جسٹس اطہر من اللہ کے نوٹ نے چیف جسٹس کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا دی؟

جسٹس اطہر من اللہ کے نوٹ نے چیف جسٹس کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا دی؟
سپریم کورٹ آف پاکستان کے اندر جاری 'خانہ جنگی' شدت اختیار کر چکی ہے۔ 4 اپریل کو چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کرانے کی ہدایت کی تھی۔ تاہم اس فیصلے کے جواز پر خود ججوں کے اختلاف رائے نے سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ 25 صفحات پر مشتمل طویل نوٹ میں جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا ہے کہ وہ ازخود نوٹس جس کی بنیاد پر یکم اپریل کا فیصلہ سنایا گیا ہے، اسے بنچ میں شامل ججوں کی اکثریت نے مسترد کر دیا تھا۔

اس نوٹ کے جاری ہونے سے ایک روز پیش تر پارلیمنٹ نے ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے کو اقلیتی فیصلہ قرار دے کر مسترد کیا گیا تھا۔ یہ ایک غیر معمولی پیش رفت تھی۔ ملکی تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ کسی عدالتی فیصلے کو پارلیمنٹ نے اس طرح مسترد کیا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کے نوٹ نے مقننہ کے نکتہ نظر کو تقویت پہنچائی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ کا یہ اہم 'فیصلہ' کچھ روز قبل ان کے ایک ساتھی جج جسٹس منصور علی شاہ کے تحریر کردہ فیصلے کی توثیق کرتا ہے۔ پیغامات بہت واضح ہیں؛ عدالتوں کو متعصب نہیں نظر آنا چاہئیے، عدلیہ کو سیاسی معرکہ آرائیوں سے فاصلہ رکھنا چاہئیے اور چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے انتظام کے تحت چلنے والی سپریم کورٹ آف پاکستان غیر فعال ہو چکی ہے۔ یہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی جانب سے بیان کیے گئے چُبھتے ہوئے مشاہدات ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے تحریر کیا کہ الیکشن کیس میں لیے گئے ازخود نوٹس کے دائرہ اختیار کو بنچ میں شامل 7 میں سے 4 ججز نے مسترد کر دیا تھا اور '27 فروری 2023 کو اینٹ روم میں منعقد ہونے والی میٹنگ میں اس پر اتفاق رائے پایا گیا تھا'۔ جس طرح کا تاثر دیا گیا ہے اس کے برعکس جسٹس اطہر من اللہ نے نہ تو خود بنچ میں بیٹھنے سے معذرت کی تھی اور 'نہ ہی بنچ سے الگ ہونے کی ان کے پاس کوئی وجہ تھی'۔ یہ واضح طور پر چیف جسٹس اور دیگر دو ججوں پر فرد جرم ہے جنہوں نے یکم اپریل کا فیصلہ سنایا تھا۔

اپنے نوٹ میں معزز جج نے ' بنچوں کی تشکیل اور مقدمات کی تفویض کے عمل'، جسے 'شفاف، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ' ہونا چاہئیے، پر سوال اٹھائے۔ آج اہم مسئلہ یہ پیدا ہو چکا ہے کہ سیاسی لڑائیاں ان ججوں کے سامنے لڑی جا رہی ہیں جو نہ تو عوام کے منتخب نمائندے ہیں اور نہ ہی سیاسی معاملات سنبھالنے کی قابلیت رکھتے ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ لکھتے ہیں کہ 'عدالت کو ایسے معاملات میں ہمیشہ انتہائی تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئیے جن میں سیاسی سٹیک ہولڈرز شامل ہوتے ہیں […] عدالت کو کسی بھی سٹیک ہولڈر کو اپنی سیاسی حکمت عملی کو پروان چڑھانے یا اس پلیٹ فارم کو دوسرے حریفوں کے خلاف فائدہ حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئیے۔ اس بات کو یقینی بنانا عدالت کی ذمہ داری ہے کہ سیاسی سٹیک ہولڈرز یہ ترغیب نہ حاصل کریں کہ وہ آئین پاکستان کے تحت تشکیل دیے گئے اداروں اور فورمز کو بائی پاس کرتے ہوئے اپنے تنازعات پر عدالتی تصفیہ حاصل کرنے کے لئے انہیں عدالتوں کے سامنے لاتے رہیں'۔

پاکستان کی سول سوسائٹی اور آزاد تجزیہ کار طویل عرصے سے یہ مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ عدالتی مداخلتوں کے نتیجے میں سپریم کورٹ کی آزادی اور غیر جانبداری پر عوام کا اعتماد مجروح ہوتا ہے۔ جیسا کہ جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا ہے، سیاست میں عدلیہ کی دخل اندازی سے 'سیاسی سٹیک ہولڈرز کو شہہ ملتی ہے کہ وہ رواداری، بات چیت اور سیاسی ذرائع کی مدد سے اختلافات ختم کرنے جیسی جمہوری روایات کو ترک کر دیں'۔

یہ خوش آئند ہے کہ جسٹس اطہر من اللہ نے انسانی حقوق کے کارکنوں کے ایک اہم مطالبے میں اپنی آواز شامل کی ہے کہ سپریم کورٹ کے ججوں کو اپنی توجہ زیر التوا ہزاروں مقدمات جن کی اصل تعداد 50 ہزار کے لگ بھگ ہے، پر مرکوز کرنی چاہئیے۔ جسٹس اطہر من اللہ کے مطابق اس طرح کے مقدمات کو 'سیاسی سٹیک ہولڈرز پر ترجیح دی جانی چاہئیے جن پر فرض ہے کہ وہ اپنے تنازعات سیاسی فورمز پر جمہوری طریقوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ختم کریں'۔

اس نوٹ کے بہت دور رس نتائج برآمد ہوں گے کیونکہ یہ ملک بھر کے موجودہ ججوں اور ان کے بعد ان کی جگہ لینے والے ججوں کو مستقبل کا راستہ دکھاتا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ لکھتے ہیں؛ 'اس عدالت کا فرض ہے کہ وہ خود پر عوام کے اعتماد اور یقین کو قائم رکھے اور سیاسی طور پر متعصب نظر نہ آئے۔ آئین پاکستان بھی اسی بات پر زور دیتا ہے۔'

چیف جسٹس کو بار بار یاد دہانی کروائی گئی تھی کہ جس طریقے سے وہ بنچ تشکیل دے کر مقدموں کی کارروائی چلا رہے ہیں اس سے عدالت عظمیٰ کی قانونی حیثیت پر حرف آئے گا۔ جسٹس اطہر من اللہ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ 'سیاست کے میدان میں پہلے سے ہی موجود گدلے پانیوں' میں قدم رکھنے سے عدلیہ پر 'عوام کا اعتماد ختم ہونے کا امکان' پیدا ہوتا ہے۔

حالیہ عدالتی کارروائیوں میں واضح طور پر یہ کوتاہی دیکھنے میں آئی کہ ججوں نے سیاسی سٹیک ہولڈرز کے 'رویے' پر سوال اٹھانے کی اہلیت نہیں دکھائی جو آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت انہیں سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو طے کرنے کا اختیار نہیں دیتے 'سوائے تب جب ایسا نظر آئے کہ وہ غیر جمہوری اقدار اور حکمت عملیوں کو بڑھاوا دینے یا اس میں سہولت فراہم کرنے کے ذمہ دار ہیں۔

پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے والا عمران خان کا ٹرمپ کارڈ شروع دن سے ہی قابل اعتراض تھا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے لگی لپٹی رکھے بغیر لکھا؛ 'کیا یہ طرز عمل آئینی جمہوریت کے طریقہ کار کے مطابق ہے؟ کیا یہ بذات خود آئین کی خلاف ورزی نہیں؟ کیا اس عدالت کو اپنے فورم کو سیاسی حکمت عملیوں کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دینی چاہئیے یا غیر جمہوری طرز عمل کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے نظر آنا چاہئیے؟ کیا اس عدالت کو سیاسی سٹیک ہولڈرز کی جانب سے بیک وقت ہائی کورٹس اور اس عدالت کے دائرہ اختیار اور ان فورمز کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی روش کا نوٹس نہیں لینا چاہئیے؟'

معزز جج نے مزید لکھا؛ 'یہ عدالت سیاسی سٹیک ہولڈرز کی سیاسی حکمت عملیوں کو کسی صورت آگے نہیں بڑھا سکتی اور نہ ہی ان کی جانب سے سیاسی حکمت عملیوں کو آگے بڑھانے کا تاثر نظر آنا چاہئیے۔ عدلیہ کی آزادی اور غیر جانبداری پر عوامی اعتماد ختم ہو جائے گا اگر عدالتیں غیر جمہوری اصولوں اور اقدار کی حوصلہ افزائی کرتی نظر آئیں گی'۔

'سیاسی سٹیک ہولڈرز کے مابین جاری اقتدار کی کشمکش اس ملک کے عوام کی فلاح و بہبود اور معاشی حالت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ پاکستانی عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کے بعد ایک طویل عرصے سے عذاب میں مبتلا کر کے رکھا گیا ہے۔ طویل دورانیے کی غیر جمہوری حکومتیں جن کی توثیق اس عدالت نے کی تھی، انہوں نے اس ملک اور اس کے عوام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے'۔

جسٹس اطہر من اللہ کے واضح ریمارکس کہ عدلیہ نے 'ہماری سیاہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا' اس بات کا صریح اشارہ ہیں کہ ہم ایک مرتبہ پھر اسی تاریخ کو دہرانے جا رہے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے؛ 'اگرچہ ہم قانون کی رپورٹس سے ماضی کے فیصلوں کو نہیں مٹا سکتے لیکن کم از کم عوام کے اعتماد اور یقین کو بحال کرنے کی کوشش تو کر سکتے ہیں تا کہ کچھ نہ کچھ حد تک ماضی کو بھلایا جا سکے۔ جب سیاست دان مناسب فورمز سے رجوع نہیں کرتے اور اپنے تنازعات عدالتوں میں اٹھا لاتے ہیں تو سیاست دان بھلے ان تنازعات میں جیتیں یا ہاریں، عدالت ہر صورت میں شکست سے ہمکنار ہوتی ہے'۔

عدالت عظمیٰ میں ہونے والی بغاوت کے اس ادارے پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوں گے اور پاکستان کے سیاسی مستقبل پر بھی۔ فوری طور پر چیف جسٹس اس سارے بکھیڑے کی وجہ سے محفوظ رہ پائیں گے، یہ ابھی غیر واضح ہے۔ جمعہ کے روز ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں نجی نوعیت کی ایک شکایت درج کرا دی گئی ہے۔ ججوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی جانب سے ان کی انتظامی صلاحیت پر شدید عدم اعتماد کے اظہار کے بعد ان کی پوزیشن اور بھی کمزور ہو گئی ہے۔ وہ اپنی مدت پوری کر بھی لیں تب بھی ان کی اخلاقی ساکھ برقرار نہیں رہ پائے گی۔

ادارے کے لیے ابھی بھی نجات کا موقع موجود ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ستمبر میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی باگ ڈور سنبھال لیں گے۔ متوازن ججوں کی مدد کے ساتھ عدالت عظمیٰ جمہوری اداروں کو پروان چڑھانے میں مدد فراہم کر کے تاریخ کا رخ موڑ سکتی ہے، بجائے وہ ایک ایسی عدالت کا کردار ادا کرے جو حکومت کی دیگر شاخوں کے اختیارات کی موزونیت طے کرے یا پھر مقبول یا طاقتور حلقوں کے اشاروں پر چلے۔

پاکستان تحریک انصاف کے لئے شاید یہ خبر زیادہ اچھی نہ ہو۔ پنجاب میں الیکشن ہونے کے امکان پہلے سے بھی کم دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر جمعہ کو ہونے والے نیشنل سکیورٹی کونسل کے اجلاس کی کارروائی سے کوئی اشارہ ملتا ہے تو وہ یہی ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ اتحادی حکومت کی پشت پر کھڑی نظر آتی ہے یا وہ ابھی اپنا ایجنڈا ترتیب دے رہی ہے۔ تاہم پی ڈی ایم اتحاد کو اسی پر مطمئن نہیں ہو جانا چاہئیے۔ انتخابی میدان میں یہ پہلے ہی کافی علاقہ ہاتھوں سے گنوا چکی ہے۔ اگر پی ڈی ایم بدستور سیاسی اقدام اٹھانے سے کنارہ کشی جاری رکھے گی اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ملنے والے تعاون پر ہی مکمل انحصار جاری رکھے گی تو پھر بعید از قیاس نہیں کہ حالیہ تعطل اور اداروں کے مابین جاری لڑائی کا نتیجہ نظام کی تباہی کی صورت میں سامنے آئے۔ یہ کوئی انوکھی صورت حال نہیں ہو گی، ہم نظام کی تباہی پہلے بھی دیکھ چکے ہیں۔




رضا رومی کا یہ مضمون The Friday Times میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کر کے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔

مصنّف نیا دور میڈیا کے مدیرِ اعلیٰ ہیں۔ اس سے قبل وہ روزنامہ ڈیلی ٹائمز اور فرائڈے ٹائمز کے مدیر تھے۔ ایکسپریس اور کیپیٹل ٹی وی سے بھی منسلک رہ چکے ہیں۔