• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
جمعرات, مارچ 23, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

2023 کے عام انتخابات بڑی طاقتوں کے لئے فیصلہ کن ہوں گے

اسٹیبلشمنٹ کو پہلی مرتبہ ایسی صورت حال درپیش ہے جہاں معیشت کی مسلسل بگڑتی حالت کے پیش نظر اب وہ محض اقتدار کے مزے لوٹنے کے بجائے پورے ملک کے لیے سوچنے پر مجبور ہو چکی ہے۔ اسے احساس ہو گیا ہے کہ سکڑتی ہوئی معیشت کے باعث اسے دنیا کی طاقتور ریاستوں کے تابع رہ کر ان کے مطالبات کو ماننا ہوگا۔

بیرسٹر اویس بابر by بیرسٹر اویس بابر
فروری 1, 2023
in تجزیہ
20 1
0
2023 کے عام انتخابات بڑی طاقتوں کے لئے فیصلہ کن ہوں گے
24
SHARES
114
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

موجودہ ملکی منظرنامے میں تین سٹیک ہولڈرز اہم ترین ہیں؛ پی ٹی آئی، مسلم لیگ ن اور اسٹیبلشمنٹ۔ ان میں سے جو بھی 2023 کے انتخابات میں زیادہ سے زیادہ طاقت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا، باقی فریقین کے مقابلے میں وہی لمبے عرصے تک طاقت ور رہے گا کیونکہ یہ محض انتخابات ہی نہیں ہوں گے بلکہ پاکستان کی مستقبل کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوں گے، معرکہ خیر و شر کی مانند۔ پیپلزپارٹی، جمعیت علمائے اسلام، متحدہ قومی موومنٹ، پاکستان مسلم لیگ ق اور جماعت اسلامی جیسے چھوٹے حصے دار کبھی کبھار عیش و آرام حاصل کرنے والے پیادوں کی صورت اس وقت جہاں ہیں، آئندہ بھی ان کے یہیں رہنے کا امکان ہے۔

عمران خان اور نواز شریف دونوں اپنی زندگی کے آخری دور اقتدار کی تیاری کر رہے ہیں کیونکہ امکان ہے کہ اس کے بعد دونوں وہاں پہنچ چکے ہوں گے جہاں اس وقت جنرل مشرف ہیں یعنی 2028 تک جسمانی توانائیاں کھو چکے ہوں گے۔ اسٹیبلشمنٹ بھی بہت سالوں سے طاقت پر قابض ہے اور اس نے ساری طاقت اپنے پاس جمع کر رکھی ہے۔ پہلی مرتبہ اسے ایک ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جہاں معیشت کی مسلسل بگڑتی حالت کے پیش نظر اب وہ محض اقتدار کے مزے لوٹنے کے بجائے پورے ملک کے لیے سوچنے پر مجبور ہو چکی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اسے اب احساس ہو گیا ہے کہ سکڑتی ہوئی معیشت کے باعث اسے دنیا کی طاقتور ریاستوں کے تابع رہ کر ان کے مطالبات کو ماننا ہوگا۔ نتیجے کے طور پر ملک کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی اپنی طاقت بھی سکڑ کر رہ جائے گی۔

RelatedPosts

‘عمران خان کے کارناموں کی وجہ سے پی ٹی آئی کو کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے’

پاکستانی تارکین وطن عمران خان کو مسیحا مانتے ہیں

Load More

ایک جانب تو اسٹیبلشمنٹ اس وقت تحریک طالبان، تحریک لبیک، افغان طالبان، داعش، چین اور امریکہ کے بڑھتے اثرورسوخ اور امریکہ کے افغانستان سے انخلا کے بعد کے حالات سے معاملہ کرنے والے دوستوں اور دشمنوں کے ملے جلے گروہ میں گھری کھڑی ہے۔ دوسری جانب سوشل میڈیا کی مقبولیت کے باعث جو بطور آلہ چوکیدار سے لے کر وزیر اعظم تک ہر شخص کے استعمال میں ہے، اسٹیبلشمنٹ کو ان پریشر گروپس سے بھی نمٹنا ہوگا جو ان کی اپنی پالیسیوں کے غیر ارادی نتائج کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ سب سے زیادہ قابل ذکر غیر ارادی نتائج پشتون تحفظ موومنٹ اور آرمی پبلک سکول واقعے میں زندہ بچ جانے والے دہشت گرد ہیں۔ ان چیلنجز میں ملک میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت کے باعث سول سوسائٹی میں پیدا ہونے والے غم و غصے میں اضافہ بھی شامل ہے۔ علی وزیر کو جیل میں ڈالے رکھنا آسان ہے لیکن وہ لوگ جو مظلوم علی وزیر کے ساتھ خود کو جوڑ کے شناخت کرتے ہیں، ان میں بڑھتی ہوئی ناراضگی جیسے غیر متوقع نتائج بھی مستقبل میں برآمد ہو سکتے ہیں۔ تحریک لبیک کے کارکنوں کی جانب سے اس وقت سامنے آنے والی شدید مزاحمت جب ان کا لیڈر جیل میں تھا اور حکومت کی جانب سے ایک کے بعد ایک معاہدے کی صورت میں ان کے سامنے ہتھیار ڈالتے جانا اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے۔

ہر سٹیک ہولڈر کے پاس اپنے مخصوص کارڈ ہیں اور اگرچہ بہت مؤثر انداز میں یہ نہیں کھیلے جا رہے تاہم ہر کوئی ان کو بھرپور طریقے سے کھیل رہا ہے۔ اس لیے ان میں سے کوئی بھی سیاست کے میدان کو بغیر لڑائی کیے چھوڑنے کو تیار نہیں ہوگا۔ ابھی حال ہی میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بہت سارے بلوں کی منظوری دے کر اور الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے لیے راہ ہموار کر کے پی ٹی آئی نے اپنا ایک کارڈ دلکش انداز میں کھیلا ہے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں اپوزیشن بہت کمزور دکھائی دے رہی ہے۔ اگرچہ ای وی ایم مشینوں اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو انتخابی عمل میں شامل کرنے کو پی ٹی آئی 2023 کے انتخابات میں اپنی جیت کو یقینی بنانے کے لیے ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھ رہی ہے لیکن اس تبدیلی سے کسی اور کو زیادہ فائدہ پہنچنے کا احتمال ہے اور اس احتمال کا اشارہ آصف علی زرداری اپنی ایک تقریر میں کر چکے ہیں۔ عمران خان کو بھی اس امکان کی خبر ہے لیکن جیسے کہ وہ خود کہتے ہیں کہ وہ ایک کھلاڑی ہیں اور ہر طرح کے نتائج کے لیے تیار رہتے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جو عمران خان کو آصف زرداری اور نواز شریف دونوں سے الگ کرتی ہے کہ یہ سب کچھ عمران خان کے لیے محض ایک کھیل ہے۔ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ انہیں کیا چاہئیے اور اسے حاصل کرنے کے ہر جائز ناجائز طریقے کا بھی انہیں علم ہے۔ وہ اسے حاصل کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں چاہے اس کے نتائج کچھ بھی ہوں۔ ان کی ذات کا یہی پہلو اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن کو ہر دم چوکنا رہنے پہ مجبور کرتا ہے۔

اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مزاحمت شروع کر کے نواز شریف اپنے کچھ پتے کھیل چکے ہیں مگر آخری کارڈ ابھی ان کے ہاتھ میں ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ عمران خان اپنے تمام تجربات میں ناکام ہو چکے ہیں اور ان تمام تر ناکامیوں کے بعد ملک کو دوبارہ معمول پر لانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اس کے ساتھ ساتھ عمران خان کے پاس قیادت کا بہت محدود تجربہ ہے اور فی الوقت ان کا مکمل انحصار اسٹیبلشمنٹ کو بلیک میل کرنے پر ہے۔ یہاں تک کہ ڈی جی آئی ایس آئی جیسے اہم عہدے کے نوٹیفکیشن میں تاخیر کرکے عمران خان اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو ناراض کر چھوڑا ہے۔

اس وقت پاکستان مسلم لیگ ن کرکٹ میچ کی ایک ایسی ٹیم کی طرح محض وقت پورا کر رہی ہے جسے تقریباً یقین ہو چکا ہوتا ہے کہ اس کے مخالف کے پاس ہدف حاصل کرنے کے لیے بہت کم گیندیں باقی رہ گئی ہیں۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ ایمان دار دشمن جعلی دوست سے بہتر ہوتا ہے۔ نواز شریف اس پہلو سے بھی واقف ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے اقتدار کو پھر سے پی ٹی آئی اور پی پی پی کے حوالے کرنے پہ راضی ہونے کے امکان بہت کم ہیں کیونکہ یہ دونوں جماعتیں اپنے حالیہ ادوار میں مسلم لیگ ن کے مقابلے میں ملک چلانے میں بری طرح ناکام رہی ہیں جس سے آخر کار اسٹیبلشمنٹ کو خود بھی اپنے انتخاب کی وجہ سے ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

اسٹیبلشمنٹ نے بھی ابھی پوری طرح اپنے پتے کھیلنے ہیں کیونکہ اس وقت وہ حکومت اور اپوزیشن دونوں سے رابطے میں ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے خود پر کھلی تنقید کے باوجود اسٹیبلشمنٹ فی الوقت نہ اپوزیشن کے لئے بدترین دشمن کا کردار ادا کر رہی ہے اور نہ ہی حکومت کی بہت اچھی دوست نظر آ رہی ہے۔ اپوزیشن کے ساتھ دشمنی پالتے رہنے کی پالیسی اسے اندھیری گلی میں لے جا سکتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بہت پھونک پھونک کر قدم بڑھا رہی ہے۔ پی ٹی آئی کی سراسر ناکامی کی وجہ سے ملک چلانے میں اسٹیبلشمنٹ کے گہرے کردار کا کھلے عام سامنے آ جانا اور اس حقیقت کا انکشاف ہو جانا کہ حکمران جماعتوں کا مجموعی طور پر ملک کے نظم و نسق چلانے میں کردار بہت کم ہے، اسٹیبلشمنٹ کے حالیہ محتاط رویے کی وجوہات ہیں۔ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی طرح پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ بھی نہیں چاہتی کہ پاکستان کے عوام یہ سوچیں کہ ملک میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کے ذمہ دار وہی ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس سب کے ذمہ دار وہی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ جس سر پہ تاج دھرا ہوتا ہے، سارا بوجھ اسی کو اٹھانا پڑتا ہے اور دن بہ دن یہ بوجھ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔

اس سارے کھیل کا ممکنہ نتیجہ یا تو پاکستان کی تباہی کی صورت میں نکلے گا یا پھر اس کا نتیجہ شان دار ہو گا کہ اختیارات کی نئے سرے سے ترتیب اور تقسیم سے ترقی پسند پاکستان بنانے کی راہ ہموار ہو گی۔ ایسا بالکل نہیں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے توقع باندھی جائے کہ وہ اپنی ساری طاقت چھوڑ کر سب کچھ سیاست دانوں کے حوالے کر دے گی مگر ہمیں طاقت کی ازسرنو تقسیم اور تفویض کی اشد ضرورت ہے۔ ایک دم سے تمام اختیارات سیاست دانوں کے حوالے کر دینے کے بھی پاکستان پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ ہمارے وزرائے اعظم جیسنڈا آرڈن اور جسٹن ٹروڈو تو ہیں نہیں بلکہ وہ بھی اپنے آپ میں ایک اسٹیبلشمنٹ ہیں۔ اسی وجہ سے بہت مشکل لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ مستقل طور پر اپنی طاقت کم کر دے گی۔

ہم عوام کو ایسا پاکستان چاہئیے جو رہنے کے قابل ہو۔ بصورت دیگر ہم ایک کے بعد ایک تباہی کا شکار ہوتے رہیں گے جس میں معیشت کی زبوں حالی، خودکش دھماکے، قومی کرکٹ ٹیم کی تباہی، بلوچستان اور مجموعی طور پر پاکستان میں اقلیتوں کی نسل کشی جیسے واقعات کا جاری رہنا شامل ہیں۔ تصور کریں کہ روزمرہ کے واقعات کی صورت میں ہم دنیا کو اپنے بارے میں کس طرح کا تاثر دے رہے ہیں۔ اس سب کے بعد پاکستان کو پرامن ملک دکھانے کی تمام تر کوششیں رائیگاں چلی جاتی ہیں تو حیرت کس بات کی ہے۔ ایسی صورت میں کون سا غیر ملکی پاکستان آنے کا خطرہ مول لے گا جب وہ ایک ہجوم کو پولیس اہلکاروں کو جان سے مارتے ہوئے دیکھتا ہے اور یہ بھی دیکھتا ہے کہ ریاست اس ہجوم کے سامنے ہتھیار ڈال رہی ہے اور ایک ثانیے میں تمام مجرموں کو معاف کر دیتی ہے؟ اور یہ سب کچھ ہو بھی حضورﷺ کے نام پر رہا ہے! اس سے بڑی توہین رسالت اور کیا ہو سکتی ہے؟

2023 میں پیش آنے والے فیصلہ کن معرکے سے قبل اسٹیبلشمنٹ کو اپنی حیثیت پر نظرثانی کرنی چاہئیے اور اختیارات کو اس طرح سے دوبارہ ترتیب دینا چاہئیے کہ انتظامیہ میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے بغیر بہترین صلاحیت رکھنے والے لوگ شامل ہو سکیں۔ ملک میں ایک ایسی صورت حال پیدا ہونی چاہئیے جہاں جج کسی سیاسی جماعت کی جانب سے جسمانی تشدد کے خوف سے بالاتر ہو کر اور بااثر اداروں کے دباؤ میں آئے بغیر آزادانہ طور پر اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہوں، جہاں پولیس مجرموں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے لئے بااختیار ہو نہ کہ مجرموں کے ہاتھوں سڑکوں پر ہلاک ہو جانے کے خوف سے دوچار رہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کو اپنے مفاد اور سہولت کو مدنظر رکھے بغیر اور کسی سے دوستی نبھائے بغیر سیاست دانوں کے جائز اختیارات ان کے حوالے کر دینے چاہئیں۔ لب لباب یہ ہے کہ ایک ایسا پاکستان تشکیل پا جائے جو رہنے کے قابل ہو۔

اگر اسٹیبلشمنٹ مسلسل پاکستان کے اجتماعی تشخص کو نظر انداز کرتے ہوئے دنیا کے سامنے محض خود کو بہترین سکیورٹی ایجنسی کے طور پر پروموٹ کرتی رہی تو پھر پاکستان کا اللہ ہی حافظ ہے۔ ملک میں تحریک طالبان پاکستان، تحریک لبیک، پشتون تحفظ موومنٹ اور تحریک انصاف جیسے گروہ بدستور ابھرتے رہیں گے اور اسٹیبلشمنٹ کے پاس اپنی عملداری قائم کرنے کے لیے نہ ہی عوام بچیں گے اور نہ کچھ اور۔


بیرسٹر اویس بابر کا یہ تجزیہ The Friday Times میں شائع ہوا تھا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کر کے پیش کیا جا رہا ہے۔

Tags: 2023 کے عام انتخاباتپاکستان پیپلز پارٹیپاکستان تحریک انصافپاکستان مسلم لیگ (ق)پاکستان مسلم لیگ نپی ڈی ایمجماعت اسلامیجمعیت علمائے اسلام (ف)عام انتخاباتمتحدہ قومی موومنٹملکی اسٹیبلشمنٹ
Previous Post

جنوری میں دہشت گردی میں شہید ہونے والوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ: پکس رپورٹ

Next Post

پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کی ضمانت منظور

بیرسٹر اویس بابر

بیرسٹر اویس بابر

Related Posts

پختون سرزمین کو میدان جنگ بنانے والے لاہور میں صوفی محمد کے ایک ساتھی کی موجودگی پر گھبرا گئے

پختون سرزمین کو میدان جنگ بنانے والے لاہور میں صوفی محمد کے ایک ساتھی کی موجودگی پر گھبرا گئے

by طالعمند خان
مارچ 20, 2023
0

اگر لڑ نہیں سکتے تو لڑائی مول کیوں لیتے ہو؟ آج کل پنجابی اسٹیبلیشمنٹ اور اس کے سویلین اشرافیہ کے دو دھڑوں...

پاکستانی تارکین وطن عمران خان کو مسیحا مانتے ہیں

پاکستانی تارکین وطن عمران خان کو مسیحا مانتے ہیں

by ارسلان ملک
مارچ 21, 2023
0

حالیہ مہینوں میں میں نے امریکہ میں اپنے ہم وطن پاکستانیوں کے ساتھ پاکستانی سیاست اور معیشت سے جڑی غیر یقینی صورت...

Load More
Next Post
پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کی ضمانت منظور

پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کی ضمانت منظور

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

by شاہد میتلا
مارچ 22, 2023
1

...

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

by ہارون خواجہ
مارچ 18, 2023
1

...

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

by رضا رومی
مارچ 20, 2023
0

...

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

by مزمل سہروردی
مارچ 15, 2023
0

...

جنرل فیض حمید

نواز شریف کو نکالنے کے ‘پروجیکٹ’ میں باجوہ اور فیض کے علاوہ بھی جرنیل شامل تھے، اسد طور نے نام بتا دیے

by نیا دور
مارچ 14, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In