• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
پیر, جنوری 30, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

ایک اقلیتی حقوق کے کمیشن کی تشکیل کیسے بارآور ثابت ہو سکتی ہے؟

غیر جمہوری اور غیر شفاف طرز عمل کمیشن کے کردار اور اس کے کام کے دائرہ کار کو محدود کر دیتے ہیں۔ ریاستی نظام کا استحکام تقاضا کرتا ہے کہ سرکاری ادارے قانون کے تابع ہوں جبکہ انسانی حقوق کے اداروں کا کام ان کی نگرانی کرنا اور انہیں جوابدہ ٹھہرانا ہو۔

پیٹر جیکب by پیٹر جیکب
جنوری 14, 2023
in ایڈیٹر کی پسند, تجزیہ
29 0
0
ایک اقلیتی حقوق کے کمیشن کی تشکیل کیسے بارآور ثابت ہو سکتی ہے؟
34
SHARES
160
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

وزیراعظم شہباز شریف نے اسلام آباد میں کرسمس کے ایک پروگرام میں اعلان کیا ہے کہ اقلیتوں کے حقوق کے لئے جلد ہی قومی سطح پر ایک کمیشن (NCMR) کا قیام عمل میں لایا جائے گا جس پر مسودہ قانون تیاری کے مراحل میں ہے۔ یہ ایک قابل تعریف اقدام ہے لیکن اس سے پہلے کہ ایک اور انسانی حقوق کے کمیشن کے لئے قانون سازی کی جائے، ضروری ہے کہ ملک میں پہلے سے موجود انسانی حقوق کے قومی اداروں کو درپیش چیلنجز کا جائزہ لے لیا جائے۔

انسانی حقوق کا اولین ادارہ (NCSW)

RelatedPosts

پنجاب کا گاؤں موہری پور جہاں معاشرتی روایت نے خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روک رکھا ہے

پاکستان میں بچوں اور عورتوں پر تشدد کے واقعات میں تشویش ناک اضافہ

Load More

1996 میں خواتین کی حیثیت کے بارے میں ایک تحقیقاتی کمیشن نے قوانین میں عورتوں کے سماجی، اقتصادی اور سیاسی حقوق اور ان کے نفاذ کا بھی باریک بینی سے جائزہ لیا۔ جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد کی سربراہی میں ہونے والی تحقیقات کے نتیجے میں 1997 میں پارلیمنٹ کو ایک باضابطہ رپورٹ پیش کی گئی اور 2000 میں قومی کمیشن برائے حیثیتِ نسواں (NCSW) کا قیام عمل میں آیا، جسے 2012 میں قانون سازی کے ذریعے مزید بہتر اور مضبوط بنیاد مل گئی۔

لہٰذا مسائل کی تحقیقات سے لے کر ایک مستقل، قانونی اور مشاورتی ادارہ کے قیام تک ایک منطقی اور مرحلہ وار سفر طے ہوا۔ اس مثال سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ قومی کمیشن برائے حیثیتِ نسواں کو اقوام متحدہ کے پیرس اصولوں کے مطابق مکمل آزادی اور اختیارات حاصل نہیں ہیں۔ مالی وسائل، عملہ اور اختیارات محدود ہیں۔ لیکن اس کی قیادت کی کوششوں کی وجہ سے پاکستان میں اس اولین انسانی حقوق کے ادارے نے کچھ کامیابی حاصل کر لی۔ جسٹس (ر) ماجدہ رضوی، سیدہ عارفہ، انیس ہارون، خاور ممتاز اور حال میں نیلوفر بختیار نے خواتین کے حقوق کے لئے قانونی، پالیسی فریم ورک اور تحفظ کے طریقہ کار میں بہتری لانے کے لئے غیر معمولی محنت کی۔

قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (NCHR)

قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے لئے 2012 میں قانون بنا اور 2015 میں ایک کمیشن تشکیل دیا گیا۔ کمیشن نے سندھ میں غذائی قلت اور بچوں کی اموات کے ساتھ ساتھ متعدد اہم مسائل کی تحقیقات کیں، جن میں اوکاڑہ ملٹری فارمز کے کسانوں کی شکایات، افغان مہاجرین اور جیلوں میں تشدد جیسے مسائل شامل تھے۔

اس کے صوبائی دفاتر، اس کی تقرری میں حکومت اور اپوزیشن دونوں اور پارلیمنٹ کو براہ راست رپورٹنگ جیسی خصوصیات نے کمیشن کو تاحال سب سے زیادہ بااختیار انسانی حقوق کا ادارہ بنا رکھا ہے۔ سابقہ اور موجودہ کمیشنز نے اسے ریاستی انتظام کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے سخت محنت کی ہے۔ اس کے باوجود قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کو بین الاقوامی پذیرائی کے فقدان کا سامنا ہے جو اس کی خود مختاری اور کارکردگی سے مشروط ہو گی۔

کمیشن کے پہلے دور (2015 تا 2019) میں اس کے ارکان یہ وضاحت دیتے پائے گئے کہ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق ایک ‘ریاستی’ ادارہ ہے نہ کہ حکومتی۔ غالباً اس کا مقصد کمیشن کے دائرہ کار کی وضاحت کرنا اور اس کے غیر جانبدار اور مستقل کمیشن ہونے کے عنصر پر زور دینا ہے۔ لہٰذا اعتماد سازی کے ذریعے مختلف سرکاری شراکت داروں اور کمیشن کے مابین حالاتِ کار اور بہتر ماحول کے لیے معتدل سطح کی کامیابیاں حاصل ہو گئیں۔

بچوں کے حقوق کا قومی کمیشن (NCRC)

انسانی حقوق کے حوالے سے قائم ہونے والا ایک نیا ادارہ بچوں کے حقوق کا قومی کمیشن (NCRC) ہے جس کے لئے قانون سازی 2017 میں ہوئی اور ادارہ 2020 میں تشکیل دیا گیا۔ اگرچہ پچھلی چند دہائیوں میں بچوں کے حقوق کو مقامی اور بین الاقوامی سطح پر بہت زیادہ توجہ دی گئی ہے لیکن کمیشن اپنے اہداف کی سمت صرف بنیادی کام کا اغاز کر پایا جبکہ یہ اپنا پہلا تین سالہ دور مکمل کرنے کو ہے۔

انسانی حقوق کے اداروں کو درپیش چیلنجز

تقرریوں کے تسلسل کو یقینی بنانے کے بجائے سیاسی قیادت نے ‘موزوں’ افراد کی تلاش میں تاخیر کی جس سے قومی کمیشن برائے حیثیتِ نسواں اور قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی تشکیلِ نو التوا کا شکار ہوئی۔ عام طور پر انسانی حقوق کمیشن کی سفارشات کو نظر انداز کیا جاتا رہا یا ان پر وزارتِ انسانی حقوق کی جانب سے عمل درآمد میں تاخیر ہوتی رہی۔ نتیجہ انسانی حقوق کی دگرگوں صورت حال میں نکلتا رہا۔

صوبوں نے انسانی حقوق کے ادارے بھی بنائے ہیں جن میں مختلف کمیشن، وزارتیں، بیورو اور محکمے شامل ہیں۔ نیز ٹریٹی ایمپلی منٹیشن سیل بھی بنائے گئے ہیں جن کا مقصد بین الاقوامی ذمہ داریوں کی تکمیل کی اطلاع دینا ہے۔ اگر سیل کی رپورٹوں پر نظر ڈالی جائے تو اندازہ لگانے میں دیر نہیں لگے گی کہ یہ ادارے وسائل، مہارت اور کارکردگی میں اپنے مقاصد سے کوسوں دور پڑے ہیں۔

معلومات تک رسائی کا حق

انسانی حقوق پر جواب دہی نظام کا اہم جزو ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ صوبوں اور وفاقی اداروں میں الگ الگ ادارے قائم ہوئے جن میں مرکز سے اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کا مقصد پورا ہوتا ہے۔ تاہم معلومات تک رسائی کا حق کے نفاذ میں آر ٹی آئی کمیشنز کو بھی انسانی حقوق کے دیگر اداروں کی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ عدم شفافیت ان مسائل میں سرِفہرست ہے۔

انسانی حقوق کے قومی اداروں کو حکومت اور حق داروں (عوام) کے درمیان پل کا کردار ادا کرنا ہوتا ہے لیکن جب ان اداروں کو انتظامیہ کے تابع کر دیا جاتا ہے یا انتظامی امور میں الجھا دیا جاتا ہے تو یہ کام نہیں کر پاتے۔

انسانی حقوق کے اداروں کا تسلسل

اگر یہ تسلسل ہماری سیاست، اقربا پروری اور کرپشن کی نظر ہو جائے تو اس سے بڑی بد قسمتی اور کیا ہو سکتی ہے۔ اٹھارھویں آئینی ترمیم کے تحت اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی ابھی نامکمل ہے۔ اقتدار کی منتقلی صوبائی دارالحکومتوں تک آ کے ٹھہر گئی ہے۔ لہٰذا ان اداروں کو اپنا وقت اور توانائیاں عوامی سطح تک پہنچانے میں دشواری ہوتی ہے جنہیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے تحفظ دینا ان اداروں کی ذمہ داری ہے۔ ان متاثرین تک رسائی کے لئے انہیں سول سوسائٹی تنظیموں جن میں ذرائع ابلاغ اور غیر سرکاری ادارے شامل ہیں ان پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ حالانکہ سرکاری سطح پر ان تنظیموں یا انسانی حقوق کے اداروں کے کردار کو شامل نہیں کیا جاتا۔

غیر جمہوری اور غیر شفاف طرز عمل کمیشن کے کردار اور اس کے کام کے دائرہ کار کو محدود کر دیتے ہیں۔ ریاستی نظام کا استحکام تقاضا کرتا ہے کہ سرکاری ادارے قانون کے تابع ہوں جبکہ انسانی حقوق کے اداروں کا کام ان کی نگرانی کرنا اور انہیں جوابدہ ٹھہرانا ہو۔ لیکن فرسودہ نظام کا پروردہ انتظامی ڈھانچہ ایک بحران کا علاج مزید بحران پیدا کر کے کرنے کا عادی ہو چکا ہے۔ نیز یہ انسانی حقوق کے اداروں کے اصلاحی کردار کو تسلیم کرنے سے بھی ہچکچاتا ہے۔ یوں انسانی حقوق کے اداروں کا اپنی ذمہ داریاں نبھانا دشوار تر ہو جاتا ہے۔ کئی افسرانِ شاہی انسانی حقوق کے اداروں کو ریاستی معاملات میں غیر ضروری مداخلت تصورکرتے ہیں۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ انسانی حقوق کے ادارے افسرشاہی کے کنٹرول میں رہیں۔ نتیجتاً اُن کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ عام طور پر دفاتر کے حصول میں ایک سال اور تنخواہوں کی وصولی میں ایک سال سے زائد وقت صرف ہو جاتا ہے۔

تشکیل کے مسائل

یہ بحث بھی ہوتی رہی کہ انسانی حقوق کے ادارے کی سربراہی کے لئے کون زیادہ موزوں ہے؛ سابق جج، بیوروکریٹس یا انسانی حقوق کے ماہرین؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ سرکاری کام کا تجربہ اور پیشہ ورانہ مہارت اہم ہے تاہم ادارے کی تعمیر و ترقی اور فعالیت کے لئے ادارے بنانے اور قائدانہ صلاحیتوں کا ہونا بھی پیشِ نظر ہونا چاہئیے۔

تقرریاں ایسی ہوں جن سے انسانی حقوق کے اداروں کے درمیان ہم آہنگی استوار کرنے میں مدد ملے۔ انسانی حقوق کے اداروں کی تشکیل اور ٹیم کی ہم آہنگی ضروری ہے۔ گزشتہ سالوں میں یہ بھی ہوا کہ انسانی حقوق کے اداروں کے کچھ اراکین نے یا انتظامی فیصلوں کے خلاف عدالتوں کا رخ کیا یا استعفیٰ دے دیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہیروز کے بجائے ٹیم میں کام کرنے والوں کو ترجیح ملنی چاہئیے۔

چونکہ یہ تقرریاں اکثر اوقات مالی طور پر منافع بخش ہوتی ہیں لہٰذا ریٹائرڈ سرکاری ملازمین ان اداروں میں کافی دلچسپی ظاہر کرتے ہیں۔ تجربہ اور مہارت انسانی حقوق کے اداروں کے لئے کارآمد ثابت ہو سکتا ہے لیکن اس عنصر کو تقرریوں پرحاوی نہیں ہونا چاہئیے۔

قومی کمیشن برائے حقوقِ اقلیت (NCMR) کی تشکیل

قومی کمیشن برائے حقوقِ اقلیت (NCMR) کے قیام کے لیے قانون سازی میں درج بالا چیلنجز سے نمٹنا ہوگا تاہم کچھ خاص نوعیت کے مسائل بھی ہیں جن کو پیشِ نظر رکھنا ہوگا۔

قومی کمیشن برائے حقوقِ اقلیت کی کامیابی کیسے ممکن ہے؟

اول؛ ‘اقلیت’ کی اصطلاح کی تعریف و وضاحت کرنا ہوگی۔ فی الحال اس کا استعمال صرف مذہبی اقلیتوں کے ضمن میں کیا جاتا ہے۔

دوئم؛ اسے ماہرینِ حقوق کا ادارہ ہونا چاہئیے نہ کہ بین المذاہب مکالمے یا اقلیتوں کی سیاسی نمائندگی کا۔ قومی کمیشن برائے اقلیت کو کسی اور ادارے کے خیراتی کام سے کنفیوژ کرنا یا اس کی نقل کرنا مناسب نہیں ہوگا۔

سوئم؛ اقلیتی کمیشن کو فقط اقلیتوں کا ادارہ ہونے کے بجائے اقلیتوں کے حقوق کے مؤثر نفاذ کا ادارہ ہونا چاہئیے۔ اس کمیشن کا سائز (حجم) بھی اتنا بڑا نہ ہو جو اسے کار کردگی سے محروم کر دے۔

چہارم؛ اقلیتی ادارہ ہونے کے ناطے اسے منفی رویوں کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس لیے مجوزہ اقلیتی کمیشن کے لئے قانون سازی کرتے وقت اضافی اختیارات یا متبادل گنجائش رکھی جائے تا کہ اس کے مقاصد کے حصول اور دائرہ کار میں رکاوٹ نہ پیدا ہو۔ نیز ریاستی سطح پر اس کی سفارشات پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔

پنجم؛ ایک طرف اقلیتوں کی پسماندگی اور حقوق کا غیر مؤثر نفاذ اور دوسری جانب وسائل اور رسائی کا محدود ہونا۔ اس صورت حال کے پیشِ نظر مجوزہ کمیشن عوامی مفاد پر کام کرنے والا مضبوط ادارہ بن سکتا ہے اگر اس کے تشکیلی قانون میں سینکڑوں فعال کارکنوں یا رضاکاروں کو شامل کرنے کی گنجائش ہو تا کہ عوام کو حقوق کی رسائی ممکن بنائی جا سکے۔ ابتدائی طور پر مذہبی اقلیتوں مگر بالآخر انسانی حقوق کے دیگر اداروں کو بھی ایسا کرنا پڑے گا۔

بالآخر حقوق کے فریم ورک میں اقلیتوں کی شمولیت کو گروہی حقوق کے دائرے سے آگے سب کے لیے حقوق اور یکساں انصاف تک بڑھانا پڑے گا۔

اس بات کو سمجھ لینا چاہئیے کہ نیا کمیشن چند مراعات لینے کا نہیں، ریاستی نظام میں اصلاح کا ذریعہ بننا چاہئیے۔ نیز تمام شراکت داروں بالخصوص غیر سرکاری تنظیموں کو سخت محنت کرنا ہوگی۔

Tags: اقلیت کی اصطلاحانسانی حقوقانسانی حقوق کمیشنبچوں کے حقوق کا قومی کمیشنقومی کمیشن برائے حقوق اقلیتقومی کمیشن برائے حیثیت نسواںمذہبی اقلیتیںمعلومات تک رسائی کا حق
Previous Post

وسیم اکرم خطرناک ترین فاسٹ باؤلر تھا: برائن لارا کا اعتراف

Next Post

‘قانونی وجوہات کی بنا پر نگران حکومتیں اکتوبر تک کام کرتی رہیں گی’

پیٹر جیکب

پیٹر جیکب

پیٹر جیکب نیشنل کریکولم کونسل کے رکن، سپریم کورٹ میں، ادارہ برائے سماجی انصاف کے نمائندہ، ریسرچر اور فری لانس اخبار نویس ہیں ان سے اس ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے [email protected]

Related Posts

پاکستانی معاشرے کو عمران کے بجائے بلاول جیسے رہنماؤں کی ضرورت ہے

پاکستانی معاشرے کو عمران کے بجائے بلاول جیسے رہنماؤں کی ضرورت ہے

by عاصم علی
جنوری 28, 2023
0

پاکستان کی 75 سالہ سیاسی اور معاشرتی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو ایک چیز جس نے پاکستان کی سیاست اور معاشرے...

Aamir Ghauri Nawaz Sharif

نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟

by عامر غوری
جنوری 27, 2023
0

16 سال قبل میں محمد نواز شریف کے ساتھ ان کے خاندان کے مشہور پارک لین فلیٹس میں بیٹھا جیو نیوز کے...

Load More
Next Post
‘قانونی وجوہات کی بنا پر نگران حکومتیں اکتوبر تک کام کرتی رہیں گی’

'قانونی وجوہات کی بنا پر نگران حکومتیں اکتوبر تک کام کرتی رہیں گی'

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

Aamir Ghauri Nawaz Sharif

نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟

by عامر غوری
جنوری 27, 2023
0

...

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

by عاصم علی
جنوری 18, 2023
0

...

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

by طارق بشیر
جنوری 18, 2023
0

...

ایک اقلیتی حقوق کے کمیشن کی تشکیل کیسے بارآور ثابت ہو سکتی ہے؟

ایک اقلیتی حقوق کے کمیشن کی تشکیل کیسے بارآور ثابت ہو سکتی ہے؟

by پیٹر جیکب
جنوری 14, 2023
0

...

Ahmad Baloch Kathak dance

بلوچستان کا ایک غریب چرواہا جو بکریاں چراتے چراتے آرٹسٹ بن گیا

by ظریف رند
جنوری 6, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

Cover for Naya Daur Urdu
64,514
Naya Daur Urdu

Naya Daur Urdu

پاکستان کی ثقافت اور تاریخ کو دیکھنے کا ایک نیا زاویہ

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In