معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟
غیر معمولی حد تک ہونے والی لوڈشیڈنگ ملک بھر میں کارخانوں اور کاروباروں کی بندش کا باعث بنی ہے جس سے بڑے پیمانے پر بے روزگاری اور شہری بدامنی پیدا ہوئی جو فیصل آباد اور کراچی سے شروع ہو کر گوجرانوالہ، سیالکوٹ اور گجرات کے تکون کی شکل میں موجود سنہرے شہروں تک پھیل گئی اور بالآخر اس نے لاہور میں ایک کشیدہ صورت حال کو جنم دیا۔ فوجی قیادت نے سپریم کورٹ کے ججوں کے ساتھ مل کر ہنگامی بنیادوں پر خود انحصاری کا منصوبہ شروع کرنے کے لیے نگران وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ سے ملاقات کی۔ نگران وزیر اعظم نے کہا کہ ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ ہم اپنے قدموں پہ کھڑے ہونے کا طریقہ سیکھیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر سابقہ حکومتیں مناسب منصوبہ بندی کرتیں تو ملک آج جس صورت حال سے دوچار ہے اس سے کبھی ہمکنار نہ ہوتا۔

وزیراعظم نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنی 16 رکنی کابینہ کے ناموں کا اعلان کیا جس میں 5 بیرون ملک مقیم پاکستانی اور 4 خواتین شامل ہیں۔ انہوں نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں ذرا برابر وقت ضائع نہیں کیا جس میں انفراسٹرکچر میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے تاکہ 'حکمرانی' کرنے کے لیے ڈیزائن کیے گئے زوال پذیر طرز حکمرانی کے ڈھانچے کو 'خدمت' پر مرکوز جدید نظام میں تبدیل کیا جا سکے۔ 'پاکستان پلان' کی ترجیح عوام پر بھاری سرمایہ کاری کرنا اور بنیادی ضروریات کو ان کی دہلیز تک پہنچانا تھا۔ وزیر اعظم نے پہلے چار عناصر کو زیادہ جھکے ہوئے پھل جیسا قرار دیا جن سے متعلق تبدیلی کی امید کے ساتھ فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ ان میں سول سروس ریفارمز شامل ہیں تاکہ نوآبادیاتی دور کے بیوروکریسی کے نظام کو ایک نئے اور مستقبل پر نظر رکھنے والے ڈھانچے میں تبدیل کیا جا سکے جو مطابقت اور اہلیت کی بنیاد پر قائم ہو۔ موجودہ بیوروکریسی کو ماہر گروہوں میں تقسیم کیا جائے گا جس میں ہر بیوروکریٹ کو یہ فیصلہ کرنے کا موقع ملے گا کہ وہ کس شعبہ میں جانا چاہتے ہیں۔ یہ محکمے اپنے افسران کو کیریئر کا راستہ فراہم کریں گے۔

آبادی پر قابو پانے کے شعبے میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے غیر منافع بخش اداروں کے موجودہ ملک گیر انفراسٹرکچر کو فوری طور پر متحرک کرنا اور منظم کرنا بھی شامل ہے تاکہ اگلے تین سالوں میں آبادی کی شرح میں اضافے کو 1 فیصد سے کم کیا جایا جا سکے۔ مزید براں چیف جسٹس کی سربراہی میں عدالتی اصلاحات، مقدمات کو نمٹانے اور فیصلوں کے معیار کی نگرانی کا نظام متعارف کرانے پر توجہ مرکوز کی گئی۔ قانون کی پریکٹس کرنے کا لائسنس حاصل کرنے کے لیے داخلے کے عمل کو ہموار کرنے کے ساتھ ساتھ عدالتی تقرریوں کے لیے ایک نیا معیار بنانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان بجٹ کی دستاویز کو مزید بامعنی، درست اور مفید بنانے کے لیے اسے دوبارہ سے لکھا جائے گا۔

وزیر خزانہ جو خود ایک معروف صنعت کار ہیں، ان کی معاونت کے لئے نگران حکومت نے تین ٹیمیں ترتیب دے دی ہیں۔ پہلی ٹیم چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس، معروف تاجروں اور بینکرز پر مشتمل تھی۔ دوسری میں ماہر معاشیات پروفیسر شہاب حسن خان، ڈاکٹر یاسر بنگالی اور دیگر شامل تھے جنہوں نے کثیر الجہتی ایجنسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس کے بعد ماہرین اقتصادیات پر مشتمل تیسری ٹیم میں ڈاکٹر کامران شاہ، زبیر یونس اور رمیز پاشا شامل ہیں اور یہ ٹیم آئی ایم ایف کے ساتھ تعلقات کو پھر سے استوار کرنے کے معاملات دیکھ رہی ہے۔ 'ہمیں ہر آئیڈیا اور امکان پر کام شروع کرنا ہوگا،' وزیر خزانہ نے تینوں ٹیموں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اور یہ بھی کہ ہمیں ایک دوسرے کی صلاحیتوں پر تنقید کرنے کے بجائے مسائل کے حل تجویز کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہئیے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ 'ہمیں ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہئیے۔'

سفارتی ہنگامہ آرائی کے سلسلے میں وزیر خارجہ نے واشنگٹن ڈی سی کا اپنا دورہ مکمل کیا اور اپنے ہم منصب امریکی وزیر خارجہ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے پاکستان کو ایرانی تیل حاصل کرنے کی پابندی سے چھوٹ دلوانے میں مدد کی اور دو طرفہ اور تجارتی قرضوں کی تنظیم نو حاصل کرنے کے لئے جی سیون ممالک کے سامنے پاکستان کی حمایت کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ وزیر خارجہ اب اس امید کے ساتھ تہران جا رہے تھے کہ مقامی کرنسی میں رعایتی نرخوں پر تیل اور گیس کی فراہمی، بارٹر سسٹم پر تجارت اور دیگر باہمی طور پر موزوں تخلیقی آپشنز پر کوئی معاہدہ کیا جائے گا۔

دریں اثنا وزارت خزانہ کے حکام اپنے چینی ہم منصبوں کے ساتھ بند کمروں کے پیچھے ملاقاتیں کر رہے تھے تاکہ آئندہ قرضوں کی ادائیگیوں کا بندوبست کیا جا سکے۔ خبر آئی تھی کہ وزارت خزانہ بھی خاموشی سے ان کے ساتھ مل کر طویل مدت میں معاف کیے جانے والے قرضوں کی تنظیم نو کے لیے کام کر رہی ہے۔

ایک پریس کانفرنس میں وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان کو بے پناہ وسائل سے نوازا گیا ہے۔ 'غیر ملکی زرمبادلہ کی آمدنی سے زیادہ مالیت کی چیزیں درآمد کرنا اور جو ہم ٹیکسوں میں جمع کرتے ہیں اس سے زیادہ خرچ کرنے جیسی عیاشیاں ہم مزید برداشت نہیں کر سکتے'۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے بجٹ میں 25 فیصد کمی کے بعد یکجہتی کے اظہار کے طور پر مسلح افواج نے رضاکارانہ طور پر دفاعی بجٹ میں 20 فیصد کٹوتی کا اعلان کر دیا جس کے بعد سپریم کورٹ کی جانب سے بھی اسی طرح کے عزم کا اظہار کیا گیا۔

وزیر خزانہ نے فوری طور پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی مکمل تنظیم نو کا اعلان کیا جبکہ موجودہ ٹیکس دہندگان سے 10 لاکھ روپے یا اس سے زیادہ آمدنی یا کارپوریٹ ٹیکس ادا کرنے والوں سے نمٹنے کے اختیارات بھی واپس لے لیے۔ یہ ٹیکس دہندگان خود تشخیص کے معیار میں شامل ہوں گے اگر انہوں نے پچھلے سالوں کے ٹیکس کے مقابلے میں 10 فیصد زیادہ ٹیکس ادا کیا ہو۔ ان ٹیکس دہندگان کو خدمات فراہم کرنے کے لیے ایک نیا پیشہ ور اور مستعد محکمہ تشکیل دیا جا رہا ہے۔ موجودہ ایف بی آر کا دائرہ کار صرف اور صرف نئے ٹیکس دہندگان کو تلاش کرنے اور ان کو فہرست میں شامل کرنے تک محدود کیا گیا تھا جو کہ رواں سال میں 20 لاکھ تھے اور ایسے لوگوں کو پکڑنے کے لیے جو اپنا واجب الادا ٹیکس ادا کرنے کو تیار نہیں تھے۔ ایف بی آر کے اہلکاروں کے لیے سخت سزائیں متعارف کرائی گئی ہیں جو ٹیکس دہندگان کو ہراساں کرنے یا ان سے کسی قسم کا کرایہ وصول کرنے میں ملوث پائے جائیں گے۔

ملکی منڈیوں میں ہنگامہ آرائی کی وجہ سے ایک امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 600 تک جا پہنچی۔ ملک میں زرمبادلہ کی دستیابی کے بارے میں غیر یقینی صورت حال کے پیش نظر درآمدات اور برآمدات بڑی حد تک منجمد ہو گئیں۔ اس دوران ترسیلات زر کا سلسلہ جاری رہا اور درحقیقت اس میں سالانہ 20 فیصد اضافہ ہوا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مایوسی کے عالم میں امید کی کرن یہ ہے کہ پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر میں اضافے کا امکان ہے۔ آنے والے دنوں میں طے ہے کہ روپے پر دباؤ کم ہو گا اور توقع ہے کہ یہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں مزید مساوی برابری کی طرف واپس آئے گا۔ اس دوران حکومت نے زندگی بچانے والی ادویات کے لیے درکار خام مال کے ساتھ ساتھ پاور پلانٹس کو فعال رکھنے کے لیے درکار اہم مشینری کی درآمد کے لیے ایک خصوصی پیکج کا اعلان کیا۔

وزارت خزانہ نے فوری طور پر تمام سبسڈیز واپس لینے کا اعلان کیا اور منڈیوں کو آزادانہ طور پر کام کرنے کی اجازت دی جبکہ وزیر داخلہ سے درخواست کی کہ وہ سمگلروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کریں جو اشیائے خورونوش کی قلت اور مہنگائی کا سبب بن کر مارکیٹ کے نظام میں خلل ڈال رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے مختص کردہ رقم میں 300 ارب روپے کا اضافہ کیا گیا تاکہ ان لوگوں کی مدد کی طرف توجہ دی جا سکے جو معاشی طور پر خراب صورت حال سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔

ملک میں ضرورت کے مقابلے میں بجلی پیدا کرنے کی مقامی صلاحیت محض 40 فیصد ہے۔ تمام ہائیڈرو پاور، تھر کول، نیوکلیئر، ونڈ اور سولر پلانٹس کو ہائی الرٹ پر رکھا گیا ہے تاکہ ان کے آپریشن کو یقینی بنایا جا سکے۔ وزیر اعظم نے عوام سے اپیل کی کہ وہ غیر ضروری لائٹس اور آلات کو بند رکھا کریں اور زیادہ سے زیادہ توانائی کو بچائیں۔ وزارت توانائی نے چینی انجینئرز کے ساتھ مل کر تھر کول اور کوسٹل ونڈ ٹربائنز کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کے لیے مقررہ وقت سے زیادہ دیر تک کام کرنا شروع کر دیا تاکہ درآمدی ایندھن پر ملک کا انحصار کم کیا جا سکے۔ کان کنی کے شعبے میں چینی تعاون بھی حاصل کیا گیا تاکہ ملک کے وسیع معدنی وسائل جیسے تانبا، سونا اور لوہا کی درآمد سے ملکی ضرورت پوری کی جا سکے اور ان کی درآمد میں کمی لائی جا سکے۔

وفاقی وزیر توانائی نے علیحدہ طور پر بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے تمام سٹیک ہولڈرز کا ایک اجلاس بلایا اور علاقوں میں صارفین کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے تحصیلوں اور قصبوں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے بڑے یونٹس کو فوری طور پر چھوٹے یونٹس میں تقسیم کرنے پر اتفاق ظاہر کیا۔ وزیر توانائی نے گردشی قرضوں کے مسئلے پر قابو پانے، کارکردگی بڑھانے اور مسابقت پیدا کرنے کے مقصد سے نیلامی کے شفاف عمل کے ذریعے ان چھوٹے یونٹس کو فوری طور پر نجی شعبے کے سپرد کرنے پر زور دیا۔

حکومت کے اندر موجود باخبر ذرائع نے انکشاف کیا کہ کابینہ سیکرٹری کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ تمام موجودہ اضلاع کو صوبوں کا درجہ دینے کی تجویز پر کام شروع کریں۔ اس طرح ملک میں 123 صوبے بنانے کے لیے راہ ہموار ہو گی۔ معلوم ہوا ہے کہ کابینہ 90 دنوں میں ان نئے صوبوں میں انتخابات کے انعقاد کا اعلان کرے گی۔ بظاہر اس سے ملک میں مزید صوبے بنانے کا مسئلہ حل ہو جائے گا اور یہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے متبادل کے طور پر بھی کام کرے گا۔ ذرائع نے دعویٰ کیا کہ کابینہ یہ محسوس کرتی ہے کہ یہ اقتدار کو نچلی سطح تک منتقل کرنے اور حکومت کو خدمات کی فراہمی کے قریب لے جانے کا بہترین طریقہ ہے جبکہ اس اقدام سے ملک کے لئے مستقبل کی قیادت کو تیار کرنے کی راہ بھی ہموار ہو گی۔

لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2001 میں مجوزہ پولیس اصلاحات جو 1861 کے پولیس ایکٹ کو ختم کرنے کے لئے متعارف کروائی گئی تھیں، ان اصلاحات کو نافذ کرنے کے لیے مرکزی وزیر داخلہ نے ایک پریس کانفرنس کی۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ پولیس شہریوں کی زندگی اور آزادی کی محافظ ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو، ہر صوبائی پولیس فورس کو صوبے کے شہریوں پر مشتمل ایک حفاظتی کمیشن کے ذریعے چلایا جائے گا۔

چین سے تعلق رکھنے والے زرعی ماہرین زراعت کے طریقوں، ان پٹ اور آلات میں مدد کے لیے صوبائی دارالحکومتوں میں پہنچ چکے ہیں۔ وزارت زراعت نے پاکستانی زرعی تنظیموں اور ممتاز ماہرین زراعت کے ساتھ براہ راست گورنمنٹ ٹو بزنس مین اور بزنس مین ٹو بزنس مین رابطوں کے قیام میں سہولت فراہم کی۔ ملک کی مجموعی زرعی پیداوار بڑھانے پر بھرپور توجہ دی جا رہی ہے تاکہ ملک گندم، کپاس، سبزیوں، سبزیوں کے تیل، چائے، دالوں، ڈیری مصنوعات اور مویشیوں کی پیداوار میں خود کفیل ہو سکے۔ وزیر زراعت نے امید ظاہر کی کہ اگلی فصل کے سیزن سے مثبت نتائج نظر آنے شروع ہو جائیں گے۔ زرعی پیداوار میں اضافے سے ان لاکھوں لوگوں کے لیے خاطر خواہ روزگار پیدا ہونے کا بھی امکان ہے جو ملک کی بگڑتی ہوئی معاشی صورت حال کے نتیجے میں شہروں کو چھوڑ کر اپنے گاؤں کا رخ کر چکے ہیں۔

وزیر اعظم نے تعلیم اور ہنر کے شعبے میں سرمایہ کاری کے ایک بڑے پیکج کا اعلان کیا جبکہ اساتذہ سے درخواست کی کہ وہ طلبہ کی علمی سوچ کو ترویج دینے کے لیے پڑھائیں۔ 'سوال کرنے کی صلاحیت بچے کے لیے سیکھنے اور دریافت کرنے کا بہترین طریقہ ہے'۔ ہنر اور مہارتوں کے شعبے میں ترقی کے لئے چینی ماہرین کے ساتھ ساتھ جرمنی کے GIZ اور برطانیہ کے سٹی اینڈ گلڈز کے ساتھ ایک جامع شراکت داری منصوبے پر دستخط کیے گئے ہیں۔ اس شراکت داری کا مقصد پہلے سال میں 10 لاکھ پاکستانیوں کو ہنرمندی کی تربیت دینا ہے جن کی تعداد 5 سالوں میں بڑھ کر 1 کروڑ تک پہنچ جائے گی۔

اس کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم نے روزگار پیدا کرنے کے لیے ایک بڑے انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ منصوبے کا اعلان کیا جس میں پنڈ دادن خان، گوادر، خیرپور، نیا لاہور، نیا کراچی اور نیا پشاور نام کے 6 نئے شہروں، 30 نئے صنعی مراکز اور کم آمدنی والے خاندانوں کے لیے 5 لاکھ سستے گھروں کی تعمیر شامل ہے۔ بینکوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ قومی تعمیر نو میں حصہ لیں اور ان اہداف کو حاصل کرنے میں معاون ثابت ہونے والی ڈیوائس پراڈکٹس متعارف کروائیں جبکہ بینکوں کو رضاکارانہ طور پر شرکت کی طرف راغب کرنے کے لیے انہیں ٹیکسوں میں چھوٹ جیسی مراعات کی پیش کش بھی کی گئی ہے۔ ان اقدامات سے 20 لاکھ ملازمتیں پیدا ہونے سے معاشی بدحالی سے دوچار اور خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی بندش کی وجہ سے پیدا ہونے والی بے روزگاری کو ختم کیا جا سکے گا۔ علیحدہ طور پر اظہار دلچسپی حاصل کرنے کے لیے اشتہار شائع کیے گئے تھے جن میں ان سرکاری اداروں کی مکمل فروخت، شیئرز کی فروخت یا انہیں نجی کمپنیوں کے حوالے کیے جانے سے متعلق تجاویز طلب کی گئی تھیں۔

وزارت صحت کی جانب سے یہ خبر آئی کہ انہوں نے پورے ملک میں 1000 موبائل ہیلتھ یونٹس متعارف کرانے کا منصوبہ بنایا ہے تاکہ انہیں پہلے سے قائم اور غیر فعال بنیادی مراکز صحت کا متبادل بنایا جا سکے۔ مزید براں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی بنیاد پر تمام ضلعی ہسپتالوں کو ٹیچنگ اداروں میں تبدیل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ ہیلتھ انشورنس سکیم کو بھی بحال کر دیا گیا اور اسے پورے پاکستان میں متعارف کرایا جائے گا۔

ریلوے کی وزارت کو بھی جھنجھوڑا گیا اور ملک میں ریلوے کے نظام کو نئے سرے سے ٹھیک کرنے کے لیے کام شروع کر دیا گیا ہے۔ 1961 میں 12,000 کلومیٹر سے سکڑ کر 9,000 کلومیٹر رہ جانے والی ریلوے لائنوں کی دوبارہ سے تعمیر اور توسیع کی جائے گی۔ مال بردار ٹرینوں کو دوبارہ سے پٹڑیوں پر لانے پر توجہ دی جائے گی تاکہ سڑکوں پر پڑنے والے بوجھ کو ٹرینوں پر منتقل کیا جا سکے۔

مارچ 2023 میں اوپر بیان کردہ یہ ساری منصوبہ بندی خیالی نظر آتی ہے۔ تاہم یہی وہ وقت ہے جب مذکورہ مںصوبے پر عمل درآمد شروع کیا جائے۔ درج بالا اقدامات میں سے کچھ بھی کم ہوا تو ملک ایک ایسے چکر میں پھنس کے رہ جائے گا جو بے حد تکلیف دہ ثابت ہو گا۔ جب ہمیں ٹھیک ٹھیک طور پر معلوم ہے کہ کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے تو اس کے بعد کوئی بہانہ نہیں چلے گا۔ اس منصوبے کا متبادل یہ ہے کہ ہم جو پہلے کر رہے ہیں وہی کچھ کرنا جاری رکھیں اور پہلے سے مختلف نتائج کی توقع باندھ کے بیٹھ جائیں۔ تاہم یہ صحیح معنوں میں ہمارا پاگل پن ہوگا۔




ہارون خواجہ کا یہ مضمون The Friday Times میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کر کے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔

مصنف ماہر معاشیات اور گورننس ہیں۔ یہ سابق مشیر برائے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب رہ چکے ہین اور پاکستان فریڈم موومنٹ کے چیئرمین ہیں۔