عدلیہ اور حکومت کے مابین جاری چپقلش تازہ اسٹیبلشمنٹی چال معلوم ہوتی ہے

عدلیہ اور حکومت کے مابین جاری چپقلش تازہ اسٹیبلشمنٹی چال معلوم ہوتی ہے
موجودہ سیاسی حالات کو دیکھ کر ہمارے جیسے یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ماتم کریں یا پاپ کارن کا فیملی پیک لے کر تماشہ دیکھیں کیونکہ اقتدار کی لڑائی ایک مرتبہ پھر اسٹیبلیشمنٹ، عدلیہ بھی جس کا حصہ ہے اور سویلین اشرافیہ کے دھڑوں کے مابین ہے لیکن قیمت عوام ہی ادا کر رہے ہیں۔

ملک میں جو تماشہ آج کل لگا ہوا ہے اس نے نا صرف اداروں بلکہ پوری ریاست کا چہرہ و ہئیت بگاڑ کر رکھ دی ہے۔ بہرحال اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ 75 سالوں سے ان طاقتوں نے ڈنڈے کے زور اور تخت یا تختے کے اصول پر ریاست کو چلانے کے نام پر گھسیٹا ہے اور آخرکار ہلکان ہونے کو ہیں۔ شروع ہی سے رولز آف دی گیم یہ طے کیے تھے کہ چادر کے لیے عوام کی کھال دستیاب ہے اور عیاشیوں کے لیے پیسہ دنیا نے ہی دینا ہے اور ہم نے تو صرف بلا احتساب قومی مفادات کے نام پر حکمرانی کرنی ہے۔ جب تک دنیا سے آسان طریقوں سے پیسے ملتے تھے تو اس قسم کے تماشے منظرعام پر نہیں آتے تھے یا بہت کم آتے تھے۔ آج گہرے اور پیچیدہ معاشی بحران اور سوشل میڈیا کے در آنے سے موجودہ ادارہ جاتی چپقلش اور اس کا پیدا کردہ بحران میڈیا اور عوامی سطح پر سنبھالنے اور چھپانے میں نہیں آ رہا۔

لیکن اس ڈرامے کا اہم پہلو یہ ہے کہ جو اس صورت حال کے ذمہ دار ہیں وہ آج بھی معصومیت اور مظلومیت کا لبادہ اوڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

فوج زدہ سیاست کو عدلیہ زدہ سیاست میں تبدیل کرنے یا یوں کہیے کہ فوج کو پیچھے کر کے عدلیہ کو آگے لانے کا عمل افتخار چودھری کو ہیرو بنانے سے شروع ہوا تھا۔ اس کے بعد چیف جسٹس کے عہدے نے تھانیدار کی شکل اختیار کر لی۔ سوموٹو یا ازخود نوٹس اور توہین عدالت اس عہدے کے سب سے بڑے ہتھیار بن گئے۔ افتخار چودھری اور ثاقب نثار دونوں ہی نے اس ہتھیار کا استعمال کم و بیش سرکش تھانیدار کے سے انداز میں کیا۔ بس پھر کیا تھا، جس طرح تھانیدار کسی کو دھمکاتا ہے کہ اندر کر دوں گا، تمہیں فلاں فلاں کیسز میں پھنسا دوں گا اور پھر عمر بھر رلتے رہنا۔ عین اس انداز میں دونوں صاحبان ہر کسی سے پیش آتے تھے۔ حتیٰ کہ بات دو بوتلوں پر نوٹس لینے تک آ گئی۔

وہی جنرل باجوہ والی بات کہ اگر کوئی ساتھی یا ماتحت افسر کئی (اہم) کام آپ کے کہنے پر کرتا ہے تو ایک آدھا پھر اپنا بھی نکال لیتا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کو سیاسی بساط پر ہراول دستے کے طور پر استعمال کرنے کے پروجیکٹ کے لئے اعلیٰ عدالتوں کو میرٹ کے بجائے 'اپنا بچہ ہے' کی بنیادوں پر بھر دیا۔ میں پہلے بھی اپنی تحریروں میں عرض کر چکا ہوں کہ اس عمل کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس شوکت صدیقی، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل جیسے جج یا تو چھان بین اور اندازے کی غلطی کی وجہ سے اعلیٰ عدلیہ میں در آئے یا اس وقت کوئی اور چارہ نہیں تھا اور یا کچھ ججوں جیسا کہ جسٹس منصور علی شاہ کے خیالات بعد میں تبدیل ہوئے۔

تاہم موجودہ چیف جسٹس صاحب یا تو خود اعتمادی کے زعم میں آ گئے، یا پھر دیوار پر لکھا ہوا پڑھنے میں تاخیر یا غلطی کر بیٹھے یا اتنے آگے چلے گئے کہ وہاں سے واپسی ممکن نہ تھی اور صورت حال کو پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچا دیا۔

اس ملک میں ہئیت مقتدرہ کی جانب سے لگائے گئے سیاسی تماشوں اور قلابازیوں کو مدنظر رکھ کر یہ گمان بھی کیا جا سکتا ہے کہ حالیہ تماشہ بھی اسی سکرپٹ کا حصہ ہے۔ اس کی ایک ممکنہ صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو کچھ بین الاقوامی چیلنجز کا سامنا ہے اور وہ اس سے نکلنے کے لئے کچھ اہم فیصلے لینا چاہتی ہے لیکن عوام کی نظروں سے اوجھل ہو کر۔ اس مقصد کے لئے سیاسی اشرافیہ کو ساتھ ملا کر ایک کنٹرولڈ اور مینیج ایبل اندرونی اور بیرونی خلفشار و انتشار پیدا کر کے عوام کو اس طرف مصروف رکھنا چاہتے ہیں۔

اگر ایسا نہیں اور جو کچھ نظر آ رہا ہے وہ حقیقت میں ہو رہا ہے تو پھر عدلیہ کا وہ حصہ جو عدلیہ زدہ سیاسی ماڈل اور اس کے ذریعے ہائبرڈ نظام حکومت لانے کا ذمہ دار تھا وہ ابھی بھی اپنے اس کردار سے پیچھے ہٹنے کو کیوں تیار نہیں ہے اور آخری گولی تک لڑائی جاری رکھنے پر اتر آیا ہے۔

اب اگر فوج واقعی معاشی بحران کی سنگینی کی وجہ سے بطور ادارہ سیاست سے دستبردار یا کم ازکم غیر جانبدار ہو رہی ہے تو فوج کی سیاست سے دوری بعض حلقوں کے سیاسی و معاشی مفادات کے لیے ممکنہ خطرہ بھی ثابت ہو سکتی ہے اور ان کے ماضی قریب کے کرتوتوں اور وارداتوں کی وجہ سے انہیں قانون کی گرفت میں بھی لا سکتی ہے۔ اس قسم کے عناصر کو اپنے اختیارات اور مالی و جانی سلامتی کا احساس (یعنی احتساب سے بچنا) سابق سٹیٹس کو کی بحالی میں ہی نظر آتا ہے۔

اب ان کے لیے قاضی فائز عیسیٰ سب سے بڑا ڈراؤنا خواب بن گیا ہے۔ اگر عمران خان کو واپس لانے کا منصوبہ ناکام ہوتا ہے اور قاضی قاضی القضات مقرر ہو جاتا ہے تو وہ عدلیہ میں صفائی سے لے کر آئین شکنی کے مرتکب افراد، خواہ عدلیہ کے اندر ہوں یا باہر، کے احتساب سے آسانی سے صرف نظر نہیں کرے گا۔

حالات چاہے جو بھی ہیں، ترپ کا پتا ابھی بھی پنڈی والوں ہی کے ہاتھ میں ہے۔ تاہم صورت حال وہاں تک نہیں جانی چاہئیے کہ پنڈی والے یہ پتا اپنے حق میں استعمال کر جائیں اور وہ بھی سیاست دانوں کی درخواست پر۔

اب دیکھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ اللہ کرے کہ اس دنگل میں پیپلز پارٹی ثابت قدم رہے اور ایک بار پھر عین اس وقت سجدے میں نہ گر جائے جب قیام کا وقت آن پہنچا ہو۔

طالعمند خان فری لانس صحافی ہیں اور نیا دور کے لئے لکھتے ہیں۔