ٹی وی ٹکر برانڈ انصاف سے بات اب ٹک ٹاک فیصلوں تک آن پہنچی ہے

ٹی وی ٹکر برانڈ انصاف سے بات اب ٹک ٹاک فیصلوں تک آن پہنچی ہے
مانیں نہ مانیں، اگر کوئی اس وقت عمران خان کے بھوت کو کنفرنٹ کر رہا ہے تو وہ ریٹائرڈ جنرل باجوہ ہی ہیں۔ مقابلے کے باقی سیاسی لیڈرران تو نقار خانے میں طُوطی کی آواز ثابت ہو رہے ہیں، چاہے وہ گلا پھاڑ کر بولیں یا لندن سدھار کر۔ باجوہ صاحب اب ہاتھ کے اشارے سے اپنی پسند کے صحافی کو بلاتے ہیں، جیسے کچھ عرصہ قبل تک جب وہ وردی میں تھے سیاست دانوں کو بلایا کرتے تھے۔ آف کیمرہ مورچہ بند ہو کر وہ 'دوستانہ' انٹرویو میں خوب گولہ باری کرتے ہیں، اور اپنے مخالفین اور بد خواہوں کی ایسی تیسی پھیرنے کے بعد 'بوقتِ منصور' مُکر بھی جاتے ہیں۔ رہی بات صحافی اور اینکر کی، تو وہ بے چارہ ایسی کہہ مکرنیوں پر تلملائے گا نہیں اور کیا کرے گا!

اندازہ لگائیں کہ عمران کے علاوہ حکمرانوں سمیت بڑے بڑے جغادری لیڈرز کی پریس اور عوامی ٹاکس بھی چُوں چُوں ثابت ہو رہی ہیں جبکہ باجوہ ریٹائرڈ ٹاکس مین سٹریم پر ایسے چھاتی ہیں کہ ہر کوئی اس میں سے اپنی پسند یا نا پسند کے 'موتی' تلاش کرنے لگ جاتا ہے۔ ایک ایک پرت الگ الگ بحث کی متقاضی بن جاتی ہے۔ میتلے کو دیے گئے انٹرویو کے 'دبنگ' پارٹ ٹو کا سب کو بے چینی سے انتظار تھا اور اب جبکہ اس کی ایک اور تہلکہ خیز رونمائی ہوئی ہے تو کوئی اس میں باجوہ کی شہہ زوریوں کا ذکر کرے گا، کوئی پلے بوائے کہے جانے کے باوجود عمران کی اکڑ اور وزیر اعظم کی بے عزتی کے باوجود ماتھے پر شکن یا غیرت نہ آنے کا بولے گا۔ دھیمی لے میں سلمان شہباز کی دُڑکیوں کا ذکر ہوگا، تو کچھ تیز لے میں باجوہ کو شٹ اپ کال دینے کا بولیں گے۔

دیکھا جائے تو اس انٹرویو میں اکثر و بیشتر باتیں وہی ہیں جو زبان زد عام ہو چکی ہیں اور ان میں سے اکثر کا ذکر جاوید چودھری کے ساتھ بیٹھک میں آ چکا ہے۔ البتہ سب سے حیرت انگیز اور 'نیا تڑکہ' اس میں دور حاضر کے کچھ ججز کے بارے میں مسنوب اور مشہور باتوں کا باجوائی ٹھپہ ہے۔ بلکہ فیصلوں کے اثرات پر انہوں نے فیس بک اور ٹوئٹر جیسی نسبتاً سیاسی اور اشتہاری کے مقابلے میں 'ڈرامائی' ٹک ٹاک کی جو 'ایپ' لگائی ہے، ایسا استعارہ تو ابھی تک 'ترازو کے برابر پلڑے' والوں کو بھی نہیں سوجھ سکا۔

سابق آرمی چیف کے مطابق 'بڑے' جج اصل میں اتنے 'ہلکے پھلکے' ہیں کہ اپنی فیملیوں اور ساتھی ججز کی پسند کو دیکھ کر فیصلے کرتے ہیں۔ 'قنونی' مطلب اس کا یہ ہے کہ منصفین 'ٹاک' دیکھ کر فیصلوں پر ٹک کر رہے ہیں۔ جس کے فالورز زیادہ، اس کی ٹاک زیادہ اور پھر 'جنت مرزا' کے حق میں ٹِک زیادہ۔۔۔

ابھی کچھ روز قبل عزت مآب چیف جسٹس نے کورٹس میں ٹیکنالوجی کے استعمال پر زور دیا تھا کہ ویڈیو کال پر بھی ملزم لیے جا سکتے ہیں، اس کے ساتھ ہی سابق وزیر اعظم نے بھی اپنی جان کے خطرے کے پیش نظر اسی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ اس میں تال میل کے شک کی گنجائش نہیں، شاید ٹیکنالوجی ایک ساتھ دونوں پر وارد ہوئی ہو۔ لگتا ہے کہ اسی ہم آہنگ ٹیکنالوجی کو 'سپاہیانہ' آنکھ نے پکڑ لیا ہے جس کے مطابق اکثر فیصلوں کی بنیاد پاپولیرٹی ہوتی ہے نہ کہ قانونی بنیادیں۔۔۔

پوری عدالتی تاریخ میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جہاں کیسز مین سٹریم پر آ جائیں وہاں انصاف کا ہتھوڑا بڑی زور کا بجتا ہے۔ ساتھ ہی ججز کی اہمیت اور مشہوری بھی دوچند ہو جاتی ہے اور وہ اپنے آپ کو سیاسی کھلاڑی حتیٰ کہ ہیرو سمجھنے لگتے ہیں۔ پہلے اخبار کی شہ سرخیوں میں ہوتے تھے تو پھر پردہ سکرین پر رننگ کمنٹری چلنے لگی؛ اب جی چیمبر سے نکلے، اب کرسی پر بیٹھ رہے ہیں، اب یہ نوٹ (ڈائیلاگ) دیا ہے۔ سسیلیئن مافیا جیسے چیمبر ڈایئلاگز اسی پردہ زریں کی یاد گار ہیں۔ اور اب سوشل میڈیا کے ظہور کے بعد بقول باجوہ بات اب ٹک ٹاک پر آ چکی ہے کہ 'چھوڑوں گا نہیں' کلپس کے ساتھ کرش پر سونگز کے کروڑوں اور ذاتی فالورز ہوتے ہیں تو پھر کون انصاف کا مائی باپ متاثر نہیں ہو گا۔

ہاں اگر کیسز میں 'رنگینی' نہ ہو تو بھلے ان کے انبار لگتے جائیں، یہ کچرے اور ردی میں ہی جاتے ہیں۔ نسلوں بعد جھاڑ پھٹک کر فیصلے ہو جائیں تو ہو جائیں ورنہ بھلے سے مقدمات کا مجمع لگا رہے اور 140 میں سے 139 ویں نمبر کا ٹھٹھا اڑتا رہے۔۔۔ سانوں کی!

امید ہے کہ معزز سپریم عدالت اس 'بغیر' سند کے ہلکے پھلکے انٹرویو کا نوٹس نہیں لے گی اور خود کو اپنی آڈیو لیکس کی 'حفاظت' اور ان کے بارے میں سخت انتباہ تک محدود رکھے گی۔ اگر نوٹس لے لیا تو یہ بھی عمران خان کے کھاتے میں جائے گا۔ 'دیکھا! خان نے تاریخ میں پہلی دفعہ اداروں کے مابین بھی فٹ بال میچ شروع کروا دیا ہے۔'

مصنف منصور ریاض ملکی اور بین الاقوامی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں