پی ٹی آئی والوں کو تشدد اور ناانصافی تبھی نظر آتی ہے جب ان کے اپنے ساتھ ہو

پی ٹی آئی والوں کو تشدد اور ناانصافی تبھی نظر آتی ہے جب ان کے اپنے ساتھ ہو
یہ اُس کے لیے بھی جواب ہے جو ہر پارٹی سے ہو کر پی ٹی آئی میں شامل ہوا اور آج شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بن رہا ہے۔ اور یہ جواب اُن سب کے لیے بھی ہے جن کے لیے ریاستی جبر اپریل 2022 میں شروع ہوا ہے۔ میں سمجھ سکتی ہوں کہ پی ٹی آئی کے لیے اپریل 2022 میں جبر شروع ہوتا ہے جب ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا (جیسا کہ سیاسی تاریخ بھی 2008 سے شروع ہوتی ہے اور آمر جنرل مُشرف کے تمام سیاسی سہارے اور آمر جنرل ایوب اور جنرل ضیاء کی اوّل اولادیں پی ٹی آئی کا حصہ ہیں) لیکن براہِ کرم میری ٹائم لائن پر مجھے نہ بتائیں کہ کس چیز کی مذمت کرنی ہے، کیسے مذمت کرنی ہے اور کس کے لیے آواز اٹھانی ہے۔ میں آپ سے بہت بہتر یہ جانتی ہوں کیونکہ پچھلے چار سال جب آپ فوج کے cheerleaders بن کر ان کے ہر ظلم کا دفاع کر رہے تھے تو مجھ جیسے لوگ اس جبر کے خلاف مزاحمت کر رہے تھے۔

اس وقت آپ بوٹ پالش کرنے اور فوج کی طرف سے ہر زیادتی کا جواز پیش کرنے میں مصروف تھے۔ اب آپ کی ہمت کیسے ہوئی کہ آ کر ہمیں لیکچر دیں؟ آپ کو لگتا ہے کہ آپ بہتر جانتے ہیں کیونکہ آج آپ پہلی دفعہ ریاستی زیادتیوں کے receiving end پر ہیں؟ آپ کچھ نہیں جانتے کیونکہ آپ کی تاریخ اپریل 2022 میں شروع ہوتی ہے۔ آرام سے بیٹھ جائیں اور اپنی متکبرانہ سوچ اور رویے کا اظہار کرنا بند کریں۔ آپ کو نہ تو اصول کی سمجھ ہے اور نہ انسانی حقوق کی سمجھ۔

آپ آج بھی اپنے ورکرز کے لیے تو شور شرابہ مچا رہے ہیں لیکن بلوچستان میں ہونے والے ظلم پر خاموش ہیں۔ اگر حسّان نیازی بند ہے تو فیروز بلوچ کی جبری گمشدگی کو بھی ایک سال ہونے والا ہے۔ اظہر مشوانی لا پتہ ہے تو ماہل بلوچ کو پہلے لا پتہ کر کے اس کے خلاف آج بھی جھوٹا مقدمہ قائم کیا گیا۔ مُدثر نارو بھی 2018 سے لاپتہ ہے جس کے بوڑھے والدین سے آپ کے وزیرِ اعظم عمران خان نے کورٹ کے حُکم پر مُلاقات میں پوچھا تھا کہ آپ کا بیٹا کیوں لا پتہ کیا تھا؟ ایجنسیاں تو صحافیوں کو دو چار تھپڑ لگا کر چھوڑ دیتی ہیں اور راشد حسین کا خاندان بھی اس کی بحفاظت بازیابی کا منتظر ہے۔

ظلم صرف آپ کے ساتھ نہیں ہو رہا اور ظلم اپریل 2022 میں نہیں شروع ہوا۔ اس سب میں سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ آپ کا غرور ابھی بھی نہیں ٹوٹا اور آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو ان لوگوں کو لیکچر دینے کا حق ہے جو بہت پہلے سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ریاستی جبر کو اجاگر کرنے کے لیے اپنی زندگیاں خطرے میں ڈالتے رہے ہیں۔ اپنے طریقے بدلو اور اس تکبر سے جان چھڑاؤ۔ ہم اس طرح تنقید نہیں کریں گے جس طرح آپ تنقید کروانا چاہتے ہیں۔ آپ کی حکومت نے پی ٹی ایم اور بلوچ طالب علموں کے ساتھ جو کچھ کیا اس پر معافی مانگنے کے لیے آپ کے پاس شرم یا شائستگی بھی نہیں ہے۔ لیکن ہمیں لیکچر دینے کی ڈھٹائی ہے؟

ہم کل بھی جبر کی مُذمت کرتے تھے جب آپ ریاستی ہتھکنڈے استعمال کر رہے تھے اور آج بھی مُذمت کرتے ہیں جب پی ڈی ایم کے ہاتھوں ریاستی جبر کا نشانہ آپ بن رہے ہیں۔

Change yourselves before lecturing those who stood against this long before you woke up.

ایمان زینب مزاری وکیل ہیں اور انسانی حقوق کے لئے آواز اٹھاتی ہیں۔