پاکستانی معاشرے کو عمران کے بجائے بلاول جیسے رہنماؤں کی ضرورت ہے

پاکستانی معاشرے کو عمران کے بجائے بلاول جیسے رہنماؤں کی ضرورت ہے
پاکستان کی 75 سالہ سیاسی اور معاشرتی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو ایک چیز جس نے پاکستان کی سیاست اور معاشرے دونوں کو مفلوج بنانے میں سب سے کلیدی کردار ادا کیا ہے وہ خاص صوبوں، خاص قوموں، خاص طبقوں اور خاص شخصیات کا استحقاق ہے۔ یہ طبقات اپنی مرضی کے مطابق اس ملک کے معاشرے اور قانون کو بدل سکتے ہیں۔ اسی طرح کا استحقاق تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نیازی صاحب کو بھی حاصل ہے۔ وہ جب چاہیں دین کی اپنے مطلب کے مطابق تشریح کر سکتے ہیں، سیاست کو اپنی مرضی کے معنی دے کر اس کا دھارا بدل سکتے ہیں، اسٹیبلشمنٹ کی غیر آئینی اور غیر قانونی مدد سے منتخب حکومتیں گرا سکتے ہیں، آرمی چیف کو اپنے مذموم ارادوں کی تکمیل کے لیے رشوت کی پیشکش کر سکتے ہیں اور جب دل چاہے ملک میں انارکی پھیلا سکتے ہیں۔

ان سب چیزوں سے بڑھ کر ان کو پچھلے ایک عشرے میں پاکستان میں جو خاص استحقاق حاصل ہے وہ معاشرے کی سوچ کو اپنی منشا کے مطابق ڈھالنا ہے۔ اس میں سب سے زیادہ کھلواڑ نوجوان نسل کے ساتھ کیا گیا ہے جن کو نیازی صاحب نے ایک خاص سوچ کے پیرائے میں ڈھالنا شروع کیا اور اس ضمن میں اخلاق اور اقدار کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی گئی ہیں۔ نیازی صاحب سمجھتے ہیں کہ ان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ معاشرے اور نوجوانوں کو اپنی امنگوں کے مطابق جب چاہیں، جہاں چاہیں استعمال کر سکتے ہیں۔

عمران خان نیازی کی آڈیو لیکس کا سلسلہ شروع ہوا تو تمام جمہوریت پسند اور اخلاقی اقداررکھنے والے افراد نے اس روش کی مذمت کی۔ یہ سلسلہ پاکستان کی سیاست اور معاشرے کو مزید گندہ اور ننگا کر دے گا۔ بڑے ظالم تو وہ 'لوگ' ہیں جن کو 2018 سے پہلے بھی ان سب چیزوں کا پتہ تھا جو اب سامنے آ رہی ہیں لیکن تب ان کے سروں پر 'انقلاب' کا بھوت سوار تھا جس کے کرشمے دیکھنے کے لیے عمران خان نیازی جیسے مہرے کی اشد ضرورت تھی۔ جب اس مہرے سے مطلوبہ کام لے لیا گیا تو اس کو فارغ کر دیا گیا۔ جب نیازی صاحب نے نکالے جانے کے غم میں اپنے ہینڈلرز کو ان کی اوقات یاد دلانا شروع کی تو انہوں نے آڈیو لیکس کے ذریعے سے عمران خان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی۔

ہینڈلرز کو بھی شاید پوری طرح اس بات کا ادراک نہیں تھا کہ نیازی صاحب کو اس ملک میں بہت سے استحقاق حاصل ہیں اور یہ استحقاق دینے میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور ان افراد کی اپنی دن رات کی محنت شامل ہے۔ انہی لوگوں نے ہائبرڈ رجیم اور ففتھ جنریشن وارفیئر کے منجن کی آڑ میں عوام کے پیسے سے 'عمران پروجیکٹ' کی تیاری اور لانچنگ کے لیے سوشل میڈیا پر ننھے منے انقلابی بٹھائے جن کا کام سیاست دانوں کو گندہ کرنا اور عمران خان کو فرشتہ ثابت کرنا تھا اور انہی افراد نے عمران خان نیازی کی جیت پر خوش آمدیدی ٹویٹ کیے تھے۔

عمران خان نیازی نے اپنی مبینہ آڈیو لیکس کے بعد عوام سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی آبادی کا زیادہ تر حصہ نوجوان نسل پر مشتمل ہے، اس طرح کی آڈیو لیکس کا ان کے ذہنوں اور اخلاقیات پر برا اثر پڑے گا۔ حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ عمران خان کو نوجوانوں اور ان کے اخلاق کی چنداں فکر نہیں ہے۔ ان کو صرف یہ فکر تھی کہ دوسروں کے بارے میں غیر اخلاقی گفتگو کرنے اور نوجوانوں کی اخلاقیات کو تباہ کرنے کا استحقاق صرف ان کے پاس ہے۔ انہیں غصہ تھا کہ کوئی دوسرا ان کے استحقاق پر ڈاکہ کس لیے ڈال رہا ہے۔

عمران خان نیازی کا آڈیو لیکس کے ردعمل میں دیا گیا بیان منافقت اور دوغلے رویے سے بھرپور تھا۔ اکتوبر 2022 میں سرگودھا یونیورسٹی میں اپنے خطاب کے دوران عمران نیازی نے حسب معمول غیر اخلاقی زبان کا استعمال کیا اور پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرادری کے بارے میں جنسیت میں ملفوف الفاظ استعمال کرتے ہوئے خود کو بڑا 'مرد' ثابت کرنے کی کوشش کی۔ عمران خان اپنے اس طرح کے غیر اخلاقی، غیر معاشرتی اور غیر انسانی بیانات سے یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کو کون سی اخلاقیات سکھا رہے تھے۔ مغرب اور یورپ کو سب سے زیادہ جاننے کے دعوے کرنے والے کو شاید اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ جنس کے بارے میں نظریات اور خیالات سراسر معاشرتی اختراع ہیں اور یہ تصورات معاشرتی بناوٹ سے تشکیل پاتے ہیں۔

انہوں نے ذرا بھی نہیں سوچا ہوگا کہ اس طرح کی گفتگو سے نوجوان ذہنوں پر کیا اثرات پڑیں گے کیونکہ وہ ایک کھلاڑی ہے جس کا مقصد ہر حال میں جیتنا ہے، اس کا اخلاقیات اور اقدار سے بھلا کیا واسطہ! محترمہ بینظیر بھٹو سے 1996 میں کسی نے پوچھا کہ عمران خان کے سیاست میں آنے پر آپ کیا کہتی ہیں؟ بی بی شہید نے فرمایا کہ عمران خان کے سیاست میں آنے پر کوئی مسئلہ نہیں ہے اگر وہ بال ٹیمپرنگ نہ کرے۔ پھر تاریخ نے دیکھا کہ اس شخص نے امپائر کی انگلی اور آرمی چیف کو رشوت دینے سے لے کر اس ملک کے آئین اور قانون کو بھی داؤ پہ لگا دیا اور ساتھ ہی اس ملک کی نوجوان نسل کی اخلاقیات کا بھی جنازہ نکال دیا۔

عمران خان نیازی یونیورسٹی کے طالب علموں سے کہہ رہے تھے کہ یہاں سے لیڈر پیدا ہوتے ہیں، جس طرح کی گفتگو وہ طلبہ سے کر رہے تھے وہاں سے لیڈر نہیں، شیخ رشید جیسے بونے رہنما پیدا ہوں گے۔ ہمارے معاشرے میں پہلے ہی جنسی تعصب اور جنسی ایذا رسانی کا ناسور خطرناک حد تک موجود ہے، اس کو مزید تقویت دینا اور درسگاہوں میں اس کی ترویج کرنا ایک احمقانہ اور جاہلانہ اقدام ہے۔ یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ درسگاہوں کی انتظامیہ ایسے افراد کو نوجوانوں کے ذہنی شعور کے ساتھ کھلواڑ کرنے کا موقع دے کر آنے والی نسلوں کو تباہ کرنے میں ملوث ہو گئی ہے۔

ہمارے معاشرے میں نوجوان نسل کے ذہنوں کے ساتھ پچھلے ایک عشرے سے جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اس کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے ہمیں عمران خان جیسے مزید مردوں کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے بجائے ہمیں بلاول بھٹو جیسے نفیس، بے ضرر اور اخلاق سے آراستہ مردوں اور رہنماؤں کی ضرورت ہے۔ کالم نگار حسن نثار نے ایک موقع پر کہا تھا کہ ہمارے معاشرے کے معیارات بہت عجیب ہیں، کوئی شریف اور دیانت دار تھانیدارہو تو اس کو ہیجڑوں سے تشبیہ دی جاتی ہے اور اگر ایک راشی اور زانی قسم کا تھانیدار ہو تو اسے ہم 'مرد کا بچہ' کہتے ہیں۔ قومی ترقی معاشرتی ترقی کے بغیر ممکن نہیں ہے اور معاشرے کی سوچ اور اس کے فرسودہ اور دقیانوسی معیارات کو بدلنا اس ضمن میں پہلا قدم ہوگا۔ یہ وقت کی اہم ضرورت ہے اور پاکستان اپنا پہلا قدم اٹھانے میں مزید دیر کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

عاصم علی انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے University of Leicester, England سے ایم فل کر رکھا ہے اور اب یونیورسٹی کی سطح پہ یہی مضمون پڑھا رہے ہیں۔