• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
جمعرات, مارچ 23, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

تفاوت کی شکار پاکستانی ریاست کے ادارے باہم دست و گریبان ہیں

پاکستان کا سیاسی نظام چھ سال کے طویل نیم آمرانہ دور کے بعد دوبارہ سے ٹھیک ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب پارلیمنٹ کو موجودہ وقت کے بڑے سوالات کے جوابات دینے کے لیے ایک حتمی فورم کے طور پر سامنے آنا چاہئیے تھا، ایسا لگتا ہے کہ ایسے تمام معاملات کی سربراہی عدالتوں کے ہاتھ میں آ چکی ہے۔

رضا رومی by رضا رومی
مارچ 16, 2023
in ایڈیٹر کی پسند, تجزیہ
18 1
0
تفاوت کی شکار پاکستانی ریاست کے ادارے باہم دست و گریبان ہیں
22
SHARES
103
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

سپریم کورٹ آف پاکستان کا یکم مارچ کا فیصلہ جس میں صدر پاکستان اور گورنرز کو الیکشن کمیشن سے مشاورت کرنے کے بعد پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کی تاریخ دینے کی ہدایت کی گئی تھی، جس انداز میں اس ازخود نوٹس کی کارروائی آگے بڑھی اور جس طرح عدالت عظمیٰ کے اندر بڑھتی ہوئی تقسیم عوام کے سامنے آئی، ان عوامل کے باعث سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ تنازعات میں گھر چکا ہے۔
ازسر نو تشکیل پانے والے پانچ رکنی بنچ میں شامل اختلاف کرنے والے ججوں، جسٹس منصور علی شاہ اور جمال خان مندوخیل نے آرٹیکل 184(3) کے تحت عدالت عظمیٰ کے غیر معمولی دائرہ اختیار پر سوال اٹھایا، خاص طور پر ایسے وقت میں جب وہی معاملہ متعلقہ صوبائی ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہو۔

اس سے قبل ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرنے والے لارجر بنچ میں شامل جسٹس یحییٰ آفریدی نے اعتراض اٹھایا کہ ‘فریقین کی جانب سے لگائے گئے عجیب و غریب الزامات اور غیر متزلزل سیاسی مؤقف سپریم کورٹ کو اس بات کی ضمانت دیتے ہیں کہ وہ حق پرستی کے اصول کو تقویت دینے کے لیے عدالتی تحمل کا مظاہرہ کرے’۔ اپنے اختلافی نوٹ میں جسٹس آفریدی نے درخواستوں کو مسترد کر دیا تاکہ ‘آئین کے تحت متعین کی گئی ہائی کورٹس کی درجہ بندی کی عدالتی ڈومین کی خلاف ورزی نہ ہو’۔

RelatedPosts

‘عمران خان کے کارناموں کی وجہ سے پی ٹی آئی کو کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے’

گورنر جنرل غلام محمد جنہوں نے سیاست میں فوجی اور عدالتی مداخلت کی بنیاد رکھی

Load More

جسٹس اطہر من اللہ جنہیں چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے بنچ سے الگ کر دیا تھا، ان کے اختلافی نوٹ میں بھی جسٹس یحییٰ آفریدی کے مؤقف کی تائید کی بازگشت سنائی دی۔ انہوں نے لکھا کہ چیف جسٹس کا حکم ‘کھلی عدالت میں ہونے والی کارروائی اور حکم نامے سے مطابقت نہیں رکھتا’۔ جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا کہ ‘صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کی قانونی حیثیت سے متعلق سوالات میں بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں شامل ہیں’ اور یہ کہ انتخابات کی تاریخ دینے کا معاملہ ‘یقینی طور پر قبل از وقت’ تھا۔

وفاقی وزیر قانون و انصاف سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو 4-3 کا فیصلہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کے بعض ججوں کو، جنہوں نے حتمی پانچ رکنی بنچ کی اکثریتی رائے سے اختلاف کیا تھا، کو جان بوجھ کر بنچ سے الگ کر دیا گیا تھا تاکہ مخصوص فیصلے کو ‘دوبارہ سے ترتیب دیا’ جا سکے۔

اس فیصلے سے متعلق کی جانے والے سیاست سے قطع نظر، دو جج صاحبان جنہوں نے خود کو لارجر بنچ سے الگ کر لیا تھا، دونوں جج عمران خان اور ان کی پارٹی کے حق میں مبینہ تعصب کی وجہ سے عوام کی نظروں میں رہے ہیں۔ اس تناظر میں ان کا بنچ سے الگ ہونا ایک غیر معمولی پیش رفت تھی۔

ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں پیدا ہونے والی پولرائزیشن نے ملک کے اعلیٰ ترین عدالتی حکام کو بھی متاثر کیا ہے۔ مقدمات کی سماعت کے لیے بنچوں کی تشکیل اور ان میں ‘تبدیلی’، اگرچہ سپریم کورٹ کے قوانین کے مطابق موجودہ چیف جسٹس کا مکمل استحقاق ہے، اس استحقاق پر بھی سوال اٹھائے گئے جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اسی دن جاری کیے گئے تحریری حکم میں اس عمل پر کھل کر سوال اٹھایا جس دن لارجر بنچ نے الیکشن سے متعلق فیصلہ سنایا تھا۔

پچھلے کچھ سالوں میں جو معاملات پارلیمنٹ میں حل ہونے چاہئیں تھے، سپریم کورٹ ان معاملات کا ثالث بن گیا ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی بطور آرمی چیف مدت ملازمت کے ابتدائی مرحلے میں سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو عہدے سے ہٹا کر اور انہیں تاحیات نااہل قرار دے کر خود کو ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے شراکت دار کے طور پر پیش کیا تھا۔ نواز شریف کو دی جانے والی اس سزا کو بعد میں موجودہ چیف جسٹس صاحب نے ‘ڈریکونین’ قرار دیا تھا۔ باہم دست و گریبان نیم جمہوری اداکاروں نے بھی اپنی طاقت سے دستبردار ہوتے ہوئے عدالتوں کو ایسے معاملات سلجھانے کی بھی راہ دکھائی جنہیں سیاسی میدان میں بہتر طریقے سے حل کیا جا سکتا تھا۔ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ عدالتوں پر اب ‘پیچھے کی طرف جھکنے’ اور ایک مخصوص سابق وزیر اعظم کی منشا کے مطابق فیصلے جاری کرنے کے لیے قانون کو مسخ کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔

پنجاب کے نامزد وزیر اعلیٰ کے خلاف ووٹ دینے والے پی ٹی آئی کے سابق اراکین صوبائی اسمبلی کی نااہلی سے متعلق تفصیلی فیصلہ ابھی آنا باقی ہے۔ ‘بنچ فکسنگ’ کے الزامات اس وجہ سے اٹھائے گئے ہیں کہ سب سے اہم سیاسی مقدمات کو مخصوص ججوں پر مشتمل بنچ کے سامنے ہی رکھا جاتا ہے۔ سینیئر ترین سپریم کورٹ ججوں کو نامعلوم وجوہات کی بنا پر مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے ایسے بنچوں میں شامل نہیں کیا جاتا۔

پاکستان کا سیاسی نظام چھ سال کے طویل نیم آمرانہ دور کے بعد دوبارہ سے ٹھیک ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب پارلیمنٹ کو موجودہ وقت کے بڑے سوالات کے جوابات دینے کے لیے ایک حتمی فورم کے طور پر سامنے آنا چاہئیے تھا، ایسا لگتا ہے کہ ایسے تمام معاملات کی سربراہی عدالتوں کے ہاتھ میں آ چکی ہے۔ جزوی طور پر اس کا تعلق ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے پیچھے ہٹ جانے کے ساتھ ہے کیونکہ وہ اپنے سابقہ ‘حامی’ کے زبردست دباؤ کے پیش نظر ایک فعال کھلاڑی کے طور پر نہیں نظر آنا چاہتی۔ لیکن اگر ایسا نہ بھی ہوتا تب بھی سیاسی اداکاروں کا پارلیمنٹ پر اعتماد کم ہی نظر آنا تھا۔ وہ سب راولپنڈی کے جنرل ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو) کے ‘گیٹ نمبر 4’ کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔ فی الحال کوئی نہیں جانتا کہ جی ایچ کیو کیا سوچ رہا ہے کیونکہ ’حافظ ڈاکٹرائن‘ پر کام ابھی جاری ہے۔ اس ضمن میں ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ عمران خان موجودہ آرمی چیف سے ملنا چاہتے ہیں لیکن آرمی چیف ان سے ملاقات کرنے میں ذرا بھی دلچسپی نہیں ظاہر کر رہے۔

اسی دوران عمران خان گرفتاری سے بچنے میں کامیاب ثابت ہو رہے ہیں اور انہوں نے چیف جسٹس سے ویڈیو لنک کے ذریعے عدالتوں میں پیش ہونے کی اجازت طلب کر لی ہے کیونکہ ان کے بقول ان کی جان کو خطرہ لاحق ہے۔ عمران خان کسی بھی غیر یقینی صورت حال میں آئی ایس آئی کے ایک سینیئر افسر پر انہیں قتل کرنے کی سازش کا الزام لگاتے رہتے ہیں۔ عمران خان کی یہ روش بے مثال ہے کیونکہ ان سے پہلے والے وزرائے اعظم ڈیپ سٹیٹ کے ساتھ رابطہ قائم رکھنے والے پلوں کو جلانے کے بارے میں زیادہ محتاط رہتے تھے۔

عمران خان کے اعتماد اور بہادری کا سرچشمہ دو بنیادوں پر استوار ہے؛ پہلا ایک گہرے تفاوت پر مبنی معاشرے کے بااثر طبقوں کے اندر انہیں زبردست حمایت حاصل ہے اور دوسرا انہیں ‘نظام’ کے اندر سے مسلسل حمایت حاصل ہے۔ دوسرے مظہر کی ایک مثال وہ غیر معمولی ریلیف ہے جو انہیں اور ان کی جماعت کو اعلیٰ عدالتوں کی جانب سے مل رہا ہے۔

تاریخی لحاظ سے مستقل اسٹیبلشمنٹ یعنی فوج اور عدلیہ نے ہمیشہ متحد ہو کر کام کیا ہے۔ موجودہ بحران میں ان دونوں کے بیچ ایک واضح خلیج نظر آ رہی ہے۔ اگلے چند ہفتوں میں ‘نظام’ کے اندر پیدا ہونے والی تقسیم کے مزید شدید ہونے کا امکان ہے۔ اس رسہ کشی میں جو جیتے گا مستقبل کی باگ ڈور اسی کے ہاتھ میں ہوگی۔


رضا رومی کا یہ مضمون The Friday Times میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کر کے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔

Tags: ازخود نوٹسبنچ فکسنگپاک فوجپاکستانی اسٹیبلشمنٹپاکستانی عدلیہسپریم کورٹ آف پاکستانسیاسی عدلیہعدالتی ریلیفملٹری اسٹیبلشمنٹ
Previous Post

پی ٹی آئی نے علی بلال کے قتل کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کر دیا

Next Post

عمران خان نے علی بلال کی موت پر پنجاب حکومت کا موقف مسترد کر دیا

رضا رومی

رضا رومی

مصنّف نیا دور میڈیا کے مدیرِ اعلیٰ ہیں۔ اس سے قبل وہ روزنامہ ڈیلی ٹائمز اور فرائڈے ٹائمز کے مدیر تھے۔ ایکسپریس اور کیپیٹل ٹی وی سے بھی منسلک رہ چکے ہیں۔

Related Posts

پختون سرزمین کو میدان جنگ بنانے والے لاہور میں صوفی محمد کے ایک ساتھی کی موجودگی پر گھبرا گئے

پختون سرزمین کو میدان جنگ بنانے والے لاہور میں صوفی محمد کے ایک ساتھی کی موجودگی پر گھبرا گئے

by طالعمند خان
مارچ 20, 2023
0

اگر لڑ نہیں سکتے تو لڑائی مول کیوں لیتے ہو؟ آج کل پنجابی اسٹیبلیشمنٹ اور اس کے سویلین اشرافیہ کے دو دھڑوں...

پاکستانی تارکین وطن عمران خان کو مسیحا مانتے ہیں

پاکستانی تارکین وطن عمران خان کو مسیحا مانتے ہیں

by ارسلان ملک
مارچ 21, 2023
0

حالیہ مہینوں میں میں نے امریکہ میں اپنے ہم وطن پاکستانیوں کے ساتھ پاکستانی سیاست اور معیشت سے جڑی غیر یقینی صورت...

Load More
Next Post
عمران خان نے علی بلال کی موت پر پنجاب حکومت کا موقف مسترد کر دیا

عمران خان نے علی بلال کی موت پر پنجاب حکومت کا موقف مسترد کر دیا

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

by شاہد میتلا
مارچ 22, 2023
1

...

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

by ہارون خواجہ
مارچ 18, 2023
1

...

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

by رضا رومی
مارچ 20, 2023
0

...

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

by مزمل سہروردی
مارچ 15, 2023
0

...

جنرل فیض حمید

نواز شریف کو نکالنے کے ‘پروجیکٹ’ میں باجوہ اور فیض کے علاوہ بھی جرنیل شامل تھے، اسد طور نے نام بتا دیے

by نیا دور
مارچ 14, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In