جوڈیشل ایکٹوازم اور دیگر ایڈونچرز کے منہ پر بند باندھنا ناگزیر ہو چکا

جوڈیشل ایکٹوازم اور دیگر ایڈونچرز کے منہ پر بند باندھنا ناگزیر ہو چکا
ضیائی مارشل لاء کے بعد ایک کتاب نے بڑی شہرت حاصل کی جس کے مصنف تھے مولانا کوثر نیازی مرحوم اور نام تھا 'اور لائن کٹ گئی'۔ اب اس طرح کی کتاب تو نہیں سامنے آئی مگر ایک مکمل کتاب جتنی وزنی پیش رفت ہو کر شہرت دوام حاصل کر چکی اور اس پیش رفت کا نام ہے 'اور بنچ ٹوٹ گیا'۔ اور یہ محض مذاق میں کہا گیا جملہ نہیں بلکہ حالات کی سنگینی کا اشارہ ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ سپریم کورٹ کے اندر اور سپریم کورٹ اور پارلیمان کے مابین تقسیم اور خلیج کتنی شدید اور گہری ہو چکی ہے۔

یہ تو سب کو اندازہ ہے کہ ہو کیا رہا ہے مگر یہ کوئی نہیں جانتا کہ یہ اونٹ بیٹھے گا کس کروٹ؟ مگر سوال کے جواب کو تلاش کرنے کے لئے ماضی کے جھروکوں میں جھانک کر مستقبل کا اندازہ لگانا ہو گا۔

پارلیمان کی یہ شکایت بجا ہے کہ عدلیہ اور غیر جمہوری قوتیں اس کے اختیارات پر قبضہ جما رہی ہیں لیکن اس میں سب سے زیادہ قصور تو پارلیمان میں بیٹھے ان ایجنٹوں کا ہے جو اپنے ادارے کو کمزور کرنے کا باعث بنتے رہے ہیں۔ ایک زمانے کا میاں نواز شریف کا کنڈکٹ دیکھیں، وہ پیپلز پارٹی کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کا سہارا لیتے اور اسے بینظیر بھٹو صاحبہ کی شکایتیں لگاتے تھے۔ پھر بینظیر اپوزیشن میں آئیں تو انہوں نے بھی وہی کیا لیکن جب دونوں اکٹھے ہوئے تو غلام اسحٰق خان جیسے طاقتور مگر غیر جمہوری رویے کے مالک صدر کو رخصت ہونا ہڑا۔ انہی دونوں نے میثاق جمہوریت کیا تو مشرف کمزور ہوئے اور اسے گھر جانا پڑا۔ پھر 2014 میں عمران خان جب مولانا طاہر القادری کے ساتھ دھرنا لے کر اسلام آباد آئے تو یہ پارلیمان کا ادارہ ہی تھا جس کے مسلسل اجلاس نے وہ نوبت نہ آنے دی جس کی کہ عمران خان اور ان کے پیچھے موجود قوتوں نے توقع لگا رکھی تھی۔

یوں نواز شریف جو ایک وقت میں وزیر اعظم ہاؤس سے اپنا بیش تر سامان لاہور بھجوا چکے تھے، پارلیمان کی طاقت ملنے کے بعد بچ نکلے اور ن لیگ کی حکومت نے اپنی مدت بھی مکمل کی۔ اس سے پہلے نواز شریف کے کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ جانے کے نتیجے میں یوسف رضا گیلانی کو گھر جانا پڑا۔ اس وقت پارلیمان پھر کھڑی ہوئی تو آصف علی زرداری بھی بچ گئے کیونکہ تمام تر دباؤ کے باوجود پارلیمان کی طاقت سے آنے والے وزیر اعظم نے خط لکھنے سے انکار کر دیا تھا۔

عمران خان دھرنے کو اے پی ایس پشاور کے واقعہ کے بعد جلد ختم کرنے پر مجبور تو ہو گئے مگر عدلیہ کی مدد سے نواز شریف کو مشکوک انداز میں کمزور بنیادوں پر سزا دے کر نا اہل کر دیا گیا تاہم پارلیمان میں ان کی اور دیگر جماعتوں کی موجودگی اور پارلیمانی کردار ادا کرتے رہنے کے باعث انہیں مائنس نہیں کیا جا سکا۔

عمران خان تو پارلیمان کو کمزور کرنے میں بہت ہی آگے نکل گئے اور پھر اسی پارلیمان کی قوت کا شکار ہوئے۔ اس تمام عرصے میں عدلیہ پارلیمان پر حاوی ہونے کی کوششیں کرتی رہی اور اکثر اوقات اس میں کامیاب بھی رہی مگر آج اسی پارلیمان کی جانب سے بھرپور کردار ادا کرنے کے فیصلے کے نتیجے میں عدلیہ تقسیم کا شکار دکھائی دے رہی ہے۔

سپریم کورٹ کی جمعرات کے روز ہونے والی کارروائی اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ عدالتی ایکٹوازم اب کمزور ہو رہی ہے اور شاید اسی لئے اب شاہراہ دستور سے پارلیمان کی جانب سے ہلکا ہاتھ رکھنے کی درخواست پیغام رسانی کا سلسلہ بھی شروع ہو رہا ہے لیکن اس درمیان مصدقہ خبر سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب پارلیمان میں موجود حزب اقتدار نے اپنا کردار ادا کرنے اور اختیارات پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے کیونکہ جوڈیشل اور دیگر قسم کے ایڈونچرز اور ایکٹو ازم کے آگے بند باندھنا ناگزیر ہو چکا ہے۔

اعجاز احمد صحافت سے وابستہ ہیں اور کئی دہائیوں سے رپورٹنگ کر رہے ہیں۔