عام آدمی آٹے کے لئے مر رہا ہے مگر رہنماؤں کو اقتدار کی پڑی ہے

عام آدمی آٹے کے لئے مر رہا ہے مگر رہنماؤں کو اقتدار کی پڑی ہے
پاکستان میں گزشتہ آٹھ نو ماہ سے سیاسی اور معاشی و عدم استحکام جاری ہے اور اس دوران انواع و اقسام کے تجزیے اور تبصرے سننے کو ملتے رہے ہیں۔ مرکز اور صوبوں کی حکومتوں کے درمیان کھینچا تانی جاری ہے۔ ڈالر کی قیمت کبھی آسمان کو چھو رہی ہے اور کبھی اقتدار کی غلام گردشوں سے یہ پیغام جاری ہوتا ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قیمت مستحکم ہو رہی ہے اور آنے والے دنوں میں معاشی عدم استحکام پر قابو پا لیا جائے گا۔ کبھی آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والی ڈیل کو معاشی استحکام کا اعشاریہ کہا جاتا ہے تو کبھی پاکستان کے بڑے صوبے کی اسمبلی کو تحلیل ہونے سے بچانے کی تدبیریں سوچی جاتی ہیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ہونے والے تبصروں اور تجزیوں سے لے کر مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ پر براجمان ملک کے مستقبل کے بارے میں اندازے لگانے والے مبصرین تک کبھی آنے والے وقت کو کڑا امتحان قرار دیتے ہیں تو کچھ اپنی پسند کے سیاسی رہنما کو مسیحا بنا کر پیش کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔

اقتدار پر براجمان سیاسی عمائدین اپنی پیش رو حکومت کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے اپنے آپ کو موجودہ بحران سے کنارے کرنے کی ناکام سعی کرتے ہیں مگر حزب مخالف ان کو اس سارے بحران کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے انہیں واپس کٹہرے میں لا کھڑا کرتی ہے۔ ہر روز نئی پریس کانفرنس نیا پنڈورہ باکس کھولتی ہے۔ کبھی پیش رو حکومت کے اراکین کی آڈیوز موضوع سخن بنتی ہیں تو کبھی موجودہ حکمرانوں کی نالائقی۔ اس سارے سرکس کے دوران مہنگائی میں ہوش ربا اضافہ، اشیائے خورونوش کی عدم دستیابی، بڑی صنعتوں کے شٹ ڈاؤن اور بیروزگاری کی شرح میں اضافہ جیسے سنجیدہ مسائل حکومت کی ترجیحات میں شامل ہیں اور نہ ہی حکومت کے مخالف سیاسی گروہوں کی۔

کہیں اس بات کا تقاضا ہے کہ قبل از وقت انتخابات ہر معاشی اور معاشرتی مسئلے کا واحد حل ہیں تو کہیں اس بات کی گونج ہے کہ صوبوں کی موجودہ حکومتوں کو گرا کر ایک نئی حکومت قائم کرتے ہی ملک میں شہد اور دودھ کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی۔ اس بیچ کئی ایسے دلدوز مناظر دیکھنے کو ملے کہ مہذب معاشروں کی حکومتیں ایسی نالائقی پر عوام سے معافی مانگتے ہوئے مستعفی ہونے میں ہی عافیت جانتی ہیں کہ وہ عوام کو بنیادی انسانی ضروریات فراہم نہیں کر سکیں، اس لئے ان کا اقتدار پر براجمان رہنا اپنا جواز کھو بیٹھا ہے۔

ایک عام سی مثال کو ہی لے لیجئے کہ آٹا جو عوام کی بنیادی ضرورت ہے اور پاکستان جیسے ملک جس کی معیشت کا بنیادی محرک زراعت اور اس سے جڑی مصنوعات ہوں، میں آٹے کا بحران پیدا ہوجانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ لیکن کیا کیجئے کہ موجودہ معاشی نظام میں طلب و رسد کے قانون کی یہ خاصیت ہے کہ رسد کے کم ہونے اور طلب کے بڑھنے کے عمل کا بالواسطہ اثر اشیا کی قیمت پر پڑتا ہے اور اگر رسد کم اور طلب زیادہ ہو تو اشیا کی قیمت بڑھنے کے امکان بھی بڑھ جاتے ہیں۔

پاکستان میں حالیہ آٹے کا بحران بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے کہ اپنے خاندان کو دو وقت کی روٹی مہیا کرنے کے لئے آٹے کی ایک تھیلی کو منہ مانگے داموں نقد خریدتے ہوئے ایک انسان دھکم پیل سے جان کی بازی ہار گیا۔ اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کہ اس سانحے پر قومی پرچم سرنگوں ہوا اور نہ ہی عوام کی جانب سے کوئی خاطر خواہ احتجاج نظر سے گزرا۔ عنایت علی خاں کا شعر یاد آ رہا ہے؛
؎ حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر

مجھے 27 دسمبر 2007 کا واقعہ یاد آ گیا۔ میں گھر سے یونیورسٹی کے لئے نکلا تو راولپنڈی پہنچنے پر ایئر پورٹ سے ذرا پیچھے ٹریفک کا ہجوم نظر آیا اور گاڑی قریباً ایک گھنٹہ ٹریفک میں پھنسی رہی۔ باہر نکلنے پر معلوم ہوا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ریلی اسلام آباد کی جانب رواں دواں تھی کہ ریلی پر فائرنگ سے کچھ لوگ زخمی اور شاید ایک دو کارکنان ہلاک ہو گئے ہیں۔ میں ایئر پورٹ چوک پر گاڑی سے اترا اور متبادل راستے کا انتخاب کرکے راجہ بازار جانے والی ایک گاڑی پر بیٹھا۔ گاڑی جونہی لیاقت باغ پہنچی تو ٹریفک جام اور افرا تفری کا عالم تھا۔ استفسار کرنے پر معلوم ہوا کہ لیاقت باغ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے جلسے کے بعد دھماکہ ہوا ہے اور سابق وزیر اعظم پاکستان محترمہ بے نظیر بھٹو زخمی ہو گئی ہیں۔

اپنی عافیت کو یقینی بنانے کے لئے میں نے ایک ٹیکسی روکی اور صدر جانے کے لئے اس میں سوار ہو گیا۔ صدر کے ٹریفک سگنل پر بظاہر متمول نظر آنے والے ایک خان صاحب نے گاڑی کا شیشہ کھولتے ہوئے دھماکے کے بارے میں پوچھنے کے بعد فوراً سوال کیا کہ بھائی آٹا کہاں سے ملے گا؟ ان دنوں بھی پنجاب اور خیبر پختونخوا کے درمیان گندم کی تقسیم پر لے دے جاری تھی۔ ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں آٹا لے جانے پر پابندی تھی اور ملک میں آٹے کا بحران تھا۔ میرے ذہن میں خیال آیا کہ بنیادی ضروریات کتنی اہم ہیں کہ پاکستان کی ایک قد آور رہنما کے جلسے میں دھماکہ ہوا، بے نظیر بھٹو زخمی ہیں لیکن ایک درمیانے طبقے کا بظاہر خوشحال انسان بھی آٹے کے لئے پریشان ہے۔

2007 گزر گیا اور محترمہ بے نظیر بھٹو نہیں رہیں۔ ان کی وفات کے بعد ان کی پارٹی اقتدار میں آئی۔ پاکستان کے سیاسی منظر نامے کے کردار تبدیل ہوتے گئے۔ 2007 کے بعد 2013 میں پاکستان پیپلز پارٹی صرف ایک صوبے میں اکثریت حاصل کر سکی۔ اس کے بعد 2018 کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی مرکز، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں حکومت بنی۔ عوام کو یہ لگا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ان کے مسائل کو حل کرنے میں مؤثر کردار ادا کرے گی۔ سابق وزیر اعظم عمران خان شاید دوراندیشی سے ریاست کو ایسی پالیسیاں دیں گے جن کی بدولت ملک سے افلاس اور ننگ کا خاتمہ ہوگا لیکن حالات جوں کے توں رہے۔

پھر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں شامل تمام سیاسی جماعتوں کو یہ خیال آیا کہ معاشی طور پر بدحال ریاست اور محکوم عوام کی مسیحائی کا وقت آن پہنچا ہے۔ اپنی مسیحائی دکھانے اور کل کی غلط اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر عمران خان کی حکومت کو گرانے کو کار ثواب سمجھتے ہوئے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی قیادت اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوئی۔ اس دوران طاقت کے مرکز جی ایچ کیو کی قیادت میں تبدیلی ہوئی اور ملک پر قرضے کا حجم بڑھتا گیا۔ اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ملک کے اکثر ماہرین معاشیات اس بات پر متفکر نظر آتے ہیں کہ ملک معاشی طور پر جلد یا بدیر ڈیفالٹ کر جائے گا۔

سیاسی اور دفاعی مباحث کے درمیان جو عنصر سب سے زیادہ نظر انداز ہوا وہ پاکستان کے عوام ہیں۔ مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ ہوں یا ملکی معیشت اور سیاست پر مباحث میں مصروف دانشور، ان کی گفتگو کا محور و مرکز سیاسی بساط پر بچھائے گئے مہرے ہی ہوتے ہیں۔ مہنگائی، بیروزگاری، گراں فروشی اور افراط زر کے باعث عام انسان کی زندگی اجیرن ہوتی جا رہی ہے مگر ان پر کوئی توجہ نہیں دے رہا۔ ایسے میں مزید گہرے ہوتے طبقاتی تضاد کے نتیجے میں طاقتور طبقات کے خلاف ایک غصہ بڑھتا نظر آئے گا۔ ایسا بالکل نہیں کہ اس تضاد کے مادی اظہار کی مثالیں موجود نہیں۔ اس سے پہلے پاکستان کے عسکری اداروں یا ان سے جڑے افسران پر تنقید کو ایک ممنوعہ عمل قرار دیا جاتا تھا لیکن گزشتہ برس سے جس طرح سے سیاست دانوں کے علاوہ عسکری اداروں کو آڑے ہاتھوں لیا جا رہا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مقدس گائے سمجھے جانے والے ادارے عوام میں کچھ حد تک ہی سہی لیکن بے توقیر ضرور ہوئے ہیں۔ اس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی۔

قیام پاکستان سے اب تک سیاسی حکومتیں مقتدرہ یا اسٹیبلشمنٹ کے تعاون کی طلب گار رہی ہیں۔ مقتدرہ جو اس سے پہلے پس پردہ سیاسی حکومتوں کی حمایت کرتی تھی گزشتہ دہائی میں اس نے کھل کر سیاسی منصوبے شروع کئے اور ملک میں جاری کسی بھی اختلافی آواز کو جو مقتدرہ کے مشکوک کردار کو ہدف تنقید بناتی تھی، بزور طاقت دبانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی لیکن ہر عمل کے ردعمل کے مصداق مقتدرہ کے مشکوک کردار کو ان کے اپنے ہی لے پالک سیاسی کارکنان اور سیاسی زعما کی جانب سے جس طرح ہجو و دشنام کا نشانہ بنایا گیا اس سے یہ نتیجہ نکالنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ اب کی بار مقتدرہ سیاسی طور پر غیر مستحکم اور متزلزل سیاسی سمجھ بوجھ کے حامل سیاست دانوں کو گود لینے یا ان کی حمایت کرنے سے پہلے ایک دفعہ ضرور سوچے گی۔

پاکستان جیسی سیاسی اور معاشی طور پر غیر مربوط ریاست جہاں طاقت کا محور و مرکز اشرافیہ کے چند نمائندگان ہوں، اس میں جب تک عوام ایک نظریاتی پختگی کے عمل سے گزر کر سیاسی عمل کا حصہ بنتے ہوئے اشرافیہ اور مقتدرہ کے کرداروں کو بے نقاب کرتے ہوئے ایک بالکل مختلف طرز حکمرانی کی بنیاد نہیں ڈالیں گے تب تک عام انسان کی محکومی، ذلت اور بنیادی انسانی ضروریات کے حصول کے لئے اموات محض عام اور نظر انداز کئے جانے والی خبروں سے زیادہ اہمیت نہیں حاصل کر پائیں گی۔