• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
جمعرات, مارچ 30, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

شریفوں کی خاندانی سیاست اور عمران خان کی بادشاہت میں خاص فرق نہیں

سیاسی جماعتوں کو زیادہ جمہوری بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ ایسے قوانین سے چھٹکارا حاصل کیا جائے جو اراکین پارلیمنٹ کے ووٹ ڈالنے کے حق کو محدود کرتے ہیں۔ مگر اس میں بھی ایک تنبیہ ہے کہ اراکین پارلیمنٹ تمام ووٹ کھلے عام ڈالیں تاکہ عوام کو معلوم ہو سکے کہ ان کے نمائندوں نے پارلیمنٹ میں کس کو ووٹ دیا ہے۔

مفتاح اسماعیل by مفتاح اسماعیل
مارچ 3, 2023
in تجزیہ
32 1
0
شریفوں کی خاندانی سیاست اور عمران خان کی بادشاہت میں خاص فرق نہیں
38
SHARES
182
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

ان دنوں بیش تر مبصرین کی جانب سے سیاسی خاندانوں کی خامیوں کے بارے میں خطرناک حد تک بیان بازی کرنا فیشن کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ مبصرین جن خاندانوں کو خاص طور پر ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، وہ شریف خاندان اور بھٹو خاندان ہیں۔

تاہم یہ ستم ظریفی ہے کہ جہاں ایک جانب وہ خاندانوں کی سیاست کی مخالفت کرتے ہیں، وہیں وہ ‘بادشاہت’ کی حمایت کرنے میں خوشی محسوس کر رہے ہوتے ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ بادشاہتیں ہی ہیں جن کی کوکھ سے سیاسی خاندان جنم لیتے ہیں۔

RelatedPosts

ہئیت مقتدرہ ‘پروجیکٹ 1985’ کے ذریعے اب کپتان کا راستہ روک رہی ہے

پارلیمنٹ سے استعفے، صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل بڑی بدنیتی ہے یا انتخابات کا التوا؟

Load More

اگر ایک جانب بعض سیاسی جماعتوں کو سیاسی خاندان کہا جاتا ہے تو مستقل مزاجی کا تقاضا یہ ہے کہ ایسی جماعتیں جہاں سپریم لیڈر کے علاوہ کسی دوسرے رہنما کو کوئی اہمیت نہ دی جاتی ہو اور جہاں پارٹی کے دیگر رہنماؤں نے یونانی دیومالائی کردار Icarus کی مانند سورج کے بہت قریب جا کر دیکھ لیا ہو کہ ان کے پر جل سکتے ہیں، ایسی جماعتوں کو بادشاہتیں پکارا جانا چاہئیے۔

صرف ایک ہی خاندان حکومت کرنے کا اہل ہے اور صرف ایک آدمی ہمیشہ کے لیے حکومت کرنے کا مستحق ہے، ان دو نکات سے متعلق بحث کرتے ہوئے ذہن میں رہنا چاہئیے کہ دونوں باتوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ کوئی ایک ہی خاندان یا کوئی ایک ہی ایسا فرد جسے پارٹی پر مکمل گرفت حاصل ہو، ان کے بیچ میں بھی کوئی فرق نہیں ہے۔ بدقسمتی سے اسی آمرانہ گرفت کے باعث تباہ کن فیصلے سامنے آتے ہیں، خاص طور پر اہم ترین عہدوں پر غیر موزوں لوگوں کی تقرری جیسے فیصلے۔

سیاسی خاندان محض پاکستان ہی کا خاصا نہیں ہیں۔ بھارت میں نہرو/گاندھی خاندان، بنگلہ دیش میں مجیب خاندان، سری لنکا میں بندرانائیکے اور راجاپکشے خاندان، فلپائن میں ایکینو اور مارکوس خاندان ان سیاسی خاندانوں کی مثالیں ہیں۔

لیکن پاکستان میں پارٹی قائدین کی طاقت بحیثیت مجموعی بہت منفرد ہے اور جماعت اسلامی کو چھوڑ کے باقی سبھی سیاسی جماعتوں کو خاندانی سیاسی جماعتیں بنا دیتی ہے، چاہے انہیں کوئی ایک مقتدر خاندان چلا رہا ہو یا پھر کوئی اکیلا سپریم لیڈر۔ سیاسی رہنماؤں کو آمروں کا درجہ دینے میں ہمارا آئین، ادارے اور سیاست سبھی کارفرما نظر آتے ہیں۔

پاکستان کے قیام کے پہلے 11 سالوں کے دوران سمر انٹرنز سے بھی زیادہ تعداد میں وزرائے اعظم تبدیل کرنے کے بعد ہمیں یکے بعد دیگرے تین مارشل لاؤں کا سامنا کرنا پڑا جو 1988 تک لگ بھگ 30 سال تک جاری رہے۔ اس عرصے میں ذوالفقار علی بھٹو کی آئینی حکمرانی کے وہ چار سال شامل نہیں ہیں حالانکہ ان کے آخر میں بھی ایمرجنسی لگائی گئی تھی اور بنیادی حقوق کو معطل کر دیا گیا تھا۔

اگلے 11 سالوں میں دو منتخب وزرائے اعظم چار مرتبہ ایک دوسرے کی جگہ لیتے رہے اور چار ہی نگران وزیر اعظم آئے۔ ہر مرتبہ جب ‘پنڈی والوں’ کی مدد سے ایک منتخب وزیراعظم کو ہٹایا جاتا تو ایک نگران وزیراعظم اس کی جگہ لے لیتا۔ یہ کھیل تب ختم ہوا جب جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔

ان سالوں کے دوران عدم استحکام کی ایک وجہ آئین کے آرٹیکل کی شق 58 ٹو بی تھی جس کے تحت صدر پاکستان منتخب وزرائے اعظم کو (اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے اشارہ پا کر) ہٹانے کا اختیار رکھتے تھے۔ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے قانون سازوں کی وفاداریوں کو تبدیل کروا لینا عدم استحکام کی دوسری وجہ تھی۔ ان عوامل کا مقابلہ کرنے کے لیے قومی اسمبلی نے 1997 میں 14 ویں آئینی ترمیم منظور کی جس نے 58 ٹو بی کا خاتمہ کر دیا اور اراکین پارلیمنٹ سے اپنی مرضی کے مطابق ووٹ دینے کے اختیارات بھی چھین لیے۔ اب اپنے ضمیر یا خوف یا پیسے کے لالچ کے بجائے قانون سازوں پر لازم تھا کہ وہ اپنی پارٹی کے سربراہ کی مرضی کے مطابق ووٹ دیں۔

مارشل لاء کے خاتمے کے بعد 18 ویں ترمیم کے ذریعے سے ایک مرتبہ پھر 58 ٹو بی کو ختم کر دیا گیا جسے جنرل پرویز مشرف نے دوبارہ آئین کا حصہ بنا لیا تھا اور ان مسائل کو بھی بیان کیا جہاں قانون سازوں کے لئے ضروری تھا کہ وہ اپنے قائدین کی خواہشات کے مطابق ووٹ دیں، چاہے وہ آزاد حیثیت ہی میں کیوں نہ منتخب ہوئے ہوں۔ اس شرط کی خلاف ورزی ایک ہی صورت میں کی جا سکتی تھی اگر اراکین پارلیمنٹ اپنی نشست سے محروم ہونے کے لئے تیار ہوں۔

اسی ضمن میں حال ہی میں سپریم کورٹ نے ایک ایسا قدم اٹھایا ہے جس کا شاید آئین میں تصور بھی نہیں کیا گیا اور حکم دیا ہے کہ اپنے پارلیمانی لیڈر کے حکم کے خلاف ڈالے گئے رکن پارلیمنٹ کے ووٹ کو شمار بھی نہیں کیا جائے گا۔

لہٰذا ایک ایسا سفر جس کا آغاز بظاہر اداروں کی ایک دوسرے کے دائرہ کار میں مداخلت کو روکنے کی کوشش سے ہوا تھا، درحقیقت پارٹی لیڈروں کو اپنے اراکین پارلیمنٹ کی بات سننے کے ‘جھنجھٹ’ سے چھٹکارہ دلانے کی کوشش بھی ثابت ہوا اور اس نے بالآخر پارلیمنٹ کو کم و بیش بے وقعت بنا کر رکھ دیا۔ وزیر اعظم کون ہونا چاہئیے، بجٹ کیسا ہونا چاہئیے اور کون سی آئینی ترامیم منظور ہونی چاہئیں؛ اس بارے میں اب کسی رکن پارلیمنٹ کے پاس انفرادی حیثیت میں کچھ بھی کہنے کا اختیار نہیں بچا۔ یہ فیصلے سیاسی جماعتوں کے چند رہنماؤں کے ہاتھ میں دے دیے گئے ہیں۔

جب ہمارا آئین پارٹی سربراہ کو اتنے اختیارات دیتا ہے تو ایسے میں قانون سازوں کے پاس کیا اختیار رہ جاتا ہے؟ ایسی صورت میں خاندانوں کی سیاست یا بادشاہت قائم نہ ہو تو اور کیا ہو؟

پارٹی سربراہان شاید یہ کہیں کہ یہ اقدام قانون سازوں پر اسٹیبلشمنٹ کے اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے اٹھایا گیا تھا۔ لیکن ہمارا زندگی کا تجربہ بتاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ جب مداخلت کرنا چاہتی ہے تو وہ کوئی نہ کوئی راستہ نکال ہی لیتی ہے۔ لہٰذا ان ترامیم نے اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کی صلاحیت کو کم نہیں کیا بلکہ پارٹی سربراہان کو انفرادی قانون سازوں پر مکمل فوقیت دے دی ہے۔

سیاسی جماعتوں کو زیادہ جمہوری بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ ایسے قوانین سے چھٹکارا حاصل کیا جائے جو اراکین پارلیمنٹ کے ووٹ ڈالنے کے حق کو محدود کرتے ہیں۔ مگر اس میں بھی ایک تنبیہ ہے کہ اراکین پارلیمنٹ تمام ووٹ کھلے عام ڈالیں تاکہ عوام کو معلوم ہو سکے کہ ان کے نمائندوں نے پارلیمنٹ میں کس کو ووٹ دیا ہے۔ ایسے اراکین پارلیمنٹ جو اپنے حلقے کے مفاد میں ووٹ نہیں ڈالیں گے، عوام انہیں اگلے انتخابات میں ووٹ نہ دے کر شکست سے دوچار کر دیں گے۔

بلاشبہ پاکستان میں جس انداز سے سیاست کی جاتی ہے اس سے بھی لیڈروں کی طاقت کو تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ امریکہ میں اگر آپ اسقاط حمل کے معاملے پر کسی سیاست دان کے خیالات سے واقف ہیں تو آپ امیگریشن سے متعلق بھی اس کی رائے کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ امریکی سیاست نظریاتی حساب سے دائیں اور بائیں دھڑے پر کی جاتی ہے۔ اگر سیاست دان کسی ایک معاملے پر بائیں بازو والے نظریات رکھتے ہیں تو غالب امکان ہے کہ باقی تمام معاملات سے متعلق بھی وہ بائیں بازو والے نظریات ہی کے حامل ہوں گے۔

پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔ یہاں سیاسی جماعتیں نظریے پر نہیں بلکہ اقدار اور مفادات کی بنیاد پر چلتی ہیں اور یہ کہنا نہایت ضروری ہے کہ جماعتیں اپنے سربراہ کی نسلی پہچان پر انحصار کرتی ہیں۔ اسی لیے سیاسی خاندان کی اہمیت میں اضافہ ہو جاتا ہے کیونکہ ووٹروں کے شعور میں یہ یکساں اقدار اور مفادات کی عکاسی کرتا ہے۔ مزید براں اسٹیبلشمنٹ کی طاقت نے پارٹی لیڈروں کو مزید غیر معمولی حیثیت عطا کر دی ہے، غالباً پاگل پن کی حد تک اور یہی وجہ ہے کہ وہ خاندان کے باہر سے کسی رہنما کو اوپر نہیں آنے دیتے۔

ایک مثال خیبر پختونخوا سے ملتی ہے جہاں خان عبدالغفار خان کی خدائی خدمت گار تحریک کا ووٹ بینک ان کے بیٹے ولی خان کو وراثت میں ملا تھا جو آگے چل کر نیشنل عوامی پارٹی کے اپنے دھڑے کے سربراہ بن گئے (اے این پی کے دوسرے دھڑے کی سربراہی مولانا بھاشانی کے حصے میں آئی)۔ جب ولی خان کو جیل میں ڈال دیا گیا تو بیگم نسیم ولی خان نے پارٹی کو سنبھالا۔ بالآخر ان کے بیٹے اسفند یار ولی خان نے پارٹی کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی۔ اگرچہ اے این پی ایسے لیڈروں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے اس ملک کے لیے اپنے خاندان کے افراد کی جانیں قربان کی ہیں، مگر اے این پی کا اگلا لیڈر اسفند یار کا بیٹا ایمل ولی خان ہی ہو گا۔

اس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ووٹ بینک لیڈر کی وجہ سے بنتا ہے، حسد کے ساتھ اس کی حفاظت کی جاتی ہے اور خاندان کی اگلی نسل کو منتقل کیا جاتا ہے۔ پارٹیاں محض وہ سیڑھیاں ہیں جنہیں سیاسی رہنما اپنی مقبولیت کو ادارہ جاتی بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

اگرچہ اس کا امکان کم ہے مگر دنیا کے اس حصے میں جہاں ہم رہتے ہیں یہاں بادشاہت اور خاندانی سیاست سے آزاد کامیاب سیاسی جماعت بنانا ممکن ہے۔ اس کی ایک مثال بھارتیہ جنتا پارٹی کی ہے، پہلے اٹل بہاری واجپائی جس کے سربراہ تھے اور اب نریندر مودی ہیں۔ لیکن ہندوتوا کی سیاست کے ساتھ بی جے پی کی شناخت نے اس کے لیے ممکن بنا دیا ہے کہ کسی حکمران سپریم لیڈر یا خاندان پر انحصار کیے بغیر کامیابی حاصل کر لے۔ لہٰذا ایک غیر خاندانی سیاسی جماعت کی کامیابی کے لئے اس کے پاس کسی نظریاتی بنیاد کا ہونا نہایت ضروری ہے۔

پاکستان میں ایسی سیاسی جماعتیں سامنے آئیں گی یا نہیں، یہ آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے۔


سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا یہ مضمون Dawn میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کرکے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔

Tags: آمریتبادشاہتبھٹو خاندانپاکستان تحریک انصافخاندانی سیاستشریف خاندانعمران خانموروثیت
Previous Post

ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار ملک میں ڈیڑھ لاکھ سرکاری گاڑیاں فراٹے بھر رہی ہیں

Next Post

‘آنے والے انتخابات میں پی ٹی آئی پنجاب میں 10 سیٹیں زیادہ جیتے گی’

مفتاح اسماعیل

مفتاح اسماعیل

مفتاح اسماعیل وفاقی وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔

Related Posts

Shehbaz-Sharif-Vs-Bandial

چیف جسٹس کے اختیارات کم کرنے سے آئینی حکمرانی کا خواب پورا نہیں ہوگا

by اعجاز احمد
مارچ 29, 2023
0

آج پاکستان کی عدالتی، سیاسی اور پارلیمانی تاریخ کا بڑا دن ہے۔ مگر یہ کسی بڑی خوشی کا دن نہیں، بلکہ سوچنے،...

پارلیمان راتوں رات قانون سازی کر سکتی ہے بشرطیکہ رہنماؤں کے ذاتی مفادات خطرے میں ہوں

پارلیمان راتوں رات قانون سازی کر سکتی ہے بشرطیکہ رہنماؤں کے ذاتی مفادات خطرے میں ہوں

by عظیم بٹ
مارچ 29, 2023
0

قیام پاکستان سے آج تک ملک کا سب سے اہم اور سب سے مقدس ادارہ پارلیمان جو کہ قوم کی ترجمانی کرتا...

Load More
Next Post
‘آنے والے انتخابات میں پی ٹی آئی پنجاب میں 10 سیٹیں زیادہ جیتے گی’

'آنے والے انتخابات میں پی ٹی آئی پنجاب میں 10 سیٹیں زیادہ جیتے گی'

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

Shehbaz-Sharif-Vs-Bandial

چیف جسٹس کے اختیارات کم کرنے سے آئینی حکمرانی کا خواب پورا نہیں ہوگا

by اعجاز احمد
مارچ 29, 2023
0

...

الیکشن پہلے عمران خان نے رکوائے، پھر شہباز شریف نے

الیکشن پہلے عمران خان نے رکوائے، پھر شہباز شریف نے

by شاہد میتلا
مارچ 29, 2023
0

...

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

by شاہد میتلا
مارچ 22, 2023
1

...

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

by ہارون خواجہ
مارچ 18, 2023
1

...

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

by رضا رومی
مارچ 20, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In