پی ٹی آئی، ایم کیو ایم سب اسٹیبلشمنٹ کے پروجیکٹ ہیں

پی ٹی آئی، ایم کیو ایم سب اسٹیبلشمنٹ کے پروجیکٹ ہیں
کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج پہ پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے مابین معاملہ ایک نئے تنازعے کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ جماعت اسلامی نے نتائج ماننے سے انکار کرتے ہوئے احتجاج شروع کر دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کے لیے ایک اور مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے۔ پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے مابین معاملات طے پا سکتے ہیں مگر اس کے لیے پیپلز پارٹی کی نسبت جماعت اسلامی کا رویہ زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ پیپلز پارٹی کے پاس تو کراچی کی مقامی حکومت پہلے بھی نہیں تھی، اب پیپلز پارٹی کو ایم کیو ایم کا متبادل جماعت اسلامی کی صورت میں قبول کرنا پڑے گا۔ یہ پیپلز پارٹی کے لیے زیادہ مشکل کام نہیں ہے کیونکہ پیپلز پارٹی مفاہمت اور مصلحت پسندی کی سیاست میں کافی مہارت رکھتی ہے۔

مسئلہ جماعت اسلامی کا ہے جس کی سیاست پورے ملک میں تقریباً ناپید ہو چکی ہے۔ جماعت اسلامی ملکی سیاست میں سیاسی حیات نو کی امنگ رکھتی ہے۔ جماعت اب کراچی کے ووٹ بینک اور مقامی حکومت کے ذریعے سے اپنے بڑے سیاسی ایجنڈے پر کام کرنا چاہتی ہے اور وہ بڑا سیاسی ایجنڈا ملکی اور قومی سطح کی سیاست ہے۔ اس سلسلے میں جماعت کے لیے سب سے زیادہ اہم خیبر پختونخوا کا صوبہ ہے جہاں جماعت خاصا ووٹ بینک رکھنے کے ساتھ ساتھ نظریاتی حمایت بھی رکھتی ہے۔ جماعت کی کوشش ہو گی کہ وہ کراچی کے بلدیاتی الیکشن میں کامیابی کو خیبر پختونخوا میں واپسی کے لیے استعمال کرے۔ اس مقصد کے لیے ان کو تحریک انصاف کی طرف سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر کوئی مثبت جواب ملا تو پھر جماعت تحریک انصاف کے ساتھ الحاق کرنے میں ذرہ بھی دیر نہیں لگائے گی۔ جماعت کے پاس تو بڑی مدت کے بعد سیاست کے میدان میں کھیلنے کا کوئی موقع ہاتھ آیا ہے مگر اس باسی کڑھی میں ابال سے کراچی پر کیا اثرات پڑیں گے یہ اہم سوال ہے۔

کراچی جو کبھی دنیا کے مہذب ترین، صاف ترین اور پر امن ترین شہروں میں شمار ہوتا تھا مگر بدقسمتی سے پچھلی کئی دہائیوں سے گینگ وار، ٹارگٹ کلنگ، وارداتوں، آلودگی اور طبقاتی سیاست کا مرکز بنا ہوا ہے۔ کراچی کے ان ناگفتہ بہ حالات میں سب ہی نے اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے۔ پنجاب کی اسٹیبلشمنٹ، مہاجر، سندھی، پشتون اور مذہبی تنظیموں نے شہر کو تاریکی میں لے جانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ کراچی سب کا ہے مگر کراچی کا کوئی نہیں ہے۔ سب گروپ اور سیاسی و مذہبی مافیاز کراچی میں اجارہ داری حاصل کرکے اس کے وسائل کو لوٹنا چاہتے ہیں مگر کوئی اس کے اصل مسائل کو حل نہیں کرنا چاہتا۔

کراچی کے اندر بڑا ٹیلنٹ اور بڑی وسعت ہے۔ یہ شہر ہر طرح کی آفت اور مسئلے سے چھٹکارا پانے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے مگر کراچی کو ایک بڑے اور سنگین مسئلے نے کئی عشروں سے گھیر رکھا ہے۔ وہ مسئلہ کراچی کے لوگوں کے سیاسی مینڈیٹ کا قتل ہے۔ کراچی کے شہریوں کو کبھی بھی مقتدر حلقوں نے اپنے نمائندے اور رہنما آزادی سے منتخب کرنے کا موقع نہیں دیا بلکہ ان کی ہمیشہ سے وقتاً فوقتاً مختلف 'پروجیکٹس' کی حمایت کے لیے ذہن سازی کی جاتی رہی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کراچی پاکستان کا معاشی اور اقتصادی مرکز ہے۔ کوئی بھی سیاسی اور غیر سیاسی طاقت اس سے فائدہ اٹھانے میں محروم نہیں رہنا چاہتی مگر ایک 'خاص' طاقت ہے جو کراچی پہ غلبہ اور تسلط برقرار رکھنے کے لیے کثیر المدت پروجیکٹس کو کراچی میں لانچ کرتی ہے تاکہ طاقت کا توازن ان کے حق میں رہے۔ انہی پروجیکٹس کی بدولت کراچی خون ریزی اور سیاسی رشہ کشی کا پانی پت بن چکا ہے۔

1947 میں قیام پاکستان کے وقت کراچی کو پاکستان کا دارالحکومت بنایا گیا تو حکومتی امور چلانے کے لیے پورے ملک سے لوگوں کو لا لا کر کراچی میں بسایا گیا۔ ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والے پڑھے لکھے اور قابل مہاجرین کو بھی کراچی میں بسانے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ کثیر تعداد مین مہاجر کمیونٹی کے کراچی میں بسنے کی وجہ سے سندھ کے مقامی لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہونے لگا کہ مہاجرین صوبے کے وسائل اور اعلیٰ عہدوں پر قابض ہو جائیں گے۔ یہیں سے مہاجروں اور سندھیوں کے مابین سیاسی اور معاشرتی مخاصمت کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ ان اختلافات میں اضافہ اس وقت ہوا جب 1959 میں پاکستان کا دارالخلافہ کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا۔ کراچی اب سندھ کا دارالحکومت تھا جس کے پاس نوکریوں اور فنڈز کی کمی واقع ہو گئی تھی۔ سندھیوں اور مہاجروں میں نوکریوں اور شہر پر اقتدارحاصل کرنے کی جنگ کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔

مہاجر اور سندھی کمیونٹی کی اس معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی تقسیم کو اسٹیبلشمنٹ نے خوب استعمال کیا اور کراچی کی سیاست میں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام جیسی مذہبی پارٹیوں کی کامیابی میں بھی اس تقسیم کا بڑا کردار تھا۔ کراچی میں مذہبی جماعتوں کے ووٹ بینک اور اثرورسوخ کو پیپلز پارٹی بھی ختم نہیں کر سکی کیونکہ پیپلزپارٹی سندھ کی جماعت تھی جو کراچی کی اکثریتی مہاجر آبادی کو قائل نہ کر سکی۔ ایم کیو ایم نے سیاست میں آ کر مذہبی ووٹ بینک کا رخ موڑ دیا۔ کراچی میں پہلے مذہبی اور بعدازاں لسانی دونوں پروجیکٹ بری طرح ناکام ہوئے۔

زمینی حقائق کے مطابق کراچی ایک میٹروپولیٹن شہر ہے جہاں مختلف رنگوں، قوموں اور مذہبوں کے افراد رہتے ہیں۔ اسے کبھی بھی قومی، مذہبی اور طبقاتی سیاست سے نہیں چلایا جا سکتا بلکہ اس کے لیے رواداری اور کثرت پسندانہ سوچ پر مبنی نظریہ سیاست کی ضرورت ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی لبرل اور رواداری والی سیاست کراچی کے مزاج کے موافق نظر آتی ہے مگر پیپلز پارٹی کے پاس کبھی بھی کراچی میں اکثریت نہیں رہی۔ پیپلز پارٹی کی مقبولیت کے اوج کمال کے وقت بھی کراچی سے 1970 اور 1977 کے دونوں انتخابات میں پیپلز پارٹی کے پاس قومی اسمبلی کی صرف 2 ہی نشستیں تھیں۔ دونوں انتخابات میں جیتنے والے پیپلز پارٹی کے عبدالستار گبول اور عبدالحفیظ پیرزادہ تھے۔

1970 کے انتخابات میں کراچی سے جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی نے اکثریت حاصل کی تھی اور 1977 کے انتخابات میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد پاکستان جمہوری اتحاد کے پاس کراچی کی قومی اسمبلی کی 11 میں سے 8 سیٹیں تھیں جبکہ دو پیپلز پارٹی کے پاس اور ایک آزاد امیدوار کامیاب ہوا تھا۔ کراچی میں پیپلز پارٹی کو سیاسی کامیابی نہ ملنے کی کافی ساری وجوہات ہیں مگر ایک بڑی وجہ اس کے ساتھ سندھ کی پارٹی ہونے کا امتیازی نشان منسلک کیا گیا ہے اور کراچی کو ہمیشہ سے سندھ سے الگ رکھنے کی مذموم کوشش کی گئی ہے۔ آج بھی کراچی میں سندھی آبادی کو کراچی سے الگ رکھنے کے لیے اندرون سندھ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اس سے بڑا ظلم یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کو کراچی کے تمام مسائل کا مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے جو اس کے پاس کبھی رہا ہی نہیں ہے۔

جماعت اسلامی کی کراچی میں سیاست ویسی ہی رہی ہے جیسی پنجاب یونیورسٹی میں اس کے طلبہ ونگ اسلامی جمعیت طلبہ کی سیاست ہے۔ جماعت کی غنڈہ گردی کے باعث مہاجر طالب علموں میں احساس محرومی نے جنم لیا جس کے ردعمل کے طور پر پہلے آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (APMSO) بنی جو بعد میں ایک سیاسی پارٹی مہاجر قومی موومنٹ کی شکل میں سامنے آئی۔ اس نے بعد میں خود کے اندر ملکی سطح کی پارٹی کا تشخص بنانے کے لیے اپنا نام متحدہ قومی موومنٹ رکھ لیا۔ 1980 کی دہائی میں مہاجر قومی موومنٹ کو کثیرالمدت پروجیکٹس کے خالقوں نے پیپلز پارٹی کو سندھ میں کمزور کرنے اور کراچی میں اس کے بڑھتے ہوئے سیاسی اثر کو کم کرنے کے لیے باقاعدہ پروموٹ کیا۔ اس پروجیکٹ نے کراچی کے امن اور رواداری کو تباہ کر دیا اور قومی و طبقاتی بنیادوں پر کراچی کو تقسیم کر کے قتل و غارت اور بھتے کی سیاست کی نذر کر دیا۔

متحدہ قومی موومنٹ کے پروجیکٹ نے جب اپنے خالقوں کو ملک کے اندر اور ملک سے باہر مزاحمت دکھائی تو اس پروجیکٹ کو سمیٹنے کی کوششیں شروع ہو گئیں۔ کراچی میں ایم کیو ایم کے ووٹ کو بھی مناسب سمت میں رکھنے کے لیے پروجیکٹ عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف کو ایک منظم طریقے سے کراچی کی سیاست میں لانچ کیا گیا۔ پروجیکٹ عمران خان کی مقررہ مدت ختم ہونے کے بعد اب پھر سے نئے پروجیکٹس کے لیے بھرتی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ ایک طرف ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں کو اکٹھا کیا جا رہا ہے مگر ان کو پھر سے قدم جمانے میں ابھی وقت لگے گا کیونکہ کراچی کے عوام خون ریزی اور بھتے کی یادوں کو ابھی بھلا نہیں پائے۔ مگر اسی اثنا میں کراچی کو تنہا تو نہیں چھوڑا جا سکتا ورنہ کہیں کراچی پیپلزپارٹی کے پاس نہ چلا جائے تو اسی اندیشے کے پیش نظر اب کراچی میں جماعت اسلامی کے ذریعے سے اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جماعت اسلامی کو تحریک انصاف کے غیر فعال ہونے اور ایم کیو ایم کے بائیکاٹ کا فائدہ پہنچا ہے مگر اصل کھیل اب نتائج کے بعد شروع ہوگا جس کے کچھ آثار جماعت کے احتجاج سے نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔

دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اس بار کراچی میں جماعت اسلامی کو بلدیاتی انتخابات سے پہلے سیاسی میک اپ کروایا گیا ہے تاکہ وہ کچھ روشن خیال اور سیاسی لحاظ سے وسعت قلب نظر آئے۔ اس سلسلے میں اداکاروں اور نام نہاد لبرلز کی مدد بھی لی گئی ہے تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ جماعت پہلے جیسی نہیں رہی۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ میڈیا کے بہت سارے تجزیہ کار خود ساختہ معصومیت کے بہاؤ میں بہہ کر اس پر یقین بھی کرتے نظر آ رہے ہیں۔ مگر سیاست پر تھوڑی بہت نظر رکھنے والے افراد یہ جانتے ہیں کہ سیاست میں کامیابی کے لیے بار بار چہرہ بدلنا پڑتا ہے، سیاسی میک اپ کرنا پڑتا ہے، پرانے اور فرسودہ نظریات کو بیچنے کے لیے اس کو تازہ رکھنا پڑتا ہے بالکل اس باسی سبزی کی طرح جس کو تازہ رکھنے کے لیے بار بار اس پر پانی چھڑکا جاتا ہے۔ کراچی میں نئی سیاسی کرتب بازیوں میں بے شک عقل والوں کے لیے بے شمار نشانیاں ہیں۔

کراچی سندھ کا ویسے ہی حصہ ہے جیسے لاہور پنجاب کا، پشاور خیبر پختونخوا کا اور کوئٹہ بلوچستان کا۔ پھر باقی صوبوں میں اندرون پنجاب، اندرون خیبر پختونخوا اور اندرون بلوچستان جیسی اصطلاحیں کیوں رائج نہیں ہوئیں؟ کراچی اور سندھ کو الگ کرنے والے پاکستان کے دوست نہیں ہو سکتے کیونکہ جغرافیائی اور تاریخی حقیقتوں سے کھیلنے والوں کا اپنا وجود مٹ جاتا ہے، حقیقتیں اپنی جگہ مسلمہ رہتی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے موجودہ دور حکومت میں مرتضیٰ وہاب جیسے نوجوان اور سلجھے ہوئے ایڈمنسٹریٹر کی صورت میں کراچی کے اندر اپنی کارکردگی اور اپنی سیاسی ساکھ کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے جس کا کچھ نہ کچھ نتیجہ بلدیاتی انتخابات میں نظر آیا ہے مگر پیپلز پارٹی کو ابھی بہت کام کرنا ہو گا۔ کراچی کی نوجوان نسل کو اس حقیقت سے روشناس کروانا ہو گا کہ کراچی کو کوئی بھی لسانی، قومی، مذہبی اور بیرونی پروجیکٹ امن اور خوشحالی کی راہ پر نہیں ڈال سکتا بلکہ کراچی کا مستقبل آزاد، رواداری اور کثرت پسندانہ سیاست کے اصولوں میں مضمر ہے لیکن اس کے لیے پیپلز پارٹی کو اپنے اوپر سے سندھی پارٹی ہونے کے غالب اثر کو زائل کرنا ہو گا۔ کراچی کا امن اور خوش حالی پاکستان کے امن اور خوش حالی کی ضمانت ہے۔

عاصم علی انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے University of Leicester, England سے ایم فل کر رکھا ہے اور اب یونیورسٹی کی سطح پہ یہی مضمون پڑھا رہے ہیں۔