاست, میگزین
5 0
0
پاک فوج کے ترجمان اور آئینی حدود
26
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

چیف آف آرمی اسٹاف کے ترجمان جنرل آصف غفور نے سوموار کو 58 منٹ میڈیا سے بات کی اور پھر اگلے 23 منٹ مدعو کیے گئے صحافیوں کے سوالوں کے جوابات بھی دیے۔ جمہوری حکومتوں کے ادوار میں شاید یہ آئی ایس پی آر کی تاریخ کا سب سے طویل خطاب تھا۔ تمام چینلز نے بغیر کسی حیل و حجت یہ براہ راست اور بغیرکسی خبروں کے وقفے اور اشتہارات کے دکھایا۔ پہلے گیارہ منٹ افواج کے ترجمان نے مشرقی سرحدوں پر فروری کے واقعات کی نسبت سے بھارت کو نہ صرف جھوٹا ثابت کیا بلکہ بھارتی وزیراعظم مودی کے نیوکلیئر ہتھیاروں کے استمال پر دیے گئے بیان پر تبصرہ بھی کیا اور آخر میں بھارت کو پاکستان کے صبر کا امتحان نہ لینے کی تنبیہہ یا مشورہ بھی دے ڈالا۔ اگلے 26 منٹ ترجمان نے پاکستان کی سکیورٹی صورتحال پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور پھر دو منٹ مغربی سرحدوں پر لگائی جانے والی باڑ پر کام کی تفصیل سے آگاہ کر کے اگلے بیس منٹ پی ٹی ایم پر بات چیت کی۔

فوجی ترجمان نے پاکستان کی سکیورٹی صورتحال پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ فکری، جغرافیائی اور تاریخی پس منظر کو اجاگر کرتے ہوئے اسے کشمیر سے جوڑا اور پھر اسے آج کی دنیا میں معاشی طاقت کی عالمی دوڑ اور ہائبرڈ جنگ کی حقیقت پر لا کر کھڑا کر دیا۔ جنگ اور محبت میں ہر چیز کو جائز قرار دیتے ہوئے پچھلے تیس سال میں انتہا پسندی اور عسکریت کی موجودگی کو تسلیم کرتے ہوئے ترجمان نے اسے اسلام فوبیا پر ختم کیا۔

RelatedPosts

ریاستی اداروں کے باہمی اختلاف کے باعث دہشت گردی میں اضافہ ہوا؛ علی وزیر

پشتونوں کے لئے غیر مسلح منظور پشتین اقبال کا مردِ مومن ہے

Load More

ملکی سیکورٹی کے تصور اور تصویر کو اجاگر کرتے ہی انہوں نے پاک فوج کے انتہا پسندی اور عسکریت کے خلاف کیے گئے عمل تعداد اور نتائج کے ساتھ بتائے اور ریاست کو پہنچنے والے جانی، مالی اور سماجی نقصان کا بھی ذکر کیا۔ پاکستان میں موجود مدرسوں اور ان کے معاملات پر انتہائی دلچسپ اور حیران کن معلومات بھی قوم کو دیں۔

علمی اور فکری گفتگو کے بعد آخر میں پاک فوج کے ترجمان نے پی ٹی ایم کو مخاطب کرتے ہوئے درجن سے اوپر سوالات سیاق و سباق کے ساتھ شحصیت، تاریخ اور واقعات کے تناظر میں کر کے ان سے جوابات مانگ لیے ہیں۔ ان سب سوالوں کا محور بھارت اور افغانستان کی جاسوس محکموں سے پی ٹی ایم کو ملنے والی مالی مبینہ مدد اور فوج کے خلاف مہم جوئی تھا۔

ترجمان نے واضح الفاظ میں بتا دیا ہے کہ اب پی ٹی ایم کا وقت پورا ہو گیا ہے۔ اس سے جنرل صاحب کی مراد کیا پی ٹی ایم کا سیاسی وقت ہے یا پھر دوسرا کوئی وقت؟ اس کا اندازہ لگانا فی الحال مشکل ہے۔ تاہم حالات کی سنجیدگی کا اندازہ اس تنبیہہ اور اس کے بعد پہلی دفعہ پشتو زبان میں دیے گئے پیغام سے ہوتا ہے۔ اپنی زبان پر لگی بندش اور مجبوری کا بیان کرتے کرتے بھی راؤ انوار کا ذکر کر ڈالا اور ساتھ ہی گلہ بھی کر دیا کہ کیا آئین اور قانون کا اطلاق صرف فوج پر ہی ہوتا ہے، یعنی سیاسی جماعتوں، ان کے قائدین اور صحافیوں پر بھی اس کا اطلاق ہونا چاہیے۔

ترجمان نے جن موضوعات پر بات کی ہے ان میں انہوں نے اپنی آئینی حدود سے تجاوز کیا ہے اور اگر وہ اس خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں تو اسکی نوعیت، شدت اور سنگینی کیا ہے؟

کیا پاک فوج حکومت کی ظاہری ناکامی کی وجہ سے کسی قسم کے دباؤ کا شکار ہے یا پی ٹی ایم ملک کی سلامتی کے لئے خطرہ بن چکی ہے یا بننے کے واضح شواہد ہیں؟ آخر ایسا کیا ہوا ہے جہاں قومی سلامتی کے اداروں کو پی ٹی ایم سے یہ سوالات پوچھنے پڑ رہے ہیں؟

ترجمان نے اس تبصرے سے پہلے کس حد تک حکومت وقت کو اعتماد میں لیا اس کی حدود کا تعین کرنا تو مشکل ہوگا۔ لیکن پیشگی اطلاع تو ضرور دی گئی تھی۔ ترجمان کا پی ٹی ایم کے خلاف تمام کارروائی قانون کے دائرے میں رہ کر کرنے کی یقین دہانی سے یہ اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت اور پاک فوج کے ترجمان ایک ہی صفحے پر ہیں اور ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔

بھارت سے متعلق کیے گئے تبصرے میں کوئی نئی بات نہیں تھی اور نہ ہی کوئی ایسی تشویش کا اظہار تھا جس پر ملکی سلامتی کو مستقبل قریب میں کوئی خطرات لاحق ہوں۔ میری نظر میں بھارتی وزیراعظم مودی کے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال پر دیے گئے بیان کی نوعیت بھی سیاسی تھی اور اگر اس پر وہ اپنے خیالات کا اظہار نہ کرتے تو اچھا ہوتا۔

بھارتی آرمی چیف اگر ایٹمی ہتھیاروں یا ملکی سلامتی کے متعلق کوئی بیان دیں تو اس کا جواب پاک فوج کے ترجمان کی طرف سے بنتا ہے۔ بھارت کے وزیر اعظم مودی نے جو بیان دیا تھا اس کا جواب اگر حکومت کی طرف سے آتا تو وہ زیادہ موزوں ہوتا۔

اسی طرح افوج پاکستان یا ریاست کے صبر یا برداشت یا خاموشی کا امتحان نہ لینے کی تنبیہہ کیے بغیر بھی گزارا ہو سکتا تھا۔

مدرسوں کو قومی دھارے میں لانے کے لئے ترجمان نے جو بات چیت کی کیا یہ ان کی حدود سے باہر تھا اور باہر ہونے کی نوعیت کیا تھی؟ کیا انہوں نے کوئی تعلیمی پالیسی دی یا وزارت تعلیم کی حدود میں قدم رکھ دیا؟ اگر وزیر داخلہ پی ٹی ایم کے بارے میں بات کرتے تو تنقید یہ ہوتی کہ اپنے حریف کو نشانہ بنا رہے ہیں اور اسے سیاسی رنگ دے دیا جاتا۔

فوجی ترجمان کے پوچھے گئے سوالوں میں سیاسی شخصیتوں یا واقعات کا ذکر تھا مگر درجن سے اوپر پوچھے گئے کسی ایک سوال کی نوعیت سیاسی نہیں تھی۔ سوال جواب کے سیشن میں بھی انہوں نے سیاسی حدود میں نہ جانے کی پوری کوشش کی۔

فوج کے ترجمان نے پی ٹی ایم کے متعلق کوئی خبر نہیں دی، نہ ہی کسی خدشے کا اظہار کیا ہے بلکہ حکومتی فیصلہ سنایا کہ پی ٹی ایم کا وقت پورا ہو گیا ہے اور چونکہ قانونی راستہ لینا ہے اس لئے ایسے لگتا ہے کہ فوج نے یہ تمام ثبوت عدالت میں پیش کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ترجمان کو چاہیے کہ اب دوسرے کرداروں کو بھی اسی طرح بے نقاب کریں چاہے وہ عزیر بلوچ ہو  یا راؤ انوار۔

منظور پشتین نے تو اسی رات کو وائس آف امریکہ کو انٹرویو دیتے ہوئے ان الزامات کی نہ صرف تردید کی ہے بلکہ حالات کا مقابلہ کرنے کا عزم بھی دہرایا ہے۔

اب گیند فوجی ترجمان کے کورٹ میں ہے۔ اس سے پہلے انہوں نے جو کہا وہ کر کے دکھایا اور پوری قوم سے اس کی داد وصول کی۔ اب شہرت دوبارہ داؤ پر لگ گئی ہے۔ قوم امید سے پہلے ہی ہے اب منتظر رہے گی کہ کب اور کتنی جلدی پی ٹی ایم کی حقیقت سامنے آتی ہے۔

آج کی اس ڈیجیٹل دنیا میں جہاں روایتی خطرات اور جنگیں اپنی افادیت کھو چکے ہیں وہاں زمینی حالات کو دیکھتے ہوئے قومی سلامتی کی حدود کا تعین کرنا بھی خود اسے خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ آج کی قومی سلامتی  فوجی قوت کے توازن میں فرق پڑنے سے کم اور بجٹ کے متوازن نہ ہونے سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ یہ قومی سلامتی فوجی قوت سے زیادہ انسانی ترقی، قدرتی وسائل، معاشی مضبوطی اور سائنس اور انفارمیشن کے حلقہ اثر پر منحصر ہے۔

آج کی دنیا میں قومی سلامتی کو لاحق خدشات میں دہشتگردی، ایٹمی تکثیر، موسمی بدلاؤ، آبادی کا زیادہ ہونا، قدرتی ذخائر کی کمی، توانائی اور خوراک کی کمی اور انسانی حقوق جیسے ایشوزشامل ہیں۔ ان تمام خدشات کے ساتھ ساتھ آج کا پاکستان سیاسی، معاشی اور فوجی لحاظ سے حالت جنگ میں بھی ہے۔ یہ ہماری اپنی لگائی جنگیں ہیں اور ہم نے ہی ختم کرنی ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ اب حدود کا تعین کرنے کی بجائے نیت اور عمل پر مرکوز ہوا جائے۔ یہ وقت اور حالات کا تقاضہ ہی نہیں بلکہ ملکی ضرورت اور دانائی بھی ہوگی۔

جہاں حکومت کو کُھل کر اپنے اداروں کے پیچھے کھڑے ہونے کی ضرورت ہے چاہے وہ نیب ہو یا فوج وہاں سیاستدانوں، میڈیا اور معاشرے کے ایک خاص گروہ کو بھی اپنی سوچ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ اداروں کے کردار کو شک سے دیکھنے اور تنقید کرنے کی روش بدلنے کی ضرورت ہے۔ ادارے مضبوط ہوں گے تو جمہوریت اس ملک میں پروان چڑھے گی۔ نظام کو کوسنے یا بدلنے سے بات نہیں بنے گی بلکہ سوچ کو بدلنا ہو گا۔

Tags: پشتون تحفظ تحریکپشتون تحفظ موومنٹترجمان افواج پاکستانمیجر جنرل آصف غفور
Previous Post

آسٹریلوی کرکٹر کو خاتون سے زیادتی پر 5 سال قید

Next Post

سیالکوٹ: گھریلو جھگڑے پر بیوی کو زندہ جلادیا گیا

ڈاکٹر محمود صادق

ڈاکٹر محمود صادق

Related Posts

احساس کا جذبہ ختم ہو جائے تو انسان زندہ لاش بن کے رہ جاتا ہے

احساس کا جذبہ ختم ہو جائے تو انسان زندہ لاش بن کے رہ جاتا ہے

by اے وسیم خٹک
مارچ 25, 2023
0

نجانے کبھی کبھار مجھے کیوں یہ لگتا ہے کہ ہم مر گئے ہیں اور یہ جو اس جہاں میں ہماری شبیہ لے...

خیبر پختونخوا میں بیش تر یونیورسٹیاں بغیر وائس چانسلرز کے چل رہی ہیں

خیبر پختونخوا میں بیش تر یونیورسٹیاں بغیر وائس چانسلرز کے چل رہی ہیں

by اے وسیم خٹک
مارچ 22, 2023
0

وطن عزیز جہاں دیگر مسائل کا شکار ہے وہاں ایک بڑا مسئلہ یہاں ہائر ایجوکیشن کا ہے جس کے ساتھ روز اول...

Load More
Next Post
سیالکوٹ: گھریلو جھگڑے پر بیوی کو زندہ جلادیا گیا

سیالکوٹ: گھریلو جھگڑے پر بیوی کو زندہ جلادیا گیا

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

by شاہد میتلا
مارچ 22, 2023
1

...

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

by ہارون خواجہ
مارچ 18, 2023
1

...

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

by رضا رومی
مارچ 20, 2023
0

...

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

by مزمل سہروردی
مارچ 15, 2023
1

...

جنرل فیض حمید

نواز شریف کو نکالنے کے ‘پروجیکٹ’ میں باجوہ اور فیض کے علاوہ بھی جرنیل شامل تھے، اسد طور نے نام بتا دیے

by نیا دور
مارچ 14, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In