قوم نے قدم بڑھایا تو پیچھے نواز شریف نہیں تھے

قوم نے قدم بڑھایا تو پیچھے نواز شریف نہیں تھے
اگر کوئی وقت کا پہیہ گھما کر 2017 میں واپس چلا جائے اور اس وقت کے آرمی چیف کو بتائے کہ پانچ سال بعد بلاول بھٹو کی توہین کرنے کے جرم میں شیخ رشید اسٹیبلشمنٹ کا اعتماد کھو بیٹھیں گے اور انہیں گرفتار کر لیا جائے گا تو یہ بات بتانے والے کا ضرور مذاق اڑایا جائے گا۔ اگر 2017 میں پہنچنے والا یہ شخص اضافہ کرے کہ مونس الہیٰ آنے والے سالوں میں اسٹیبلشمنٹ سے راہیں جدا کر لیں گے اور اپنے والد کو بھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ استوار وہ تعلقات ختم کرنے پر مجبور کر دیں گے جن پر ان کی بقا کا انحصار ہے تو اس شخص کو ماہر نفسیات کے پاس جانے کو کہا جائے گا۔ جب اسے پکڑ کر باہر لے جایا جا رہا ہوگا اور اس دوران وہ شور مچائے کہ فواد چودھری اسٹیبلشمنٹ مخالف ہیرو کا روپ دھار چکے ہیں تو اسے قید میں ڈال دیے جانے کا خطرہ لاحق ہو جائے گا۔

پاکستانی سیاست میں موسم کی جانچ رکھنے والے کئی انسان نما آلات موجود ہیں۔ یہ سب آلات روایتی طور پر اس بات کو جانچتے رہے ہیں کہ پنڈی سے چلنے والی ہوائیں کس رخ کے لئے سازگار ہیں۔ پچھلی کئی دہائیوں سے شیخ رشید، فواد چودھری اور گجرات کے چودھریوں نے ارتقائی عمل سے گزر کر محض اسٹیبلشمنٹ کی خواہشات کی سمت ظاہر کرنے والے سادہ آلات سے خود کو تکنیکی طور پر جدید موسمی غباروں میں تبدیل کر لیا ہے۔ وہ کمال فخر اور مستقل مزاجی کے ساتھ مستقبل میں آنے والے دباؤ کے نظام کی پیش گوئی کرتے آئے ہیں اور یہاں تک کہ وہ آنے والے زلزلے کا بھی اندازہ لگاتے رہے ہیں۔ شیخ رشید نے اپنا پورا سیاسی کریئر ہی اس ڈھونگ پر استوار کیا ہے کہ ہر نیا آنے والا آرمی چیف اور وہ اکٹھے سکول جاتے رہے ہیں۔ فواد چودھری ہائبرڈ رجیم کے پسندیدہ بھونپو تھے کہ ہر ناقابل دفاع اقدام کا بھی بھرپور انداز میں دفاع کریں۔ گجرات کے چودھریوں نے مسلسل اس قسم کی طاقت کا لطف اٹھایا ہے جو صرف اس وقت حاصل ہوتی ہے جب آپ پنڈی کی ہوا کی سمت میں حرکت کرتے ہیں۔ یہ طاقت کی ایسی قسم ہے جو احتساب سے بالاتر ہے۔ وہ معمول کے پابند رہ کر عین وہی کچھ کرتے رہیں گے جو پنڈی والے چاہتے ہیں، یا کم از کم اس گمان پر عمل کرتے ہوئے کہ پنڈی والے چاہتے ہوں گے کہ ہم یہ کریں۔ اس کے بعد وہ سب کو سمجھائیں گے کہ وہ جو کچھ کرتے رہے ہیں وہ اسٹیبلشمنٹ کی خواہش تھی۔

اس استعارے کو تفصیل سے بیان کرنے کے بعد اب میں اصل نکتے کی جانب آؤں گا؛ یہ موسمی غبارے اچانک چلتے چلتے رک کاہے گئے؟ ان آلات کے پرزہ جات میں خرابی کیوں پیدا ہو گئی؟ کیا وجہ ہے کہ شیخ رشید کو ہتھکڑی پہن کر سگار پینے پڑ رہے ہیں؟ فواد چودھری کو ویسا ہی سلوک کیوں برداشت کرنا پڑ رہا ہے کہ جس کا مخالفین کی مرتبہ وہ پوری ثابت قدمی سے دفاع کر رہے تھے۔

مونس الہیٰ انتہائی کمزور پوزیشن میں ہیں۔ منی لانڈرنگ کیسز کی بے شمار تحقیقات نے انہیں گھیرے میں لے رکھا ہے جن سے متعلق ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ ان میں تہہ در تہہ رقوم کی ترسیلات کا سراغ ملتا ہے جن کی شروعات غیر واضح ذریعہ رقم کے طور پر ہوتی ہے اور آخرکار یہ کسی الہیٰ کے اکاؤنٹ میں جا پہنچتی ہیں۔ مونس الہیٰ کا انتخابی حلقہ پنجاب کی ایک ڈویژن کے اندر چھوٹا سا مقام ہے مگر یہ ریاست پاکستان کی بہت بڑی طاقتوں کے ساتھ پیوستہ ہے۔ مبینہ طور پر مونس الہیٰ کی منی لانڈرنگ کے سہولت کار جن کی بظاہر حیثیت اس لین دین کے نیٹ ورک میں انفرادی تہوں کی سی ہے وہ چھوٹی چھوٹی سرکاری ملازمتوں سے ترقی کرتے ہوئے گورنمنٹ کے سیکرٹریز جیسے اعلیٰ عہدوں تک جا پہنچے ہیں، عین اسی طرح جیسے الہیٰ خاندان کے اپنے لوگوں نے ترقی کی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے باوجود مونس الہیٰ نے کھیل کے قوانین بنانے والوں کی مخالفت کرنے کی جرات کیسے کر لی؟

اس کا جواب سادہ سا ہے۔ مونس کو نظر آ رہا ہے کہ ایک طرف امکانی صورت ہے اور دوسری جانب ناگزیریت ہے اور اسے ان دونوں میں سے کسی ایک صورت کا انتخاب کرنا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے گیم آف تھرونز کے لئے رضاکاروں کی بھرمار کے سامنے اس کے خاندان کے امکانات محدود ہیں۔ جب کہ عمران خان کے ساتھ پھر بھی بہتر امکان ہے کہ درجہ بندی میں کہیں نہ کہیں اس کو بھی جگہ مل جائے گی اور جب عمران خان سیاست سے کنارہ کشی کرتے ہیں یا انہیں سیاست سے بے دخل کر دیا جاتا ہے تو اگر کچھ باقی بچ گیا تو اس پر جھپٹ پڑنے کا امکان مونس الہیٰ کے پاس ہوگا۔

ایسا ہرگز نہیں کہ موسم کا پتہ چلانے والے یہ آلات مکمل طور پر ناکارہ ہو چکے ہیں۔ یہ وہی کچھ کر رہے ہیں جو انہیں بہت اچھی طرح سے آتا ہے: جس رخ پر سب سے طاقتور ہوا چل رہی ہے وہ اسی جانب حرکت کر رہے ہیں۔ ایسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ یہ طاقتور ہوا پنڈی کی جانب سے نہیں چل رہی۔

لوگ اس بارے میں قیاس آرائیاں کرتے رہے ہیں کہ اصل منصوبہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ طویل عرصے سے مسلم لیگ ن سے شہباز شریف کی 'ش' کو نکال کر مریم نواز کی 'م' کو اصولی طور پر بے نتیجہ موڑ پر لا کر چھوڑ دینا چاہتی ہے۔ اس کے بجائے ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم لیگ ن ایک مرتبہ پھر بادشاہ کی اصل پارٹی کے طور پر سامنے آئی ہے۔ یہ ہماری نہ ختم ہونے والی سیاسی موقع پرستی کی جانب واضح اشارہ ہے۔ مریم جنہیں ایک بڑی امید سمجھا جا رہا تھا، اسی پرانے سٹیس کو کا سکہ بن کے رہ گئی ہیں جس کے لئے ان کے والد سرگرم رہے ہیں۔

2017 کے بعد نواز شریف نے ہمارے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ ان کی سیاست ٹوٹے ہوئے اخروٹ جیسی ہے: متعدد کوششوں کے بعد باہری سخت خول نے اندر موجود نرم اور درمیانی اصولوں کو راستہ دے دیا ہے۔ مگر اس کے بجائے ہمیں ان کی سیاست پھر سے چھیلے ہوئے پیاز جیسی نظر آنی شروع ہو گئی ہے: اسٹیبلشمنٹ کی حمایتی پوزیشن سے حاصل ہونے والے گہرے دکھ پر مبنی جب پرانی پرت اتار پھینکی جاتی ہے تو اندر سے بالکل اسی طرح کی ایک پرت اور نمودار ہو جاتی ہے۔ اس کے بارے میں بہت پہلے ہی سے پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ اگلی پرت اسی طرح کی نکلے گی اور اس پیش گوئی کے ساتھ ہی آپ کی آنکھوں سے آنسو نکلنا شروع ہو جائیں گے۔

حالات کس قدر مختلف ہوتے اگر خود ساختہ شیر پنجاب گوجرانوالہ کے جلسے میں کچھ لوگوں کے نام لینے کے بعد اپنے ذاتی مفاد کے علاوہ بھی کسی معاملے سے متعلق دہاڑتے؟ ملک کی سیاسی بساط بہت مختلف ہو سکتی تھی۔ اب جیسی حالت ہے اس میں تو بساط پر محض پیادے ہی پیادے جمع ہو چکے ہیں۔ سوائے پیادے عمران خان کے جو بساط کے دوسرے سرے تک پہنچ چکا ہے اور مزید طاقتور صورت اختیار کرنے والا ہے۔ اب عمران خان کیا صورت اختیار کرتا ہے اس کا اندازہ لگانا فی الحال مشکل ہے مگر اتنا ضرور ہے کہ انہوں نے شطرنج بورڈ کا دوسرا سرا اور اس کے دوسری جانب موجود اندھیرے کو دیکھ لیا ہے۔

اس دوران اسٹیبلشمنٹ مخالف اصل شیر پیپلز پارٹی کے پاس اب بلاول بھٹو کی صورت میں وزارت عظمیٰ کا امیدوار موجود ہے۔ پیپلز پارٹی کے انتخابی اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ پیپلز پارٹی کے خفیہ سمبندھ کے واضح اعلان کے بغیر یہ کیسے ممکن ہو پاتا ہے، یہ ایک دلچسپ پیش رفت ہو گی جو ہونی باقی ہے۔ پی ڈی ایم سے ہر لمحے بذریعہ سرجری درستگی کے ساتھ الگ رہتے ہوئے اس نے پی ٹی آئی اور جنرل باجوہ کی ہائبرڈ رجیم کے دوران پہلے سے مختلف نظر آنے کے اشارے دیے تھے جس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کو وہ حاصل ہوا جسے وہ ہمیشہ سے حاصل کرنا چاہتی تھی: انتخابات کے بغیر اقتدار کا حصول اور اس کے فوراً بعد احتساب کی پریشانیوں سے چھٹکارا۔ ہر قدم کے ساتھ ان کی سیاست کو جیت حاصل ہوئی جب کہ اس سارے عمل کے دوران معمول کی طرح جو چیزیں غائب رہیں وہ تھیں جمہوریت اور اچھی حکمرانی۔

نواز شریف نے ایک بار کہا تھا کہ انہوں نے اصولی مؤقف اپنایا تو سب نے کہا قدم بڑھاؤ نواز شریف، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ مگر جب آمریت کے خلاف یہ قدم بڑھا کر پیچھے دیکھا تو وہاں کوئی بھی نہیں کھڑا تھا۔ گوجرانوالہ کی تقریر سن کر قوم نے قدم بڑھایا تو اس بار پیچھے نواز شریف نہیں کھڑے تھے۔


نواز شریف لندن سے وطن واپسی کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور ان کی بیٹی خاردار تاروں کے پیچھے کھڑی ہیں اور چار دیواریوں میں پارٹی کنونشنوں سے خطاب کر رہی ہیں۔ یہاں کھڑی وہ ہمیں یہ سمجھا رہی ہیں کہ ان کی پارٹی میں موروثیت اس وجہ سے ہے کیونکہ عوام ان سے محبت کرتے ہیں اور یہی چاہتے ہیں کہ مریم اپنے والد کی جگہ لیں۔

؎ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا




عبدالمعز جعفری کا یہ مضمون Dawn اخبار میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کرکے پیش کیا جا رہا ہے۔

عبدالمعز جعفری قانون دان ہیں اور مختلف آئینی و قانونی معاملات پر کالم لکھتے ہیں۔ ان کے مضامین انگریزی روزنامے Dawn میں شائع ہوتے ہیں۔