ایٹمی طاقت پاکستان پر حکمرانی کے لئے عمران خان فوج سے نبرد آزما ہیں

ایٹمی طاقت پاکستان پر حکمرانی کے لئے عمران خان فوج سے نبرد آزما ہیں
دنیا کے سب سے زیادہ اہم نتائج کے حامل سیاسی ڈراموں میں سے ایک بڑے پیمانے پر جاری ہے اور امریکہ کا اس جانب دھیان نہیں ہے۔ 23 کروڑ کی آبادی پر مشتمل ایٹمی ملک پاکستان کا استحکام مقبول ترین سیاست دان اور ملک کے سب سے طاقتور ادارے کے سربراہ کے مابین لڑائی پر انحصار کر رہا ہے۔ کیا آرمی چیف جنرل عاصم منیر سابق وزیر اعظم عمران خان کو دوبارہ اقتدار میں آنے سے روک سکتے ہیں؟

عمران خان پاکستان کی محبوب شخصیت ہیں۔ حال ہی میں گیلپ پاکستان کے ایک سروے میں 61٪ لوگوں کی جانب سے پسندیدگی حاصل کر کے وہ سرفہرست رہے جبکہ ان کے دونوں قریبی حریف ان سے 25 فیصد پیچھے تھے۔ تاہم عمران خان کی لاپرواہی، ناقابل عمل نظریات اور ناقص انتظامی صلاحیتوں کے باعث سیلاب، دہشت گردی اور دیوالیہ پن کے خطرے کا سامنا کرتا ملک مزید بدحالی کا شکار ہو سکتا ہے۔

پارلیمنٹ کی جانب سے انہیں وزارت عظمیٰ سے ہٹانے کے ایک سال بعد 70 سالہ سابق وزیر اعظم کا اقتدار میں واپسی کا عزم واشنگٹن کے لیے بھی ایک مخمصے کا باعث ہے۔ عمران خان کے آمرانہ طرز عمل، بنیاد پرست اسلام کے لیے نرم گوشہ رکھنے اور امریکہ کے خلاف دشمنی نے انہیں مصر کے سابق صدر محمد مرسی اور ترکی کے رجب طیب اردگان جیسی حیثیت عطا کر دی ہے۔ عمران خان کا دوسرا دور حکومت ملک کے اندرونی مسائل میں اضافے کا باعث بنے گا اور امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو خراب کر دے گا۔

عمران خان اقتدار میں واپسی کے لیے پرعزم ہیں۔ حقیقی سیاسی قوتیں ان کے ساتھ ہیں، جن میں دیانت داری کی شہرت، عوام اور متوسط طبقے دونوں کو سرگرم کرنے کی صلاحیت اور ایک ایسی استقامت جس نے پاکستان تحریک انصاف کو ایک آدمی والی جماعت سے ملک کی سربراہی کرنے والی بڑی جماعت میں تبدیل کر دیا، جیسی خوبیاں شامل ہیں۔

عمران خان کی عوامی مقبولیت کا مرکزی نکتہ ان کی قائدانہ صلاحیت کی وہ شہرت ہے جو انہوں نے کرکٹ کے میدان میں حاصل کی تھی۔ دو دہائیوں سے زیادہ عرصے تک عمران خان کرکٹ میں نمایاں مقام پر براجمان رہے۔ 1992 میں انہوں نے ایک کمزور ٹیم کی قیادت کرتے ہوئے آسٹریلیا میں ہونے والا ورلڈ کپ جیت کر کھیل کی سب سے بڑی کامیابی اپنے نام کر لی۔ جیسا کہ عمران خان کے حامی سمجھتے ہیں، عمران خان کی کرشماتی قائدانہ صلاحیتیں جنہوں نے کمزور قومی کرکٹ ٹیم کی کایا پلٹ دی تھی، قوم کو بھی بدل کر رکھ سکتی ہیں۔

عمران خان مذہبی نجات کا بھی درس دیتے ہیں۔ ایک نوجوان پلے بوائے کے طور پر وہ اکثر لندن کے نائٹ کلبوں میں جایا کرتے تھے اور نہانے والے لباس میں تصویریں بنوایا کرتے تھے جن کے پیچھے چیتوں کے پوسٹر لگے ہوتے تھے۔ ناقدین عمران خان کے اس نیک بدلاؤ اور مغربی کلچر پر کثرت سے تنقید کو ان کی منافقت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ لیکن ایک گہری مذہبیت میں مبتلا قوم کے سامنے ظاہری تبدیلی بھی اچھا تاثر قائم کرتی ہے۔ جیسا کہ ان کے پرستار کہتے ہیں، آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ ہونے اور برطانوی دولت مند خاندان کی وارث جمائما گولڈ اسمتھ سے شادی کرنے کے بعد عمران خان آسانی سے مغرب میں پرآسائش زندگی گزار سکتے تھے مگر اس کے بجائے انہوں نے برے حالات سے دوچار ملک پاکستان کا انتخاب کیا۔ یہاں انہوں نے اپنی والدہ کی یاد میں اول درجے کا کینسر ہسپتال تعمیر کروایا اور ملک میں موجود کرپشن کے خلاف جنگ لڑنے کے لئے 1996 میں سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف بنانے کا اعلان کیا۔

تیمور ملک پی ٹی آئی کے وکیل ہیں۔ لاہور سے ٹیلی فون پر انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا؛ 'تصور کریں کہ اگر مائیکل جارڈن امریکہ میں خدمت خلق کے بھی سب سے مشہور کارکن ہوتے اور نئی سیاسی جماعت بنانے کے بعد امریکہ کے صدر بننے میں کامیاب ہو جاتے۔ پاکستان کے عوام عمران خان کے بارے میں ایسا ہی محسوس کرتے ہیں'۔

ووٹوں کی تعداد کے لحاظ سے 2013 کے انتخابات میں عمران خان کی جماعت دوسرے نمبر پر رہی اور بالآخر 2018 میں فوج کی مدد کے ساتھ کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ پاکستانی فوج نے مبینہ طور پر عمران خان کے مخالفین کے گرد گھیرا تنگ کرنے اور حکومتی اتحاد قائم کرنے میں عمران خان کو مدد فراہم کی تھی۔ تاہم اپنے دور حکومت کے تین سال بعد عمران خان اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ اس وقت الجھ پڑے جب آرمی چیف نے ایک نئے جنرل کو آئی ایس آئی کا سربراہ تعینات کر دیا تھا۔ آئی ایس آئی طویل عرصے سے ملکی سیاست میں مداخلت کرتی آئی ہے۔ چند ماہ بعد عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجے میں عمران خان کی حکومت گھر چلی گئی۔

پاکستان کی فوج نے ملک کی 75 سالہ تاریخ میں تقریباً نصف عرصے تک ملک پر براہ راست حکمرانی کی ہے اور باقی کے بیش تر حصے میں بالواسطہ طور پر ملک کی حکمران رہی ہے۔ عام طور پر جو سیاست دان فوج کا اعتماد کھو بیٹھتا ہے اسے مار دیا جاتا ہے یا جلاوطن کر دیا جاتا ہے۔ عمران خان بغیر ثبوت کے یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ نومبر میں ان پر ہونے والے ناکام قاتلانہ حملے کے پیچھے اعلیٰ جرنیلوں اور حکمران جماعت کے رہنماؤں کا ہاتھ تھا۔ فوج اور سیاسی رہنما جن پر قاتلانہ حملے کا الزام لگایا گیا، اس دعوے کی تردید کرتے ہیں لیکن خاموش بیٹھ جانے کے بجائے عمران خان نے اس جنگ کا رخ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے خلاف موڑ دیا ہے۔

بظاہر حکومت کو ملک میں قبل از وقت انتخابات منعقد کروانے پر مجبور کرنے کے مقصد کے پیش نظر جنوری 2023 میں عمران خان نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپنی جماعت کی صوبائی حکومتوں کو مستعفی ہو جانے کا حکم دے دیا تھا۔ غیر ملکی صحافیوں کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان نے موجودہ آرمی چیف کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور ان کے حامیوں نے سوشل میڈیا پر فوج پر حملوں کی بھرمار کر دی ہے۔ تقریباً ایک سال کے عرصے میں پاکستان نے ایک ایسے ملک سے جہاں سینیئر ترین صحافی بھی فوج کے بارے میں بولنے کے لئے الفاظ کا چناؤ نہایت احتیاط کے ساتھ کرتے تھے، ایک ایسے ملک کی صورت اختیار کر لی ہے جہاں پاکستان تحریک انصاف کے حامیوں نے حاضر سروس آرمی چیف پر کھلے عام تنقید شروع کر دی ہے۔

عمران خان کی مقبولیت نے انہیں پاکستان کی سیاست کے اصولوں کو نئے سرے سے لکھنے کے قابل بنا دیا ہے اور فوج کی جانب سے نکالے گئے سابق رہنماؤں کے برعکس نظر آتا ہے کہ انہیں حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسران کی جانب سے حمایت بھی حاصل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عدالتوں نے حکومت کو کرپشن اور دہشت گردی سمیت متعدد الزامات میں عمران خان کو گرفتار کرنے سے منع کر کے عمران خان کو ڈھال مہیا کر رکھی ہے۔ عمران خان ان پر لگائے گئے تمام الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

لیکن عمران خان کی یہی ہٹ دھرمی اس دلیل کو تقویت بخشتی ہے کہ جتنے وہ لاپروا ہیں انہیں اقتدار میں واپس لانے کا خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا۔ اکتوبر میں انتخابات کے امکان کے ساتھ آرمی چیف کے لیے اس سے بڑا مخمصہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ اٹلانٹک کونسل پاکستان کے ماہر عزیر یونس نے ٹیلی فون پر انٹرویو میں کہا؛ 'ایک پرانی پاکستانی کہاوت ہے کہ قبر صرف ایک ہے جبکہ امیدوار دو، عمران خان نے اس بات کو یقینی بنا دیا ہے کہ پاکستان پر یا تو وہ حکومت کریں گے یا پھر آرمی چیف جنرل عاصم منیر




سدانند دھومے کا یہ مضمون Wall Street Journal میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کر کے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔