پاکستان کی تاریخ مشرف کو اچھے لفظوں میں کبھی یاد نہیں رکھے گی

پاکستان کی تاریخ مشرف کو اچھے لفظوں میں کبھی یاد نہیں رکھے گی
12 مئی 2007 کا دن پاکستان کی تاریخ کا ایک اور سانحہ ڈھاکہ ہے جس دن ایک اور آمر نے اپنی جھوٹی انا، رعونت اور طاقت کے زعم کی وجہ سے روشنیوں کے شہر کراچی کو خون میں نہلا دیا تھا۔ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کی عدلیہ بحالی تحریک کی کراچی میں ہونے والی ریلی کو اس وقت کے آمر پرویز مشرف کے غنڈوں نے طاقت کے زور پر روکنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں 45 افراد کی جان گئی اور کئی افراد زخمی ہوئے۔ اسی شام کو پاکستان کے آئین اور قانون کی دھجیاں اڑانے والا آمر اسلام آباد میں ایک تقریب کے دوران مکا لہر کر اپنی فرعونیت کا اعلان کر رہا تھا۔ اس ستم گر کا لاشوں پر مکا لہرانا پاکستان کے آئین، قانون اور ریاست کے چہرے پر لگا ایسا بدنما داغ ہے جو ہمیشہ نظر آتا رہے گا۔

کچھ لوگوں کا دولت سے پیٹ بھرتا ہے، کچھ کا خوراک سے، کچھ کا ہوس سے، کچھ کا طاقت سے مگر چند ایسے بھی انسان نما پائے جاتے ہیں جن کا پیٹ لاشوں اور خون سے بھرتا ہے۔ پاکستان کا چوتھا آمر پرویز مشرف آخری قسم کے لوگوں میں سے تھا۔ کارگل کے دلیر اور جری مجاہدوں کے خون سے پیاس بجھنے کے بجائے اس کی تشنہ لبی میں اتنا اضافہ ہوا کہ بے نظیر بھٹو جو اپنے اندر پورا پاکستان تھی، ان کا خون بھی پی گیا۔ اس کے علاوہ اکبر بگٹی جیسے سرکردہ بلوچ رہنما کو بھی نگل گیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران امریکی ڈالروں کے عوض جان دینے والوں کی فہرست خاصی طویل ہے۔

پاکستان میں ضیاء الحق کی بدترین اور سفاکیت سے بھرپور آمریت کے بعد تقریباً ایک عشرے تک ملک میں قدرے سکون رہا۔ جمہوری حکومتیں آتی جاتی رہیں۔ غلام اسحاق خان اور فاروق لغاری جیسے کرداروں کے ذریعے سے اسٹیبلشمنٹ پس پردہ رہ کر کھیل ضرور کھلتی رہی مگر پاکستان براہ راست مارشل لاء اور فوجی حکومتوں کی زد سے محفوظ رہا۔ 1997 میں عام انتخابات ہوئے تو ان میں مسلم لیگ (ن) کو دو تہائی اکثریت حاصل ہوئی اور نواز شریف دوسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ نواز شریف دو تہائی اکثریت کے ساتھ حکومت میں آنے کے باوجود مزید طاقت چاہتے ہیں۔ اسی ہوس میں وہ پرویز مشرف کو آرمی چیف بنانے کی اجتہادی غلطی کر بیٹھے۔ انہوں نے بھی وہی غلطی کی جو کبھی بھٹو صاحب نے ضیاء الحق کے معاملے پر کی تھی۔ پرویز مشرف کا تعلق مڈل کلاس سے ہے اور ان کی کوئی سیاسی وابستگی نہیں ہے، وغیرہ وغیرہ جیسی توجیحات ذہن میں رکھ کر نواز شریف نے یہ تعیناتی کر دی۔ پاکستان میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں اور یہ طاقت صرف آئین کی حد تک محدود ہے۔ نواز شریف نے جب دو تہائی اکثریت والے وزیر اعظم کی حیثیت سے اپنے اختیارات استمال کرنا شروع کیے تو ان حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی جو خود کو پاکستان کے مطلق العنان مالک سمجھتے ہیں۔

پرویز مشرف بہت پہلے سے ایڈونچر کے عزائم رکھتا تھا۔ ویسے تو مڈل کلاس کے ساتھ ایک دیرینہ مسئلہ ہے کہ طاقت ملنے کے بعد اکثر پرعزم انقلابی سے بن جاتے ہیں۔ کوئی امیرالمومنین بننا چاہتا ہے تو کوئی روشن خیالی اور آزاد خیالی کا علمبردار، مگر ایسا کم ہو گا کہ کوئی آئین اور قانون کی پاسداری کرنا چاہے گا۔ پرویز مشرف جب بریگیڈیئر تھے ان کی میجر جنرل کے عہدے کے لیے ترقی کی فائل اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے پاس گئی تو انہوں نے کچھ دن اس فائل پر دستخط نہ کیے۔ جب ان سے اس تاخیر کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے بتایا کہ اس آفیسر کا جھکاؤ ایم کیو ایم کی طرف نظر آتا ہے۔ عظیم لیڈر کی دوراندیشی اور انسان کو پہچاننے کی صلاحیت اس کو باقی لیڈروں سے ممتاز کرتی ہے۔ یہ وہی پرویز مشرف تھا جس نے اپنے دور میں ایم کیو ایم کو ایک دفعہ پھر سے بدمعاش بنا دیا۔ پارلیمنٹ، کابینہ اور گورنر ہاؤس تک سب جگہوں پر ایم کیو ایم براجمان تھی۔ پرویز مشرف نے اسی ایم کیو ایم کی خون ریزی کی صلاحتیوں کو استعمال کرتے ہوئے 12 مئی 2007 کو کراچی میں خون کی ندیاں بہائیں۔

قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی ایوب خان کے بارے میں ایسی ہی پیش گوئی کی تھی جب وہ بریگیڈیر تھے۔ قائد اعظم نے ایوب خان کے سینیئرز کو ان کی ترقی کے بارے میں احتیاط برتنے کا کہا تھا کیونکہ قائد اعظم کے مطابق ایوب خان سیاسی عزائم رکھتے تھے۔ کسی نے کہا تھا کہ عظیم انسان اکثر ایک جیسا سوچتے ہیں، مگر پاکستان میں عظیم سوچوں اور عظیم لوگوں کی قدر ہوتی تو ملک کے یہ حالات نہ ہوتے۔

پرویز مشرف نے اپنے مس ایڈونچرز کا باقاعدہ آغاز کارگل کی جنگ سے کیا۔ کارگل سے پرویز مشرف دو فائدے حاصل کرنا چاہتا تھا؛ ایک وہ نواز شریف کی انڈیا کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوششوں کو سبوتاژ کرنا چاہتا تھا اور دوسری طرف وہ پاکستان کے عوام کی نظر میں ہیرو بننا چاہتا تھا۔ ہو سکتا ہے اس کے عزائم یہ ہوں کہ کارگل کے ہیرو کو قوم ایک طویل مدتی اقتدار کے لیے آسانی سے قبول کر لے گی۔ کارگل میں پاکستان کا بہت نقصان ہوا۔ زمانہ طالب علمی کے دور میں یونیورسٹی کے ایڈمن آفیسر جو کہ آرمی سے ریٹائرڈ کیپٹن تھے، ان سے کارگل کے موضوع پر بات ہوتی تھی تو وہ پھوٹ پھوٹ کر روتے تھے کیونکہ وہ اس ناکام اور ملک دشمن مہم جوئی کا حصہ رہ چکے تھے۔ ان کے مطابق پاکستان کی فوج کو ہندوستانی فوج نے چاروں طرف سے گھیر لیا تھا اور ہندوستانی فوج اوپر تھی اور پاکستان کی فون نیچے جہاں سے ان کو آسانی سے نشانہ بنایا جا سکتا تھا۔ پھر جو کچھ ہوا وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ کراچی میں 45 لاشوں پہ مکہ لہرانے والے ہیرو نے اپنے عظیم مجاہدوں کی لاشیں بھی لینے سے انکار کر دیا تھا اور اپنے وزیر اعظم کو امریکہ کے منت ترلے کے لیے بھیج دیا تھا کہ انڈیا سے ہماری جان چھڑوائیں۔

کارگل کے بعد سے ہی نواز شریف پرویز مشرف سے جان چھڑوانے کی سوچ اور منصوبہ بندی میں تھے مگر ان کو کوئی مناسب موقع نہیں مل رہا تھا۔ 12 اکتوبر 1999 سے پہلے بھی پرویز مشرف اپنی کرتب بازیوں سے نواز شریف کو مسلسل پریشان رکھتا تھا۔ کبھی سیاسی رہنماؤں اور کبھی میاں شریف کے ذریعے سے پرویز مشرف اور نواز شریف کے درمیان لنگڑی لولی ورکنگ ریلیشن شپ رہی۔ پرویز مشرف کو بھی نواز شریف کی اس سوچ کا علم تھا۔ اس نے اس دوران فوج میں جنرل محمود، جنرل عثمانی اور جنرل عزیز جیسے ہم خیال لوگوں کو تیار کر لیا تھا اور پاکستان میں ہمیشہ کی طرح امریکہ کے دوستوں سے بھی رابطہ ہو گیا ہو گا کہ مسقتبل میں مل کر کام کریں گے۔ ضیاء کے طالبان کو مشرف کی 'روشن خیالی' سے ختم کرنے کی کہیں نہ کہیں منصوبہ بندی چل رہی ہو گی۔ بہرحال طاقت، اقتدار اور خون کے پیاسے کمانڈو نے دو تہائی اکثریت والے وزیر اعظم کو نا صرف گھر بھیجا بلکہ اس کو جدہ تک چھوڑ آئے۔ پھر اس کے بعد پاکستان کا آئین تھا، جسٹس ڈوگر تھا، پی سی او تھا اور شیخ رشید تھا۔

امریکہ اور پاکسان میں مارشل لاء کے باہمی تعلق کے بارے میں اپنے ایک کالم میں تفصیل سے بیان کر چکا ہوں مگر یہاں یادداشت کو تازہ کرنے کے لیے یہ بتا دیتے ہیں کہ جب کبھی امریکہ کو پاکستان کی اشد ضرورت ہوتی ہے تو پاکستان میں اس وقت کسی 'اتفاق' کے تحت فوجی حکومت ہوتی ہے۔ 9/11 کے واقعے کے بعد امریکہ کی پالیسی بدلی تو اس نے القاعدہ اور ان کو پناہ دینے والے طالبان کے خلاف عالمی سطح پر جنگ کرنے کا فیصلہ کیا جس کو 'دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ' کا نام دیا گیا۔ اس جنگ میں اتحادی بننے کے عوض عالمی بدمعاشوں نے ایک بار پھر ملک بدنصیب کے ساتھ زیادتیاں کرنے کے لیے اسے طاقت کے پجاریوں کو ایک عشرے کے لیے دے دیا۔

پرویز مشرف پاکستان میں مسولینی اور جوزف سٹالن کی کوئی ایک شکل تھی جس نے ملک، ریاست اور عوام کی ہر چیز پر حکمرانی کی۔ وہی آئین تھا، وہی قانون تھا اور وہی ریاست تھی، اس کا جو دل چاہا اس نے کیا۔ امریکہ ساتھ ہو تو آئین اور قانون کیا چیز ہے، انسان تو فرعونیت میں خدا کو بھی جھٹلا دے۔ پرویز مشرف کے پاس اس طاقت کی ہوس کے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے بے شمار پرویز الہیٰ اور شیخ رشید موجود تھے جبکہ ملک کے اصل سیاسی رہنماؤں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو جلاوطن کر دیا گیا تھا۔ پاکستان کی تاریخ نے دیکھا کہ پاکستان میں نئے نئے وزیر اعظم بنائے گئے، کبھی ظفر اللہ جمالی، کبھی شجاعت حسین اور پھر تو یہ حالت ہو گئی کہ پاکستان کی پارلیمنٹ میں وزیراعظم کے لیے پرویز مشرف کی نظر میں کوئی اور جچتا ہی نہیں تھا، پھر پرویز مشرف کے اپنے امریکہ سے لائے ہوئے وزیر خزانہ شوکت عزیز کو قومی اسمبلی کا تازہ الیکشن لڑوا کر وزیر اعظم بننے کے قابل بنایا گیا۔ شوکت عزیز کو رکن اسمبلی بنوانا اور وزیر اعظم بنانا یہ آمریت اور ہٹ دھرم طاقت کا ایک منہ بولتا ثبوت تھا۔ ایک آمر جو چاہ رہا تھا وہ کر رہا تھا۔ اس دور کے کتنے ہی شرمناک سیاسی کردار ہوں گے جو اس کے ہر ایڈونچر پر لبیک کہتے رہے اور اس کو ہمیشہ باوردی صدر رہنے کے مشورے دیتے رہے۔

اس شخص نے اپنی ضد اور جھوٹی انا کو تسکین دینے اور اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے آئین اور قانون کے ساتھ ہر طرح کا کھلواڑ کیا۔ جب حالات ہاتھ سے نکلتے نظر آئے اور اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چودھری کے ساتھ رسم و راہ کچھ خراب ہوئی تو 2007 میں ایمرجنسی لگا کر آئین کو معطل کر دیا۔ پرویز مشرف کے راستے میں آئین آیا یا کوئی شخصیت، وہ سب کو روند کر نکل گیا۔ پھر وہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو ہو یا بلوچوں کے محبوب رہنما اکبر بگٹی، پرویز مشرف اقتدار کی ہوس میں سب کو نگل گیا۔ ڈالر آتے رہے جو سیاسی مافیا کی جیبوں میں ترقیاتی کاموں کی صورت میں جاتے رہے اور عوام کو بھی روشن خیالی، آزاد میڈیا اور ترقیاتی کاموں اور ترقی کے خواب دکھا کر پرویز مشرف اس ملک کی سالمیت، سیاست، عوام اور جمہوریت کے ساتھ کھلواڑ کرتا رہا۔

پرویز مشرف اب نہیں مرا، وہ تب ہی مر گیا تھا جب اس نے بی بی شہید سے ان کی سکیورٹی یہ کہہ کر واپس لے لی تھی کہ آپ کی زندگی کی ضمانت میں اسی حد تک دے سکتا ہوں جس حد تک آپ میرے ساتھ تعاون کریں گی۔ پرویز مشرف تبھی مر گیا تھا جب اس نے پاکستان کا آئین ایک بار نہیں، بار بار پامال کیا تھا۔ اس کی موت تبھی واقع ہو گئی تھی جب اس نے اکبر بگٹی کو مار کر بلوچستان اور ریاست پاکستان کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا تھا۔ اب تو وہ ایک زندہ لاش تھا جس کو بس دفن کرنے کی کارروائی ہونی ہے۔

عاصم علی انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے University of Leicester, England سے ایم فل کر رکھا ہے اور اب یونیورسٹی کی سطح پہ یہی مضمون پڑھا رہے ہیں۔