آئین جس دھونس سے منظور ہوا، پاکستان ویسے ہی چل رہا ہے

آئین جس دھونس سے منظور ہوا، پاکستان ویسے ہی چل رہا ہے
یہ آئین 50 سال کا ہو گیا، جس سے کبھی آئین شکنوں نے بلاتکار کیا تو کبھی آئین سازوں نے، کبھی اس کے خالقوں نے تو کبھی خاکیوں نے اور کبھی باقیوں نے۔ جنرل ضیاء الحق نے کہا تھا؛ 'آئین آئین۔ آئین ہے کیا؟ آئین کچھ بھی نہیں ہے، محض کاغذ کا ایک پرزہ ہے جسے پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینکا جا سکتا ہے'۔ پھر ایسا سوال کرنے والے صحافی سے کہا؛ 'میں چاہوں تو تمہیں 5 سال تک الٹا لٹکا سکتا ہوں'۔

لیکن یہی آئین 1973 تھا جس پر قومی اسمبلی میں متفقہ طور پر تمام اراکین کے دستخط لینے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو جیسے وزیر اعظم کو کس کس کے ترلے نہ کرنے پڑے تھے۔ یہاں تک کہ جی ایم سید جیسے سیاست دان کی بھی منتیں کرنی پڑیں کہ ولی خان اور بلوچ لیڈروں کو آئین پر متفقہ طور پر دستخط کرنے پر قائل کرنے میں اپنے تعلقات استعمال کریں۔ بھٹو نے اس سلسلے میں جی ایم سید سے چیف منسٹر ہاؤس کراچی میں ملاقات بھی کی تھی۔ جی ایم سید خوش تھے کہ بھٹو انہیں چچا کہہ کر مخاطب ہو رہے تھے۔

پھر اسی آئین کے خلاف جب جئے سندھ سٹوڈنٹس فیڈریشن کے نوجوانوں نے سندھ یونیورسٹی جامشورو میں آئین کے ایک خالق عبدالحفیظ پیرزادہ کو تھپڑ مارا (اسماعیل وسان نے وہ تھپڑ پیرزادہ کو رسید کیا تھا) اور 'نئوں آئین نہ کھپے' کے نعرے کے تحت ایجی ٹیشن کی تو جی ایم سید بھٹو کی حکومت کے باقی تمام سالوں کے دوران نظربند رہے۔ نیز جو جئے سندھ کے نوجوانوں، ان کے بوڑھے والدین اور گھر والوں کے ساتھ ہوا اس کی مثال شاید ہی کہیں ملتی ہو۔ یہاں تک کہ جئے سندھ کے ایک نوجوان کی حاملہ بیوی کو تھانوں میں بند کیا گیا تو کسی کی ماں بہن کو اور کسی کے بوڑھے والدین کو۔

انہی دنوں میں میرے دوست مدد علی سندھی جو جئے سندھ سٹوڈنٹس فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری تھے اور ایک نہایت ہی شاندار سیاسی اور ادبی سندھی جریدہ 'اگتے قدم' نکالتے تھے، مجھے یاد ہے کہ انہوں نے نئے آئین پر جو شمارہ شائع کیا تھا اس کا سرورق 'نئوں آئین نہ کھپے' پر مبنی تھا۔ مدد علی سندھی اپنے ساتھیوں سمیت سندھ یونیورسٹی سے نکالے گئے تھے۔ جریدہ ضبط ہوا۔ جس پریس میں فیکٹ پرنٹرز نے جریدہ چھاپا تھا اس پر چھاپہ پڑا۔ مدد علی سندھی کے والد کو سٹی تھانہ حیدر آباد میں رکھا گیا۔ مدد علی سندھی بھی باقی جتنے سال بھٹو کی حکومت رہی، روپوش رہے۔ جئے سندھ سٹوڈنٹس فیڈریشن تاہم ہر سال اس اپنی 'نئون آئین نہ کھپے' تحریک کی یاد میں 28 اپریل کو 'یوم جدوجہد' منایا کرتی تھی۔ خیر یہ بات تو ہوئی برسبیل تذکرہ۔

لیکن ابھی اس متفقہ آئین پر حزب اقتدار اور حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی کے دستخطوں کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے انتہائی اہم و معزز اراکین مفتی محمود، سردار شوکت حیات، آخوند زادہ خان و دیگر کو بھٹو کی گسٹاپو فیڈرل سکیورٹی فورس کے ذریعے اسمبلی ہال سے ڈنڈا ڈولی کروا کر باہر پھینکوا دیا گیا۔

اسی آئین کے مسودے پر دستخط کرنے سے انکار کرنے والے اراکین میر علی احمد تالپور، عبدالحمید جتوئی اور احمد رضا قصوری کے خلاف ریاستی دہشت گردی اور غنڈہ گردی کی انتہا کر دی گئی۔ عبدالحمید جتوئی پر جھوٹے مقدمات قائم کیے گئے۔ احمد رضا قصوری کے والد کے ایف ایس ایف کے ہاتھوں قتل پر بھٹو پھانسی چڑھ گئے (جو کہ ایک اور تاریخی نا انصافی اور عدالتی قتل تھا)۔ دستخط سے انکاری چوتھے رہنما میاں محمود علی قصوری تھے جو بھٹو کے ہی شروع والے عبوری آئین کے مسودے کے خالق اور ان دنوں بھٹو کی کابینہ میں وزیر قانون اور پی پی پی کے اولین بنیاد کاروں اور ساتھیوں میں سے تھے۔

جب پیپلز پارٹی کے اس وقت کے ایم این اے حاکم علی زرداری نے ان منحرفین اور بلوچ پشتوں لیڈروں کا ساتھ دیا تو ان کی بھی ماں بہن ایک کر دی گئی۔ بھٹو نے ان کو بھی کیا کیا نہ مغلظات کہے۔ کون جانتا تھا کہ وہی حاکم علی زرداری ایک دن بھٹو کا سمدھی بن جائے گا۔

متفقہ آئین 1973 کے منظور ہونے کے چند ماہ کے اندر ہی اسی آئین کے تحت بلوچستان میں بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی کی بزنجو-مینگل حکومت کو برطرف کر کے ٹکا خان کی سربراہی میں بلوچستان میں فوجی آپریشن کا اعلان کر دیا۔ اسی آئین میں سندھی، بلوچ، پشتون، پنجابی کہلوانا اور ان کے حقوق کی بات کرنا قابل تعزیر ٹھہرایا گیا۔

پھر ابھی اسی متفقہ آئین کو ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ دوسری ترمیم کے تحت احمدیوں کو راتوں رات 'کافر' قرار دے دیا گیا۔ یعنی رات کو وہ بھی باقی تمام مسمان بہن بھائیوں کی طرح مسلمان تھے، صبح نیند سے جب جاگے تو انہیں بتایا گیا کہ نئے آئین کے تحت اب آپ آج سے مسلمان نہیں، 'کافر' قرار دیے جا چکے ہیں۔ وہ احمدی کمیونٹی جس نے 1970 کے انتخابات میں بھٹو کی پی پی پی کو پنجاب میں جتوانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ یہاں تک کہ پنجاب میں اس جماعت نے پی پی پی کے حق میں دھاندلیاں بھی کی تھیں۔

صوفی مزاج شاعر مخدوم محمد زمان طالب المولا پی پی پی کے اور قومی اسمبلی میں واحد رکن قومی اسمبلی تھے جنہوں نے یہ ترمیم منظور ہونے کے دن اجلاس سے غیر حاضری اختیار کی تھی۔ وگرنہ تو ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی جیسی سیکولر کہلانے والی پارٹی کے اراکین نے بھی ولی خان سمیت اس ترمیم کی حمایت کی تھی۔

غیر مصدقہ اطلاعات یہ ہیں کہ احمدیوں کے اس وقت کے خلیفہ کو قومی اسمبلی کے بند کمرہ اجلاس میں بلایا گیا تھا اور اراکین نے ان سے سوال جواب کیے تھے۔ جب ان سے مفتی محمود نے پوچھا کہ وہ غیر احمدیوں کو اپنے عقیدے کے اعتبار سے کیا سمجھتے ہیں تو انہوں نے بھی برملا کہا تھا؛ 'کافر'۔ مجھے نہیں معلوم کہ قومی اسمبلی کے اس بند کمرہ اجلاس کی کارروائی کا ریکارڈ موجود ہے یا اسے تلف کردیا گیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو پر پی پی پی لیڈروں اور کارکنوں کے ساتھ ساتھ عوامی اکثریت بھی جا بجا فخر کرتی ہے کہ انہوں نے '90 سالہ مسئلہ حل کر دیا'۔

اسی نئے آئین میں ایک تاریخی مضحکہ یہ ہوا کہ عدلیہ میں اصلاحات کے نام پر آئین میں چوتھی ترمیم کی گئی جس کا بڑا مقصد بھٹو کی پارٹی میں سے کچھ وکلا کی ججوں کے عہدوں پر اعلیٰ عدلیہ میں تقرریوں کو یقینی بنانا تھا۔ ان ججوں میں اس وقت سندھ بلوچستان ہائیکورٹ سے عبدالحفیظ میمن، نور العارفین، بدیع الحسن زیدی، عبدالقادر ہالیپوٹو کی تقرریاں شامل تھیں۔ اسی چوتھی ترمیم میں کہتے ہیں کہ ضمانت کے قوانین میں کسی ترمیم کا ذاتی نقصان بھٹو کو ہوا جب نواب محمد احمد خان کے قتل کے مقدمے میں وہ جیل گئے کہ قتل کے ملزم کی ضمانت دو سال تک نہیں ہو سکتی تھی۔

اسی نئے آئین کے تحت ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی یا نعپ پر سپریم کورٹ میں ریفرنس کے نتیجے میں پابندی لگائی گئی جو تا حال برقرار ہے۔

مگر یہی 1973 کا آئین اپنے خالق ذوالفقار علی بھٹو اور اس کی حکومت کو نہ بچا سکا۔ ضیاء الحق نے بھٹو کا دھڑن تختہ کیا۔ اس کے باوجود کہ آئین میں کسی بھی منتخب حکومت کا بزور بندوق یا طاقت کے بل پر تختہ الٹنا یا ایسی سازش میں شریک ہونا جرم غداری ہے اور جس کی سزا سزائے موت ہے۔ آئین میں ایسے فقرے کو آرٹیکل 6 اور 6 (الف) کہا جاتا ہے۔ جسٹس دراب پٹیل نے ایک دفعہ کہا تھا کہ نہ فقط جرنیل بلکہ ان کے ساتھ ساتھ وہ تمام کے تمام ججز بھی آئین کے آرٹیکل 6 اور 6 (الف) کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں جنہوں نے ملک میں مارشل لاء پر مہر تصدق ثبت کی تھی یعنی جنہوں نے ضیاء الحق کے عبوری آئینی آرڈر کے تحت حلف اٹھایا تھا۔

یہی اصول جنرل مشرف کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔

فوجی آمر ضیاء کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کرنے والے ججوں میں جسٹس دراب پٹیل، جسٹس فخرالدین جی ابراہیم، جسٹس عبدالحفیظ میمن اور جسٹس عامر رضا خان شامل تھے۔

لیکن جرنیلوں کو آرٹیکل 6 اور 6 (الف) سے بھی زیادہ پریشانی اس آئین میں ہونے والی اٹھارہویں ترمیم سے ہے جو کہ بہرحال زرداری کے دور صدارت کا دوسرا بڑا کارنامہ تھا۔ پہلا کارنامہ صوبہ سرحد کا نام بدل کر خیبر پختونخوا رکھنا تھا۔ صوبائی خودمختاری اور کہیں ہو یا نہ ہو لیکن فوج کے کور کمانڈروں اور سیکٹر کمانڈروں کی کورز میں ضرور نظر آتی ہے۔ مگر حیرت ہے پھر بھی وہ اٹھارہویں ترمیم کے خلاف ہیں۔

آئین 1973 کا پہلا فقرہ مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کو قرآن و سنت کی روشنی میں چلایا جانا ہے۔ یعنی کہ آئین پاکستان غیر سیکولر آئین ہے جس کے تحت جسٹس بھگوان داس اور جسٹس دراب پٹیل جیسے چاہے کتنے بھی ایمان دار اور دیانت دار جج ہوں، ملک کے صدر نہیں بن سکتے اور ملک اکثریتی طور پر ایک سنی ریاست ہے جبکہ مضحکہ یہ ہے کہ ملک کے بینکوں کے کھاتوں کے حساب سے ملک کی اکثریت شیعہ ہے کیونکہ اکثریت اپنی بچت میں سے زکوٰۃ نہیں کٹوانا چاہتی۔ ادھر بھارت کے آئین میں ریاست سیکولر ہے اور اسی وجہ سے وہاں ذاکر حسین اور فخرالدین علی احمد ملک کے صدر بن سکے تھے۔

کچھ کچھ وقفوں کے بعد رہ رہ کر پیپلز پارٹی کے اندر سے یا باہر موجود لبرل سیکولر دانشوروں کے حلقوں سے دھیمی دھیمی اور مشکل سے سنی جانے والی آواز اٹھتی ہے کہ اب وقت کی ضرورت ہے کہ آئین میں مثبت تبدیلیاں اور ترامیم لا کر آئین کو وقت اور دنیا کے مطابق بنایا جائے۔ کبھی کبھی 'نئے عمرانی معاہدے' یا نیو سوشل کانٹریکٹ کی بھی بات سننے کو ملتی ہے لیکن یہاں روسو تو پیدا ہونا نہیں ہے، یہاں تو عمران خان پیدا ہوتا ہے۔