آڈیو لیکس؛ اخلاقی طور پر دیوالیہ شخص کو قومی نمائندگی کا حق نہیں پہنچتا

جب سے ہوش سنبھالا ہے اس وقت سے یہی سنتے آ رہے ہیں کہ پاکستان صرف پاکستان نہیں بلکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ اسلامی جمہوریہ کا لفظ سنتے ہی ہر اس شخص کے دل میں جذبہ احترام امڈ آتا ہے جو یہ نہیں جانتا کہ اسلامی جمہوریہ کو ہم صرف کتابوں میں پڑھنے یا پاکستان کے ساتھ لگانے کے لئے استعمال کرتے آ رہے ہیں۔

ملک میں پھیلی کئی برائیوں کو چھوڑ کر ابھی میں صرف اخلاقیات پر بات کرنا پسند کروں گا۔ اگر اسلام کی علم برداری کا دعویٰ کرنے والے ملک میں اخلاقیات کا خاتمہ ہو چکا ہو تو اس سے دیگر اچھائیوں کی توقع کیا کریں گے۔

میری اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حوالے سے اخلاقیات پر بات کرنے کی بنیادی وجہ وہ اخلاقیات سے عاری آڈیو لیکس ہیں جو پچھلے کچھ مہینوں سے ملک کی اہم سیاسی شخصیات کے حوالے سے منظر عام پر آ رہی ہیں۔

یہاں چند اہم نکات قابل غور ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ زیادہ تر آڈیو لیکس کا بنیادی مرکز وزیراعظم ہاؤس ہے جس کا ڈیٹا بہت محفوظ سمجھا جاتا ہے اور ہمارے متعلقہ حساس اداروں کی مرضی یا کسی زیرک ہیکر کی مداخلت کے بغیر اسے لیک نہیں کیا جا سکتا۔

اس کے بعد ان آڈیو لیکس کا اخلاقی معیار اتنا گھٹیا ہے کہ کوئی معمولی سی شرم رکھنے والا شخص بھی ان کو پورا سننا تو درکنار، ان پر تبصرہ کرنے سے بھی گریز کرتا ہے۔

ابھی حالیہ آڈیو لیک کو خود تو سننے کی ہمت نہیں ہوئی مگر کچھ لوگوں کے مصالحے دار تبصرے سوشل میڈیا پر نظر سے گزرے ہیں، جن کو پڑھ کر بے اختیار میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ بحیثیت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہری اپنی اگلی نسل کے لئے ہم کیا بو رہے ہیں؟

کیا یہی اخلاقی معیار قائم کرنے کے لیے بڑے زوروشور سے تحریکیں چلا کر الگ وطن اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا؟

جو بھی ان گھٹیا آڈیو لیکس کا ذمہ دار ہے ان کو یہ سوچنا چاہئیے کہ اپنے بچوں اور دیگر خاندان کے ساتھ بیٹھ کر کیا وہ ان لیکس کو سننا پسند کریں گے؟

ان کی اعلیٰ سطح پر جانچ پڑتال ہونی چاہئیے کہ ایسے گھناؤنے واقعات میں کون ملوث ہے۔

جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو اسلام جہاں دوسروں پر تہمت لگانے سے منع کرتا ہے وہاں دوسروں کے عیبوں کی پردہ پوشی کا بھی حکم دیتا ہے۔

اب اگر ان سیاسی قائدین کی بات کر لی جائے جن کی آڈیو لیکس ہونے کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگی۔ ان سیاسی قائدین میں شہباز شریف اور مریم نواز سے لے کر عمران خان تک سبھی شامل ہیں۔

ابھی حالیہ لیک عمران خان کی ایک خاتون سیاست دان کے ساتھ اخلاق باختہ گفتگو پر مبنی آڈیو بتائی جا رہی ہے۔ ابھی تک تو میرے علم کے مطابق خان صاحب نے ہمیشہ کی طرح دیگر سیاست دانوں کی طرح اس آڈیو کو بھی جعلی قرار دے کر اپنی جان چھڑوا لی ہے۔

اس کا بہترین حل تو یہ ہے کہ حکومت وقت یا متاثرہ افراد ان آڈیوز کا فرانزک کرانے کا مطالبہ کریں جس سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔

حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ عدالتی کمیشن بنا کر ان آڈیوز کے لیک ہونے کا جائزہ لیا جائے اور جو افراد اس کے مرتکب پائے جائیں ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔

اس کے علاوہ جن افراد کی آڈیو لیک ہو رہی ہیں اگر تحقیقات کے بعد واقعی وہ ان کی آڈیو قرار پائیں تو اخلاقی طور پر انہیں اپنی جماعتوں کی سربراہی چھوڑ کر سیاست سے دست برداری کا اعلان کر دینا چاہئیے کیونکہ اخلاقی طور پر کسی بھی کرپٹ یا اخلاق سے عاری شخص کو قوم کی نمائندگی کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔

احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔