عمران خان کا سیاسی نظریہ سراسر جھوٹ کی بنیاد پر استوار ہے

عمران خان کا سیاسی نظریہ سراسر جھوٹ کی بنیاد پر استوار ہے
لوگوں کو اتنا جھوٹ بار بار بتاؤ کہ وہ سچ ماننے لگ جائیں اور جھوٹ اس حساب سے بولنا ہے کہ پہلے والے جھوٹ کی معیاد ختم ہونے سے پہلے ایک نیا جھوٹ بولنا ہے تاکہ جھوٹ کا تسلسل برقرار رہے اور لوگ اسی شیطانی چکر میں پھنسے رہیں؛ یہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی موجودہ سیاست کا مرکزی نظریہ ہے۔ جب سے ان کی حکومت گئی ہے وہ صرف جھوٹ ہی بول رہے ہیں اور جھوٹ ہی بیچ رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس سچ بتانے کو کچھ ہے ہی نہیں اور سچ کا سامنا کرنے سے بھی گھبراتے ہیں۔ ان کی تو خیر دکان خوب چل رہی ہے۔ جب تک پھر سے کوئی امپائر کی انگلی نہیں اٹھتی ان کو جھوٹ سے ہی کام چلانا پڑے گا۔ اصل دکھ ان کے نام نہاد حمایتیوں پر ہے جو اس جھوٹ کو مسلسل سن رہے ہیں، برداشت کر رہے ہیں اور اس پر یقین بھی کر رہے ہیں۔ احتساب اور انصاف کے دعوے کرنے والے سے کوئی بھی نہیں پوچھ سکتا کہ جناب اپنا بھی کوئی حساب دیں یا صرف شب و روز جھوٹ پر ہی گزارا کرنا ہے۔

یہ آدمی سمجھتا تھا کہ اس کے حکومت میں آنے سے حضرت سلیمانؑ کے دور کی طرح جنات اس کے روبرو حاضر ہو کر ساری خدمات بجا لانا شروع کر دیں گے۔ ویسے تو انہوں نے جنات کو قید کرنے کے لیے شادی بھی کی تھی مگر وہ جنات ان کے بجائے فرح گوگی اور جمیل گجر کے زیادہ کام آ گئے۔ جنات سے مایوس ہونے کے بعد ان کو خلائی مخلوق نے بھی نااہل اور احسان فراموش قرار دے کر چلتا کیا۔ اس کے بعد وہی ہوا جیسا وہ کہا کرتے تھے کہ میں حکومت سے نکالے جانے کے بعد اور خطرناک ہو جاؤں گا۔ یہ بات بالکل درست تھی کہ ان کو پتہ تھا کہ وہ اس قدر جھوٹ بولیں گے کہ وہ اس ملک اور قوم کے لیے خطرناک ہو جائیں گے اور شاید یہ واحد سچ ہے جو انہوں نے پچھلے کچھ عرصے میں بولا ہو گا۔

جھوٹ کی موجودہ سیریز میں پہلا جھوٹ یہ تھا کہ مجھے نکالنے کے لیے امریکہ نے سازش کی اور جھوٹ پر مبنی خط عوام کے سامنے لہرایا گیا۔ اس کے بعد سب نے دیکھا کہ وہ جھوٹ آہستہ آہستہ اپنی مدت پوری کرنے کے بعد ختم ہو گیا۔ اس کے بعد ایک اور جھوٹ کی ضرورت تھی۔ پھر یہ جھوٹ بولا گیا کہ ان کے 'دیرینہ محسنوں' نے غداری کرتے ہوئے ان کی حکومت کا تختہ الٹا ہے۔ کہا گیا کہ باجوہ صاحب نے میر جعفر اور میر صادق کا کردارادا کرتے ہوئے پی ڈی ایم کے ساتھ مل کر ان کی حکومت کو ختم کیا ہے۔ یہ اس لیے جھوت تھا کہ بھئی حکومت آپ کی تھی مگر بقول ایاز امیر کے آپ نے حکومت پراپرٹی ڈیلروں کے حوالے کر دی، ایس ایچ او سے لے کر کمشنر تک کی تعیناتی کے لیے گوگی گینگ بولی لگاتا تھا۔ نیب نے انصاف اور احتساب کی دھجیاں اڑا دیں۔ مخالف سیاسی رہنماؤں پر روزانہ کی بنیاد پرجھوٹے مقدمات بنتے رہے۔ پنجاب میں بزدار کی ہومیوپیتھک وزارت اعلیٰ نے صوبے میں تاریخ کی بدترین ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ عوام سمیت آپ کی خلائی مخلوق بھی اس ظلم پر چیخی مگر آپ کو جنات نے کہا کہ آپ اچھے کپڑے پہن کر، عینک لگا کر اور ہاتھ میں تسبیح پکڑ کر بیٹھ جائیں کیونکہ آپ کا کام صرف ہینڈسم نظرآنا ہے باقی سب اچھا چل رہا ہے۔

اب پھر سے ایک نئے جھوٹ کی تلاش جاری تھی۔ اب نیا جھوٹ یہ بولا گیا کہ جناب نیب میرے کنٹرول میں نہیں تھی، اس کو تو اسٹیبلشمنٹ کنٹرول کرتی تھی۔ اچھا تو شہزاد اکبرکے اختیار میں نیب کو کس نے دیا تھا؟ آپ نے یا آپ کے جنات نے؟ اور وہ جو آپ صبح شام جلسوں میں سیاست دانوں کو دھمکیاں دیتے تھے اور ان کے اوپر جھوٹے مقدمات بنوا کر اور ان کو جیل بھجوا کر فخر کیا کرتے تھے اس سب کے کیا معنی تھے؟ یہ سب کچھ آپ کی ایما پر اور آپ کی انتقام پر مبنی بڑی پالیسی کے تحت ہوتا رہا مگر جب ذمہ داری لینے کی بات آئی تو سب کچھ خلائی مخلوق پہ ڈال دیا اور پھر اس جھوٹ کا منجن بیچنا شروع کر دیا۔ کتنے ہی سیاست دان اور صحافی اس وقت آنکھوں کے سامنے سے گزر رہے ہیں جو آپ کے ذاتی قہر کا نشانہ بنے۔ یوں لگتا ہے جو تھوڑی بہت کمی رہ گئی تھی وہ بھی شاید خلائی مخلوق والوں کی مہربانی تھی ورنہ آپ تو باجوہ صاحب سے کہتے تھے ان سب کو مقدمات میں اندر کریں اور اس کے بدلے چاہے عمر بھر کے لیے آرمی چیف بن جائیں۔

اس سارے ڈرامے کے درمیان بھی بے تحاشا جھوٹ بولے گئے جیسے کہ اپنے قتل کے فوج کی اعلیٰ قیادت پر بغیر کسی ثبوت کے بھونڈے الزامات لگانا اور پھر اپنے میڈیکولیگل سرٹیفکیٹ سے لے کر اپنے زخموں کی ویڈیوز جاری کرنا جیسے جھوٹ شامل ہیں۔ مگر ان کے تازہ جھوٹ میں ایک نیا رخ دیکھنے کو ملا ہے۔ ان کو جب کسی سے سیاسی خوف محسوس ہو اور اپنا مفاد خطرے میں نظر آئے تو فوراً اس پہ سنگین الزام لگا دیتے ہیں۔ انہوں نے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی پہ الزام لگایا ہے کہ ان کی حکومت کے خلاف سازش کرنے والوں میں ایک بہت بڑا کردار محسن نقوی کا بھی ہے۔ عمران خان کی حکومت جانے کے بعد سے محسن نقوی کے نگران وزیر اعلیٰ بننے تک کسی نے آج تک عمران خان یا ان کی پارٹی کے کسی رہنما سے کبھی محسن نقوی کا نام تک نہیں سنا لیکن جیسے ہی وہ نگران وزیر اعلیٰ بنے ہیں عمران خان نے ان کو بھی اپنے جھوٹ کے دائرہ کار میں شامل کر لیا ہے۔

اپنی تازہ ترین فہرست میں محسن نقوی کے بعد ان کے جھوٹ کا اگلا نشانہ آصف علی زرداری تھے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ آصف علی زرداری ان کو قتل کرنے کی سازش میں شامل تھے اور اب انہوں نے ایک غیر ملکی دہشت گرد تنظیم کو مجھے مارنے کے لیے پیسے دیے ہیں۔ اس طرح کے جھوٹ بولنے کا مقصد ملک میں خون ریزی اور قتل و غارت کو دعوت دینا ہے اور اس کے ساتھ جو ملک کو سیاسی بحران سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں ان پر دباؤ بڑھانا مقصود ہے۔ ان جھوٹوں کا ایک اور خطرناک مقصد ہو سکتا ہے کہ اپنے حامی اور ہمدرد دہشت گردوں کو پیغام بھجوایا جائے کہ ان کو نشانہ بناؤ جنہوں نے 2013 کے الیکشن میں پیپلزپارٹی کو الیکشن کی مہم چلانے سے روک دیا تھا۔

یہ جھوٹ کا ایک تسلسل ہے جس کو عمران خان نے اپنی سیاست کا محور بنا کر اپنے سامعین کو مصروف رکھا ہوا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ وہ ان کو مصروف رکھ کر ان کی سوچوں پر تالے لگا کر کسی طرح الیکشن کے دنگل میں اتر جائیں اور ان کو اس بات کا شدید ڈر ہے کہ ان کے چاہنے والوں کی سوچ کہیں ادھر سے ادھر نہ ہو جائے۔ جو بھی سیاسی پیش رفت ہوتی ہے اس کے جواب میں عمران خان عدالت لگا کر بیٹھ جاتے ہیں اور اس عدالت میں سچ کے سوا سب کچھ ہوتا ہے۔ آخر کب تک اس مسلسل جھوٹ کے سہارے وہ سیاست کرتے رہیں گے اور اپنے سامعین کی معصومیت سے کھیلتے رہیں گے۔ جھوٹ اس قدر طاقتور ہے کہ وہ اتنی تیزی سے پھیلتا ہے اور اس پر مسلسل یقین کیا جا رہا ہے۔ جھوٹ کے اس دور میں اب سچ کو بھی کچھ صاحب اولاد ہونا چاہئیے۔ موقع کی مناسبت سے اپنا ایک شعر حاضر ہے؛

؎ روز کوئی جھوٹ کی صدا دیتا ہے
روز کوئی سچ بنا دیتا ہے اسے

عاصم علی انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے University of Leicester, England سے ایم فل کر رکھا ہے اور اب یونیورسٹی کی سطح پہ یہی مضمون پڑھا رہے ہیں۔