کیا پاکستان میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل رہ سکتی ہے؟

کیا پاکستان میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل رہ سکتی ہے؟
پاکستان کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کا تذکرہ بہت دیرینہ ہے۔ مگر موجودہ دور میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ملکی سیاست میں کردار اور اہمیت کی بحث زیادہ زور پکڑ گئی ہے۔ مارچ 2022 کی تحریک عدم اعتماد کے بعد تو ہر زبان پہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا نام ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے جانے کے بعد تحریک انصاف کے چیئرمیں عمران خان کی طرف سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے تحریک عدم اعتماد کے دوران 'نیوٹرل' رہنے کی وجہ سے شدید تنقید کی گئی۔ عمران خان کی طرف سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے نیوٹرل رہنے کے 'نئے' مؤقف کو مضحکہ خیز قرار دیا گیا جیسے یہ کوئی انہونی اور غیر فطری بات ہے۔ اگر پاکستان کے سیاسی نظام اور جمہوری ماحول کو دیکھا جائے تو یہ بات پاکستان کی سیاست کے مزاج کے خلاف دکھائی دیتی ہے کہ یہاں پر ملٹری اسٹیبلشمنٹ حقیقی معنوں میں نیوٹرل رہ سکے گی۔

ایک اور بات بھی حقیقت سی دکھائی دیتی ہے کہ اگر پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ دیانت داری کے ساتھ نیوٹرل رہتے ہوئے اپنے آئینی اور قانونی کردار تک محدود ہوتی بھی ہے تو پاکستان کا ناتواں اور انتہائی منقسم سیاسی نظام اور نابالغ سیاسی رہنما ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو نیوٹرل نہیں رہنے دیں گے۔ موجودہ دور میں بھی اگر دیکھا جائے تو تقریباً تمام سیاسی پارٹیاں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو نیوٹرل کرنے اور رکھنے کے نعروں کو سیاست چمکانے کے لیے تو خوب استعمال کر رہی ہیں مگر ہر پارٹی کی کوشش ہے کہ اب ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا ہما ان کے سر پر بیٹھے تا کہ ان کے لیے اقتدار کا راستہ آسان ہو جائے۔ اگر سیاست دان ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو نیوٹرل رکھنے میں سنجیدہ دکھائی دیتے تو نئے آرمی چیف کی تعیناتی پہ اتنا طوفان بدتمیزی برپا نہ کرتے۔

پاکستان کے ایک سابق بیوروکریٹ نے اپنی سوانح عمری میں لکھا تھا کہ ایک دفعہ جب وہ کسی ضلع میں بطور ڈپٹی کمشنر تعینات ہوئے تو ایک دن ان کے پاس ایک سیاست دان آیا۔ اس نے سکول بنانے کے لیے سرکاری زمین کا مطالبہ کیا تو ڈی سی صاحب نے سیاست دان کے اس فیصلے کو سراہتے ہوئے سکول کے لیے زمین الاٹ کر دی۔ اگلے دن اس علاقے کا ایک اور سیاست دان ڈی سی صاحب سے ملنے آیا۔ اس سیاست دان نے ڈی سی صاحب سے شدید احتجاج اور شکوہ کیا کہ آپ نے میرے سیاسی مخالف کو سکول کے لیے زمین الاٹ کرکے میرے ساتھ نہایت زیادتی کی ہے۔ ڈی سی صاحب بڑے حیران ہوئے اور سیاست دان سے مخاطب ہو کر بولے کہ اس میں آپ کے ساتھ کیا زیادتی ہوئی ہے؟ آپ بھی زمین لے لیں اور سکول بنوا لیں۔ جس پر سیاست دان صاحب نے جواب دیا کہ سر وہ سکول اپنے علاقے میں نہیں بلکہ میرے علاقے میں بنوا رہا ہے تا کہ میری سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچا سکے۔

پاکستان کے سیاست دانوں کا ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو نیوٹرل کرنے والا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ وہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو مخالف سیاسی پارٹیوں اور سیاست دانوں کے خلاف استعمال کرنے کے لیے نیوٹرل کرنا چاہتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف دونوں پارٹیاں سیاسی کزن ہیں۔ ان دونوں پارٹیوں کو پروان چڑھانے والی اور اقتدار کی سیڑھیوں تک پہنچانے والی پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ ہے۔ اب ان دونوں پارٹیوں کا آپس میں محبوب کے بٹ جانے کا غم ہے اور دونوں پارٹیوں کی یہی مشترک صدا ہے کہ 'سانوں اقتدار والے پُل تے بلا کے تے ماہی نیوٹرل ہو گیا'۔

پاکستان آزادی کے بعد سے اب تک خوف کے ماحول سے باہر نہیں نکل سکا۔ اس لیے پاکستان فلاحی ریاست بننے کے بجائے ایک سکیورٹی ریاست بن گیا ہے۔ سقوط ڈھاکہ کے سانحے نے اس خوف میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ پاکستان کے سیاسی نظام میں Fault-lines موجود ہیں جس نے عوام سمیت ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو خطرناک حد تک شکی مزاج بنا دیا ہے۔ کمزور سیاسی نظام میں جب دراڑیں ایک حد سے زیادہ بڑھنے لگتی ہے تو طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے ملٹری اسٹیبلشمنٹ ایک Balancing-power کے طور پر سامنے آتی ہے۔ پاکستان میں جب کبھی سیاسی ابتری آتی ہے تو عوام اور سیاست دان یک زبان ہو کر سسٹم کے اس جزو کو پکار رہے ہوتے ہیں جو سیاسی نظام کے توازن کو برابر کرنے کا کردار ادا کرتا ہے۔ جنرل ایوب خان نے اپنی کتاب Friends Not Masters میں لکھا ہے کہ جب 1950 کے عشرے میں پاکستان کی سیاست ابتری اور زبوں حالی کا شکار تھی تو راجہ آف محمود آباد جیسے قائد اعظم کے انتہائی قریبی ساتھی اور محب وطن انسان نے بھی فوج سے مداخلت کرنے کی تلقین کی تا کہ ملک میں سیاسی استحکام لایا جا سکے۔

پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ پوری نیوٹرل ہو گئی ہے یا ہو جائے گی، یہ ایک آئیڈیل بات ہے جس کو پاکستان کے موجودہ سیاسی نظام میں حاصل کرنا تقریباً ناممکن نظر آتا ہے۔ پاکستان کے سیاسی حالات جتنے خراب اور کشیدہ ہوں گے اتنا ہی اسٹیبلشمنٹ کو دخل اندازی کا موقع ملتا رہے گا۔ پنجاب میں اس وقت جو صورت حال پیدا ہو گئی ہے، اس میں کیسے ممکن ہو گا کہ ادارے خاموشی سے بیٹھ کے سیاست دانوں کا لگایا ہوا تماشا دیکھتے رہیں گے۔ سیاست دان اپنی اپنی سیاسی خود غرضیوں کی وجہ سے حالات کو اس نہج پر لے جاتے ہیں جہاں پر کوئی ڈنڈے والا آ کر ان کو سبق سکھائے۔ 93-1992 میں بھی پنجاب اور مرکز میں موجودہ حالات سے ملتی جلتی صورت حال پیدا ہو گئی تھی جس میں غلام اسحاق خان اور نواز شریف کے درمیان سیاسی دنگل جاری تھا تب جنرل عبدالوحید کاکڑ نے مداخلت کر کے فریقین سے استعفی لے کر نئے الیکشن کی راہ ہموار کی۔ موجودہ سیاسی انتشار کے بعد تو ممکن ہی نہیں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہو جائے گی۔ جس دن پاکستان کے سیاست دان حقیقت میں دیانت داری سے چاہیں گے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہو جائے، اس دن یہ واقعی ہو جائے گا۔

عاصم علی انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے University of Leicester, England سے ایم فل کر رکھا ہے اور اب یونیورسٹی کی سطح پہ یہی مضمون پڑھا رہے ہیں۔