• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
جمعرات, مارچ 23, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

تقسیم کے شکار پاکستان کے لئے پیپلز پارٹی ناگزیر ہو چکی ہے

موجودہ دور میں یہ بات مضحکہ خیز حد تک عجیب لگ سکتی ہے مگر پاکستان کی سیاسی اور معاشرتی حقیقتوں کو دیکھتے ہوئے نظر آتا ہے کہ ایک نظریہ ایسا ہے جو پاکستان کو موجودہ معاشرتی انحطاط اور سیاسی تقسیم سے نکال سکتا ہے۔ یہ ںطریہ پاکستان پیپلز پارٹی کا نظریہ ہے جو کراچی سے لے کر مالاکنڈ تک ہر طبقے کے افراد کو پاکستان کے قومی رنگ میں ڈھال دیتا ہے۔

عاصم علی by عاصم علی
جنوری 31, 2023
in تجزیہ
20 0
0
تقسیم کے شکار پاکستان کے لئے پیپلز پارٹی ناگزیر ہو چکی ہے
24
SHARES
113
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

پاکستان کی قومی اور سیاسی تاریخ میں 1971 کا سال انتہائی افسوس ناک ہونے کے ساتھ ساتھ کئی حوالوں سے خاصا سبق آموز بھی ہے۔ جب کبھی پاکستان کی ریاست سیدھے راستے سے بھٹکنے لگے تو اس کو 1971 کو یاد کر کے اپنی سمت کو درست کر لینا چاہئیے۔ 1971 میں پاکستان کا معاشرہ صوبائی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم ہو چکا تھا۔ ملک کا ایک حصہ الگ ہو چکا تھا۔ 90 ہزار سے زیادہ پاکستانی فوجی دشمن کی قید میں تھے۔ عوام اور فوج میں انتہا درجے کی مایوسی پیدا ہو چکی تھی۔ دشمن ملک مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کے بعد اب مغربی پاکستان کو بھی توڑنے کے عزائم رکھتا تھا۔ ملک کے پاس سیاسی قیادت کا فقدان تھا۔ ریاست کے امور کو چلانے کے لیے آئین ہی موجود نہیں تھا۔ شہریوں کے پاس شناختی کارڈ اور پاسپورٹ نہیں تھا اور سب سے بڑھ کر قوم میں جینے اور آگے بڑھنے کی امید دم توڑ چکی تھی۔

اس تاریک دور میں ایک آواز اٹھی جس کی گونج ریاست پاکستان کے کونے کونے میں سنائی دی۔ وہ آواز امید، ترقی اور خوشحالی کی آواز تھی جس نے ہر مایوس روح کے اندر زندگی کی شمع روشن کر دی۔ یہ آواز قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی تھی جنہوں نے شکست خوردہ اور تقسیم شدہ قوم کو باور کروایا کہ وہ پھر سے اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکتی ہے۔ تاریخ نے یہ ثابت کیا کہ پاکستان ایک مرتبہ پھر سے ترقی اور یکجہتی کے راستے پر گامزن ہوا اور چند ہی سالوں میں تیسری دنیا کے رہنما ملک کے طور پر اپنے آپ کو منوانے میں کامیاب ہو گیا۔

RelatedPosts

‘عمران خان کے کارناموں کی وجہ سے پی ٹی آئی کو کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے’

پختون سرزمین کو میدان جنگ بنانے والے لاہور میں صوفی محمد کے ایک ساتھی کی موجودگی پر گھبرا گئے

Load More

آج پاکستان پھر سے شدید اندرونی تقسیم کا شکار ہو چکا ہے۔ صوبائی تعصب انتہائی حدوں کو چھو رہا ہے۔ برادریوں کی سیاست نے قومی یکجہتی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ مذہبی انتہاپسندی معاشرتی امن کو تباہ کر رہی ہے۔ نوجوان نسل پاپولسٹ اور بناوٹی سیاست کے جذباتی ریلے میں بہہ کر بے راہ روی کا شکار ہو چکی ہے۔ ملک کی مٹھی بھر اشرافیہ ریاست کے اکثریتی وسائل پر قابض ہے۔ نوجوان بے روزگار ہیں اور مستقبل کی فکر انہیں کھائے جا رہی ہے۔ کسان اور مزدور پھر سے پریشان حال ہیں اور ملکی معیشت کا یہ عالم ہے کہ پاکستان چند ڈالروں کے حصول کے لئے کشکول لے کر در در کی ڈھوکریں کھانے پر مجبور ہو چکا ہے۔

موجودہ دور میں پاکستان پھر سے اپنی منزل کا نشان کھو چکا ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے مولانا ابوالکلام آزاد کی برسوں پہلے والی بات سچ دکھائی دے رہی ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ پاکستان کا نوجوان اس ریاست کے وجود پہ آواز اٹھانے لگ جائے گا۔ 1971 میں بھی ایسی ہی صورت حال تھی۔ مشرقی پاکستان کے الگ ہونے پر یہی سوچ تھی کہ دو قومی نظریے کا خاتمہ ہو گیا ہے جس کی بنیاد پر پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا۔ مگر اس وقت بھٹو صاحب جیسے قومی رہنما نے پاکستانی قوم کو یکجہتی، خوشحالی اور ترقی کے راستے پر ڈال کر ان مفروضوں کو دفن کر دیا۔

پاکستان کے معاشرتی پیرائے میں ایک نکتہ بڑا اہم ہے کہ اس ملک میں کئی مذاہب، فرقوں، رنگوں، قوموں اور زبانوں والے افراد بستے ہیں۔ اس لیے پاکستان کے معاشرے کو ایسے سیاسی نظام کی ضرورت ہے جو اتنی وسعت رکھتا ہو کہ معاشرے کی تمام اکائیوں کو اپنے اندر اس انداز سے سمو سکے کہ اس کے بعد شیعہ، سنی، پنجابی، پٹھان، بلوچی، سندھی، ہندو اور مسلمان کی کوئی تفریق نہ رہے۔ بلاشبہ یہ خوبی ریاست کی بنیادی تعریف میں بھی شامل ہے کہ ریاست کے اندر ہر فرد رنگ و نسل سے بالاتر ہو کر ریاست کے لیے یکساں اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ موجودہ حالات میں بدقسمتی سے اس مساواتی تصور کی عملی تصویر بنتی نظر نہیں آ رہی۔ ریاست کی ہر اکائی الگ الگ راستے پر گامزن ہے۔ ریاست کی اجتماعی فکری سوچ معدوم ہو چکی ہے۔ کوئی بھی ریاست اس قدر تقسیم کے ساتھ زیادہ دیر تک اپنے وجود کو برقرار نہیں رکھ سکتی۔

موجودہ دور میں یہ بات مضحکہ خیز حد تک عجیب لگ سکتی ہے مگر پاکستان کی سیاسی اور معاشرتی حقیقتوں کو دیکھتے ہوئے نظر آتا ہے کہ ایک نظریہ ایسا ہے جو پاکستان کو موجودہ معاشرتی انحطاط اور سیاسی تقسیم سے نکال سکتا ہے۔ یہ ںطریہ پاکستان پیپلز پارٹی کا نظریہ ہے جو کراچی سے لے کر مالاکنڈ تک ہر طبقے کے افراد کو پاکستان کے قومی رنگ میں ڈھال دیتا ہے۔

پاکستان میں موجودہ دور میں مذہب کو بہت خطرناک طریقے سے سیاست میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ فرقہ پرستی اور انتہا پسندی نے سیاست کا چہرہ بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔ کوئی سیاسی جماعت طالبان کو خاص صوبوں میں حملے نہ کرنے کا کہتی ہے تو کوئی سیاسی جماعت طالبان کی ہر فورم پر وکالت کرتی نظر آتی ہے۔ پاکستان کے نوجوان کو یہ دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایک سیاسی جماعت ایسی ہے جس نے کبھی مذہب، انتہا پسندی اور فرقہ پرستی کی سیاست نہیں کی اور نہ ہی کبھی اس نے سیاست میں آڈیو ویڈیو جیسے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے ہیں۔ یہ جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے جو انتہا پسندی کے نظریے کے صرف خلاف ہی نہیں بلکہ عرصہ دراز سے اس کے سامنے سینہ سپر ہو کر قربانیاں بھی دے رہی ہے۔

شہید محترمہ بے نظیر بھٹو انتہا پسندی کے خلاف جنگ کرتے ہوئے شہید ہوئیں۔ آج پاکستان میں طالبان مختلف شکلوں میں ہمارے فوجی جوانوں، پولیس اہلکاروں اور عام شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان خدشات کا اظہار بی بی شہید نے دنیا کے ہر فورم پر کیا تھا۔ ان کو اس بات کا ادراک تھا کہ یہ اتنہا پسند طاقتیں ان کی جان لینے کے درپے ہیں مگر وہ اس کے باوجود پاکستان آئیں، سانحہ کارساز میں بال بال بچ جانے اور سینکڑوں کارکنوں کے قربان ہو جانے کے باوجود وہ اپنے مشن پر ڈٹی رہیں۔ دوسری سیاسی پارٹیوں کے رہنما جیل کے مچھروں کے ڈر سے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر لیتے ہیں اور بعض گولیوں کے چند خول ہی لگنے سے ملک اور قوم کے لیے بڑی قربانیاں دینے کا واویلا اور ڈرامہ شروع کر دیتے ہیں۔ انتہاپسندی کے خلاف جنگ پاکستان پیپلز پارٹی کے نظریے کا تسلسل ہے۔ اسی لیے بلاول بھٹو بے خوف و خطر اپنی ماں کے علم کو تھامے طالبان اور انتہا پسندوں کے ساتھ برسرپیکار ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی بلکہ یوں کہنا چاہئیے کہ ریاست پاکستان کے خلاف غیر جمہوری طاقتوں نے ہمیشہ سے اپنے سیاسی بونے لانچ کیے۔ ان کو طاقت اور پیسہ دے کر ان کی آبیاری کی۔ ہر طرح سے پاکستان پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کی کوشش کی گئی۔ اس کی قیادت کو کبھی طالبان نما جرنیل کے ہاتھوں تختہ دار پر چڑھا دیا گیا تو کبھی ‘طالبان سوچ’ نے طالبان کے ہاتھوں لیاقت باغ میں پاکستان کی قسمت کو ابدی نیند سلا دیا۔ کربلا کے فاتح نے کہا تھا کہ اگر تمہیں حق کی پہچان میں مشکل پیش آ رہی ہو تو باطل کے تیروں کو دیکھو، وہ جہاں لگ رہے ہوں وہاں حق ہے۔ یہ منظر پاکستان کے عوام اور اقوام عالم نے بھی دیکھا ہے کہ پیپلز پارٹی کے مقابلے میں کبھی تاجر، کبھی مولوی اور کبھی کھلاڑی کو سیاسی نما بنا کر کھڑا کیا گیا مگر اس کا تنیجہ کیا نکلا، ملک معاشی بدحالی، سیاسی ابتری اور مذہبی انتہاپسندی کا شکار ہو چکا ہے۔

پاکستان پھر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر قومی یکجہتی اور ریاستی منزل کھو چکا ہے۔ ان حالات میں ایک نظریہ اور پارٹی جو پاکستان کو پھر سے یکجا کر سکتی ہے وہ بلاشبہ پاکستان پیپلز پارٹی ہے۔ سوشل میڈیا کی مصنوعی چمک سے چندھیائے اور تاریخی سیاق و سباق سے عاری معلومات کے گرداب میں پھنسے پاکستان کے نوجوان کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ریاست پاکستان کے وجود اور اس کی بقا کے لیے کبھی پاکستان پیپلز پارٹی ضروری تھی مگر آج ناگزیر بن چکی ہے۔

Tags: بلاول بھٹو زرداریبنگلہ دیش کا قیامپاکستان پیپلز پارٹیپاکستان تحریک انصافپاکستان مسلم لیگ نعمران خانفوجی اسٹیبلشمنٹمحترمہ بینظیر بھٹو شہیدمیاں نواز شریف
Previous Post

‘پاک فوج عمران خان کے حکم کے بغیر ابھینندن کا طیارہ نہیں گرا سکتی تھی’

Next Post

‘تمام فوجی اداروں کے اکاؤنٹس سنگل نینشل اکاؤنٹ میں شامل کرنا ناگزیر ہو چکا’

عاصم علی

عاصم علی

عاصم علی انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے University of Leicester, England سے ایم فل کر رکھا ہے اور اب یونیورسٹی کی سطح پہ یہی مضمون پڑھا رہے ہیں۔

Related Posts

پختون سرزمین کو میدان جنگ بنانے والے لاہور میں صوفی محمد کے ایک ساتھی کی موجودگی پر گھبرا گئے

پختون سرزمین کو میدان جنگ بنانے والے لاہور میں صوفی محمد کے ایک ساتھی کی موجودگی پر گھبرا گئے

by طالعمند خان
مارچ 20, 2023
0

اگر لڑ نہیں سکتے تو لڑائی مول کیوں لیتے ہو؟ آج کل پنجابی اسٹیبلیشمنٹ اور اس کے سویلین اشرافیہ کے دو دھڑوں...

پاکستانی تارکین وطن عمران خان کو مسیحا مانتے ہیں

پاکستانی تارکین وطن عمران خان کو مسیحا مانتے ہیں

by ارسلان ملک
مارچ 21, 2023
0

حالیہ مہینوں میں میں نے امریکہ میں اپنے ہم وطن پاکستانیوں کے ساتھ پاکستانی سیاست اور معیشت سے جڑی غیر یقینی صورت...

Load More
Next Post
‘تمام فوجی اداروں کے اکاؤنٹس سنگل نینشل اکاؤنٹ میں شامل کرنا ناگزیر ہو چکا’

'تمام فوجی اداروں کے اکاؤنٹس سنگل نینشل اکاؤنٹ میں شامل کرنا ناگزیر ہو چکا'

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

by شاہد میتلا
مارچ 22, 2023
1

...

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

by ہارون خواجہ
مارچ 18, 2023
1

...

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

by رضا رومی
مارچ 20, 2023
0

...

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

by مزمل سہروردی
مارچ 15, 2023
0

...

جنرل فیض حمید

نواز شریف کو نکالنے کے ‘پروجیکٹ’ میں باجوہ اور فیض کے علاوہ بھی جرنیل شامل تھے، اسد طور نے نام بتا دیے

by نیا دور
مارچ 14, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In