پاکستان پیپلز پارٹی تحریک انصاف کو مذاکرات کی میز پر لے آئے گی

پاکستان پیپلز پارٹی تحریک انصاف کو مذاکرات کی میز پر لے آئے گی
پاکستان میں کوئی بھی کام سچائی اور دیانت داری سے کرنا خاصا مشکل کام ہے کیونکہ عام طور پر ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی سوچ منافقانہ طرز عمل پر مبنی ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں کرپشن ایک نارمل فعل ہے مگر اس کو بھی ایک نمبر طریقے سے کرنے سے گھبراہٹ محسوس کی جاتی ہے۔ رشوت لینی بھی ہوتی ہے مگر منافقانہ طرز عمل کی مدد سے اسے اپنے طریقے سے 'حلال' کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ اسی دنیا کے ہی کسی فرد نے کہا تھا کہ اگر دو نمبر کام ہی کرنا ہے تو پھر اس کو ایک نمبر طریقے سے کرو۔ پاکستان میں جس طرح کچھ بھی ایک نمبر ملنا ناممکن سی بات ہے اسی طرح سیاست بھی انتہائی منافقانہ حصار میں بند ہو چکی ہے۔

سیاست دان پاکستانی معاشرے کے کلچر کی ترجمانی کرتے ہیں۔ان کا رویہ معاشرے کی سوچ کا عکاس ہوتا ہے لیکن ہم اس حقیقت کو ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے سیاست دانوں کے اندر اپنی ہی جھلک دیکھ کر کچھ ڈر سے جاتے ہیں اور سیخ پا ہو جاتے ہیں کہ ہم اس قدر برے نہیں ہو سکتے۔ وہ طریقہ واردات جو عوام ایک دوسرے کے ساتھ استعمال کرتے ہیں وہی طریقہ واردات یہ سیاست دان ایک الگ پیرائے میں ایک دوسرے کے ساتھ آزما رہے ہوتے ہیں۔ سیاست دان عوام اور ملک کے مفاد میں کبھی بھی اکٹھے نہیں ہوں گے بلکہ عوام کی جہالت سے کھیلنے کے لیے سیاسی کرتب بازیوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ انا اور ذاتی مفادات کی جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں۔

یہ کرتب بازیاں اس لیے ہیں کہ ان سیاست دانوں کو پتہ ہوتا ہے کہ انہوں نے مذاکرات میں بیٹھ کر ہر مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنے کی کوشش کرنی ہے، مگر یہ افراد غیر سیاسی اداروں کے کندھوں پر بیٹھ کر سیاست کے اندر منافقت کا کھیل کھیلتے ہیں۔ تیری اسٹیبلشمنٹ میری اسٹیبلشمنٹ، تیرا جنرل میرا جنرل؛ کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ سیاست دانوں نے ریس لگا رکھی ہے کہ مخالفین کی دھجیاں اڑانے اور اس ملک کے قانون اور آئین کو توڑنے میں کس کا جنرل دوسرے پر بازی لے جاتا ہے۔

جنرل راحیل شریف کے دور میں آصف علی زرداری صاحب کچھ عرصے کے لیے پاکستان سے باہر تشریف لے گئے تھے کیونکہ بعض ذرائع کے مطابق راحیل شریف زرداری صاحب کو سیاسی ستم کا نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔ مریم نواز والے قصے کی طرح زرداری صاحب کو بھی ٹھوکنے والی پالیسی کی شنید تھی اور کئی ہارون رشید اس تماشے کے تماشائی بننے کو بھی تیار تھے۔ یہ وہی آصف علی زرداری ہیں جنہوں نے اشفاق پرویز کیانی کو آرمی چیف بنوا کر انتہائی عزت کے ساتھ توسیع بھی دی اور عمدہ طریقے سے اپنی حکومت کی مدت بھی پوری کی۔

راحیل شریف اور اشفاق پرویز کیانی دونوں پاک فوج کے آرمی چیف تھے لیکن دونوں ادوار میں ایک ہی ادارہ اور ایک ہی ذمہ داری ہوتے ہوئے بھی دونوں کی عملی کارروائیاں ایک دوسرے سے خاصی مختلف تھیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ زرداری صاحب نے ہی نواز شریف کو مشورہ دیا ہو کہ راحیل شریف کو توسیع دینے کے بجائے سعودی عرب بھجوا دیں حالانکہ راحیل شریف کے آخری دنوں میں 'جانے کی باتیں جانے دو' جیسی اجتہادی غلطیوں والی باتیں مارکیٹ میں باقاعدہ طور پر آ چکی تھیں۔

بہرحال جیسے یہ کہا جاتا ہے کہ پولیس کی نوکری بہت اچھی ہے اگر محرر اچھا ہو، اسی طرح پاکستان میں سیاست بھی اچھی ہے اگر آرمی چیف اچھا ہو ورنہ سیاست دان بور ہو جاتے ہیں۔ ہمارے سیاست دانوں کو قانون اور آئین کا خیال رکھنے والا آرمی چیف کبھی پسند نہیں آتا، ان کو ڈرامہ پسند ہے جس کی وجہ سے تماشہ لگا رہے اور ملک میں عوام کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے تاجر، مولوی، جاگیردار اور فوجی بس آپس میں سیاست سیاست کھیلتے رہیں۔

پاکستان کا وہ سیاست دان جو مذاکرات میں بیٹھنے سے عاری ہو اور ٹال مٹول سے کام لے رہا ہو تو زیادہ امکانات یہی ہیں کہ آرمی چیف یا پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اس کے اچھے مراسم ہیں۔ اس لیے جو کام پاکستان کے سیاست دانوں نے ملکی مفاد میں فوری کرنا ہوتا ہے اس کام کو بھی لمبے التوا میں ڈال دیتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ سیاست پاکستان کے امیر آدمی کے لیے انتہائی عمدہ شغل ہے مگر ان کو کون بتائے کہ سیاست فقط عوام کے مسائل کی نشاندہی اور ان کے حل کا نام ہے۔ جو کچھ آپ کرتے ہیں وہ سیاست نہیں، عیاشی ہے۔

پاکستان کے موجودہ سیاسی منظرنامے میں ایک بار پھر نازک موڑ آ گیا ہے جہاں ایک ساتھ بیٹھے بغیر سیاست دان مسائل کے حل نہیں نکال سکتے۔ آج کل سوشل میڈیا پر پاکستان کے اس 'تاریخی موڑ' پر بہت بحث ہو رہی ہے۔ ہمیں یہ جان لینا چاہئیے کہ 1947 سے پاکستان کی معاشرتی اور سیاسی زندگی میں نازک موڑ مستقل حقیقت کے طور پر موجود رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف اس وقت ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیاں ہیں۔ باقی بھی کئی جماعتیں ہیں مگر وہ اپنی شدید ہٹ دھرمی کی زد میں مذہبی اور علاقائی نظریات کی رو میں بہہ چکی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ وہ کبھی بھی الیکشن کو زیادہ عرصے تک ملتوی کرنے کی مہم کا حصہ نہیں بن سکتے۔ اس سے پیپلز پارٹی کی نصف صدی سے بنی جمہوری اقدار کو نقصان پہنچے گا جس سے ان کی لیڈرشپ پوری طرح واقف ہے۔

بظاہر یوں دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی لیڈرشپ تحریک انصاف کو اس بات کا احساس دلانا چاہتی ہے کہ جس جنگ کو آپ نے ابھی شروع کیا ہے وہ ہم دہائیوں سے لڑ رہے ہیں۔ تحریک انصاف کو بھی اس حقیقت کا علم ہے کہ وہ زیادہ لمبے عرصے تک سیاسی طاقت کے ذریعے اپنے سیاسی مطالبات کو نہیں منوا سکتے۔ ان دونوں جماعتوں کا مل بیٹھنا بہت ضروری ہے تا کہ ملک کی سیاسی ابتری اور معاشرتی بے یقینی سے جان چھوٹے اور ملک معاشی طور پر سبنھل سکے۔ آج کل پاکستان پیپلز پارٹی کے دو سرخیل وکیل تحریک انصاف اور عمران خان کے لیے بڑے جذباتی دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ دونوں کردار اپنے بچوں کا سیاسی مستقبل بنانے والے الزامات سے نکل کر دونوں پارٹیوں کے مابین مذاکرات کیوں نہیں کروا سکتے؟

مگر ایسا کیوں نہیں ہو پا رہا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ایک طرف کے افراد کے عسکری حلقوں کے ساتھ اچھے روابط ہیں جبکہ دوسرا فریق یہی قرب اپنے لیے حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسی تگ و دو میں ایک دوسرے کی آخری حد کو دیکھا جا رہا ہے۔ ایک اور بھی کام ہو رہا ہے کہ تمام سیاسی و غیر سیاسی حلقے تحریک انصاف کے راستے میں مزاحمت بن رہے ہیں۔ یہ بات کسی سیاسی المیے سے کم نہیں ہو گی کیونکہ خود زرداری صاحب بیان کر چکے ہیں کہ عمران خان کی مقبولیت کے پیچھے غربت ہے۔ اگر یہ بات سچ ہے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ تحریک انصاف کو پاکستان کی سیاست سے مائنس کرنے سے معاشرے کی غریب اکثریت کی آواز کو ایک بار پھر نہیں سنا جائے گا۔ اس دور کے پاکستان کا نازک موڑ یہی ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی کو چاہئیے کہ اس سیاسی گناہ سے خود کو بچانے کی کوشش کرے اور چاروں صوبوں کی زنجیر والی پالیسی پہ عمل کرتے ہوئے دوسری طرف کے مؤقف کو سننے کی بھی کوشش کرے جو ضرور اب پہلے کی نسبت کچھ نہ کچھ نرم پڑ چکا ہو گا۔

عاصم علی انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے University of Leicester, England سے ایم فل کر رکھا ہے اور اب یونیورسٹی کی سطح پہ یہی مضمون پڑھا رہے ہیں۔