کیا محض غلطیوں کا اعتراف ان سے ازالہ کے لئے کافی ہے!

کیا محض غلطیوں کا اعتراف ان سے ازالہ کے لئے کافی ہے!
پہلے تو سیاستدان، حکومتی عہدیداران اور اداروں کے سربراہان اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوشی کے بعد اپنی غلطیوں کے اعترافات کیا کرتے تھے مگر وزیر قانون کا ججوں کی سپریم کورٹ میں تعیناتی بارے اپنی غلطی کا اعتراف حیران کن ہے۔ اور اصولوں سے ہٹ کر ان تعیناتیوں کا ازالہ محض شرمندگی سے ممکن نہیں بلکہ اس بارے ان کو  تفصیلی حقائق قوم کے سامنے رکھنے ہوں گے کہ انہوں نے یہ کام کن حالات کے پیش نظر کیا۔ غلطی تو وہ ہوتی ہے جس کا ان کو اندازہ نہ ہو مگر یہاں تو اندازوں والی کوئی بات ہی نہیں تھی ۔ یہ تو پاکستانی سیاسی روایات کے مطابق کسی بندوبست کی صورتحال لگتی ہے۔ قوم کو اس نیت، بندوبست یا کسی ایسے معاہدے کے بارے مکمل آگاہ کیا جائے جس کی امیدیں اب ختم ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں وگرنہ قوم شاید ان کی معافی کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔

انہوں نے اس میں کہیں سے دباؤ کی بات بھی کی ہے۔ ان کو قوم کو واضح طور پر بتانا پڑے گا کہ یہ دباؤ ان پر حکومتی اتحاد کی طرف سے تھا یا پھر صرف اپنی سیاسی جماعت کی طرف سے تاکہ پتا چلے کہ سیاسی جماعتوں میں کس طرح کے فیصلے ہوتے ہیں اور ان فیصلوں کی اتھارٹی کو کیسے استعمال کیا جاتا ہے۔ سیاسی جماعتیں عوامی جماعتیں ہوتی ہیں اور ان کا کوئی بھی عمل عوام سے پوشیدہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان کے فیصلوں میں قومی و ملکی مفاد، جمہوریت اور عوامی امنگ کی جھلک ہر صورت نظر آنی چاہیے۔ عوام کو پتا تو چلے کہ ان کی کون سی ایسی مجبوری تھی جس کی وجہ سے انہوں نے اصولوں کو قربان کیا۔

پی ڈی ایم کا حصہ بلکہ سربراہی عہدہ رکھنے والی جماعت جمعیت علماء اسلام  کے سپوکس پرسن کامران مرتضیٰ کا بیان بھی سامنے آگیا ہے جس میں انہوں نے اس فیصلے کے متعلق ان کو منع بھی کیا تھا کہ وہ ایسا نہ کریں ۔ کون نہیں جانتا کہ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ میں تعیناتیاں کس میرٹ پر ہوتی ہیں اور کس طرح کی اہلیت اور قابلیت دیکھی جاتی ہے۔ بلکہ زیادہ تر ججز ان عہدوں سے پہلے خود بنچ بار کی سیاست کا حصہ ہوتے ہیں اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ روابط، الحاق، سیاسی حوالوں اور سفارشوں سے بھی انکار ممکن نہیں ۔ اور اگر ان سارے عوامل سے گزر کر آنے والی شخصیات سے یہ توقع کر لی جائے کہ وہ سیاست سے مبرا اپنے فرائض منصبی نبھائیں گے تو یہ انسانی سوچ اور شعور کے ساتھ بھی مذاق ہوگا۔ اب پاکستان کے جو موجودہ حالات ہیں ان میں یہ کہنا کہ فلاں سیاست کر رہا ہے اور فلاں اپنے اختیارات کا غلط استعمال کر رہا ہے یہ بات ہے تو ٹھیک مگر کرنے والوں کو اپنے گریبانوں میں بھی تو جھانکنا چاہیے کہ کیا وہ اس اعتراض کا کوئی اخلاقی جواز بھی رکھتے ہیں ۔ ہمارے ہاں غلطیوں کا اعتراف تو کر لیا جاتا ہے  اور اس پر شرمندگی کا اظہار بھی ہوتا ہے مگر یہ کافی نہیں ہوتا۔ ملکی اور قومی سطح پر غلطیوں کی گنجائش نہیں ہوا کرتی ایسی غلطیوں کے بعد کم ازکم عہدوں پر رہنا تو کسی صورت بھی سمجھ سے باہر ہے۔ قومی عہدوں پر ہوتے ہوئے اس طرح کی غلطیاں قوم کے اعتماد کو ختم کردیتی ہیں اور ایسی غلطیوں کی مرتکب شخصیات کو چاہیے کہ وہ قومی ذمہ داریوں سے سبکدوش رہنے کی کوشش کریں۔

عمران خان نے بھی اپنی کئی غلطیوں کا اعتراف کیا ہے جن میں جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف جوڈیشل ریفرنس بھی شامل ہے۔ اسی طرح سابق جسٹس ثاقب نثار نے بھی اپنی غلطیوں کا اعتراف کرکے اپنے خلاف الزامات کو تقویت بخشی ہے ۔ بعض اصول، قوانین اور رائج طریقہ کار کو دیکھ کر تو خون کھولنے لگتا ہے کہ اس ملک میں ہوکیا رہا ہے ۔ جیسا کہ ججز کے خلاف اگر ریفرنس آجائے تو وہ استعفیٰ دے کر گھر چلے جاتے ہیں اور اس کے بعد ریفرنس کو بھی ختم کر دیا جاتا ہے ۔ ایسے میں ان پر کوئی قانونی یا اصولی دباؤ کیسے ہوسکتا ہے تاکہ کہ ان کو جوابدہی کی  کوئی فکر لاحق ہو۔ ایسے میں تو کوئی بھی شخص جس کو یہ ڈر نہ ہو کہ اس کو کوئی سزا جزا بھی دی جاسکتی ہے یا اس سے کوئی پوچھ پکڑ ہوسکتی ہے وہ کھل کر  اپنی خواہشات اور مفادات کا کھیل کھیلے گا اور جب کوئی مشکل آن پڑی تو وہ استعفیٰ دے کر آرام سےبمعہ تما تر فوائد گھر چلا جائے گا۔ اور خاص کر ایسے عہدوں پر بیٹھی شخصیات جن کی قومی ذمہ داری ہی انصاف کی فراہمی ہو اور وہ ساری زندگی دوسروں کو سزا و جزا کے فیصلے سناتے رہیں ان کی اپنی کوئی پوچھ پکڑ ہی نہ ہو ایک انتہائی غیر دانشمندانہ بات لگتی ہے ۔ اسی لئے تو ہمارے ہاں شروع سے ہی ملکی سیاسی حالات میں نظام عدل کا ایک خاص کردار رہا ہے اور انہوں نے اپنی سوچ کے مطابق بخوبی نبھایا بھی ہے  اور قوم کو اس کا ازالہ ناقابل تلافی نقصانات کی صورت میں ادا کرنا پڑا ہے۔

جس نے ملک کے اندر آئین، قانون اور اصول و ضوابط کو طاقت کے اختیارات کی باندی بنا دیا ہے اور جہاں جہاں طاقت کے اختیارات کا پلڑا بھاری ہوتا ہے وہاں وہاں سےملکی ، قومی اور سیاسی فیصلے ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ جہاں طاقت کا قانون ہو وہاں قانون کی طاقت کو منوانا  بااصول لوگوں سے ہی ممکن ہوتا ہے وگرنہ مشکل ہوجاتا ہے ۔ آج کل پھر آئین و قانون کے اختیارات کا گھمنڈ کبھی نظام عدل تو کبھی پارلیمان میں زور آزمائی کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے مگر شائد اس کے استعمال کرنے والوں کو یہ اندازہ نہیں کہ قانون کی حکمرانی کے لئے محض آئین و قانون ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے ایمانی اور اخلاقی قوت بھی درکار ہوتی ہے وگرنہ یہ آئین و قانون کا جذبہ طاقت کے سامنے بہت جلد معدوم ہوجاتا ہے۔

اداروں کو اگر اداروں سے ہی خطرات لاحق ہونا شروع ہوجائیں اور ایک دوسرے کے آئینی اختیارات پر حاوی ہونے یا پھر ٹکراؤ کی صورت پیدا کرنے کی کوشش کی جائے تو پھر کسی ایک ادارے کے اختیارا ت ہی  بے وقعت نہیں ہوتے بلکہ سارا نظام ہی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ اگر عدلیہ پارلیمان کے اختیارات کو پابند کرنے کی کوشش کرے گی تو عدلیہ کے فیصلوں پر عملدآمد کروانے کے لئے آسمان سے فرشتے تھوڑے ہی اتریں گے۔ ہاں آسمان سے فرشتے اترنا تو مشکل ہے مگر خلائی مخلوق کی مجبویوں کا جواز ضرور پیدا ہوجاتا ہے اور پھر ان کے اختیارات کے استعمال میں نئے نئے نظریات اور بندوبست کو اپنی جگہ بنانی پڑ جاتی ہے جس  کے سامنے تمام  آئینی و قانونی جذبے سرد پڑنا شروع ہوجاتے ہیں۔

اس دفعہ فی الحال تو لگتا یوں ہے کہ سابقہ روایات کی طرح کا کوئی خطرہ نہیں مگر اس گھمبیر صورتحال میں عوامی غیض و غضب کا کوئی طوفانی ریلا کم ہوتے رعب اور دب دبے سے ٹکرا سکتا ہے ۔ جس سے ریاست کے اداروں کو مزید پسپائی کا خدشہ ہے۔ عزت و تکریم اصولوں کی بنیاد پر غیر جانبدارانہ، شفاف اور برابری کی بنیاد پر کئے گئے فیصلوں سے ہی حاصل ہوسکتی ہے وگرنہ مفادات نگری میں کوئی بھی کسی کا خیر خواہ یا ہمدرد نہیں ہوتا وقت گزرنے کے ساتھ دوستی اور دشمنی کے پیمانے بدل  جاتے ہیں اور ساتھ اپنے اعمال سے بنائی ہوئی ساکھ ہی رہ جاتی ہے جو اگر تو اچھی ہوتو دشمن بھی تعریف کرتے ہیں اور اگر اچھی نہ ہو تو پھر دوست بھی دشمنوں کی صف میں جا کھڑے ہوتے ہیں۔ مناسب یہی ہے کہ ہر کوئی اپنی ذمہ داریوں کو عوامی امانت سمجھتے ہوئے ان کو ایمانداری اور قومی و ملکی مفادات میں استعمال کرے وگرنہ ریاست کو جوابدہی کے نظام عمل سے تو بچا جاسکتا ہے مگر قدرت کے نظام انصاف سے بچنا مشکل ہوجاتا ہے جس کی مثالیں اگر مشاہدہ کرنے والی آنکھ ہوتو ہر دور میں موجود ہوتی ہیں۔