• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
ہفتہ, جون 10, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

پارلیمان محض پوائنٹ سکورنگ کے لئے عدلیہ کا حساب نہ مانگے، اصلاحات بھی لائے

جہاں تک تعلق ہے ججز کے مس کنڈکٹ کا یا آئین و قانون سے منافی فیصلوں کا تو اس کا حل حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کا عدلیہ کے سامنے کھڑے ہو کر چیف جسٹس سے استعفے کا مطالبہ نہیں بلکہ ان معاملات سے متعلق قانون سازی ہے۔ ان کو آئینی اور قانونی حدود کے اندر رہ کر مطالبات کرنے چاہئیں تھے۔

ڈاکٹر ابرار ماجد by ڈاکٹر ابرار ماجد
مئی 23, 2023
in تجزیہ
8 0
0
پارلیمان محض پوائنٹ سکورنگ کے لئے عدلیہ کا حساب نہ مانگے، اصلاحات بھی لائے
44
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

آج کل پارلیمان اور عدلیہ کے ادارے ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے نظر آتے ہیں۔ پہلے تو معاملہ صرف کمنٹس، ریمارکس اور قرارداوں تک محدود تھا مگر پارلیمان کے احتجاج کے بعد سے اسمبلی میں ججز کے خلاف تقاریر ایک معمول بن گیا ہے اور خواجہ آصف نے کھلے لفظوں میں ججز کے ساتھ جنگ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ججز کو حساب دینا ہوگا بلکہ انہوں نے زندہ اور مرے ہوئے سب ججز کا حساب مانگ لیا ہے۔ ایک کمیٹی بنانے کا مطالبہ کر دیا ہے جو ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کی نااہلی تک کا حساب لے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ججز کی تنخواہوں، مراعات اور وظائف تک کا پوچھ لیا۔ انہوں نے اپنی تنخواہ کا بتاتے ہوئے ججز سے بھی پوچھ لیا اور یہ بھی پوچھا کہ انہوں نے کتنے کتنے پلاٹ لیے ہوئے ہیں۔

وہ چاہتے ہیں کہ عدالت کی تاریخ قوم کے سامنے رکھی جائے کہ انہوں نے کیا کیا گل کھلائے ہیں۔ انہوں نے برملا کہا کہ ہم اپنے وزیر اعظم کی گردن کا حساب مانگتے ہیں۔ جو آئین و قانون کی باتیں کرتے ہیں وہ قوم کو بتائیں کہ انہوں نے کتنی دفعہ آئین و قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔ ہم اپنے پُرکھوں کا حساب دیتے ہیں، وہ اپنے پُرکھوں کا حساب دیں۔

RelatedPosts

سیاست دان پروجیکٹ بننا بند کریں اور عملی سیاست پر توجہ دیں

عدلیہ کو اپنے حصے کی غلطیاں تسلیم کر کے ان کا ازالہ کرنا ہو گا

Load More

یہ کون سی عدلیہ ہے جو پنچائیت بن کر مذاکرات کے لئے مجبور کر رہی ہے۔ وہاں بیٹھے ہوئے 15 لوگوں کا آپس میں اتفاق نہیں اور ہمیں مذاکرات کے درس دیتے ہیں۔ پہلے اپنے آپ کو تو ٹھیک کر لیں۔

جس طرح سے کھل کر پارلیمان میں عدلیہ کے کارناموں پر آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئی ہیں ان سے لگتا ہے کہ اب یہ سلسلہ بند ہونے والا نہیں اور عدلیہ کو واپس اپنی آئینی حدود میں جانا پڑے گا۔ سیاست دانوں بارے سسیلین مافیا جیسے القابات استعمال کرنے، عوامی نمائندوں کی تذلیل کرنے اور انہیں نااہلی قرار دینے کی قوم سے معافی مانگنا پڑے گی۔

جب ایک سابق چیف جسٹس قاضی کی کرسی پر بیٹھ کر کہتے تھے؛ ‘دو چار ایم پی ایز کو تو وہ کھڑے کھڑے گھر بھیج سکتے ہیں’، کیا یہ کہنا آئین و قانون اور ان کے عہدے کی عزت و تکریم کے مطابق تھا؟ کیا اس میں تکبر کا تاثر نہیں ملتا تھا؟ اور آج اگر وہ ایک سیاسی جماعت کی ٹکٹیں مبینہ طور پر سنیما کی ٹکٹوں کی طرح بیچ رہے ہیں تو ان کے قول اور فعل میں کیا مماثلت باقی رہ جاتی ہے؟ ان سوالوں کے جواب جاننا قوم اور قومی نمائندوں کا حق نہیں ہے؟

لیکن پارلیمان پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جب وہ ججز سے حساب مانگتے ہیں تو ان کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا حساب دینا پڑے گا۔ وہ عوامی نمائندگی کے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ریاست کے وسائل سے مستفید ہونے والے ریاستی اداروں میں برابری کو قائم رکھنے کے ذمہ دار ہیں۔ اگر آج مختلف محکموں کے اندر امتیازی سلوک پایا جا رہا ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کون ملک کے خزانے سے تنخواہیں، وظائف اور مراعات دینے کے اختیارات رکھتا ہے؟

قوم آپ سے حساب مانگتی ہے کہ ایسا کیوں ہوا، اس کا آغاز کیسے ہوا؟ جہاں تک میری یادداشت میں آتا ہے اس کا آغاز جناب شہباز شریف صاحب نے جب وہ وزیر اعلیٰ پنجاب تھے لاہور ہائیکورٹ کی تنخواہوں اور الاؤنسز کو بڑھا کر کیا تھا جس کی تقلید میں باقی صوبوں کی عدلیہ کے ملازمین بھی احتجاج اور مطالبات کر کے اپنی تنخواہیں بڑھواتے چلے گئے اور اب ان کی ہوس کہیں تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ اس بات کی تشویش اب پارلیمان کو لاحق ہونی شروع ہو گئی ہے۔

جس وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو عدالت نے نا اہل کیا تھا کیا اسی نے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چودھری کے ساتھ چپقلش میں عدلیہ کے ملازمیم کی تنخواہیں اپنے ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے سے نہیں بڑھائی تھیں تا کہ وہ عدلیہ کے ملازمین کی ہمدردیاں حاصل کر سکیں۔ پھر اس کو مثال بنا کر صوبوں نے اپنی تنخواہیں بڑھا لیں۔ حکومت اس کی تحقیق کر کے اپنی غلطیوں کا ازالہ کرے اور برابری کا قانون نافذ کرے۔ پارلیمان کی بالا دستی کے لئے امتیازی سلوک کو ختم کرنا بھی ضروری ہے۔

میرا سوال ہے کہ کیا یہ تنخواہیں انہوں نے بغیر کسی قانون یا پیشگی حکومت کی اجازت کے ہی بڑھا لی ہیں یا اس میں حکومت کا بنایا ہوا کوئی قانون بھی موجود ہے؟ کیا یہ مضحکہ خیز بات نہیں کہ قانون کی خالق جماعت ریاست کے ایک ادارے سے یہ سوال کرے کہ آپ اتنی تنخواہیں کیوں لے رہے ہیں؟ کیا وہ اپنی تنخواہیں بڑھانے میں خود مختار ہیں؟ اگر ایسا ہے بھی تو اس کو انصاف کی مطابقت میں کس نے لانا ہے؟

آپ نے جب کفایت شعاری کے لئے پالیسی بنائی تھی جس میں تمام محکموں سے ایک سے زیادہ پلاٹ واپس لینے کی سفارشات تھیں تو اس پر عمل درآمد میں کیا چیز رکاوٹ ہے؟ کیا آپ نے اپنی ہی مرتب کردہ ان سفارشات پر عمل کروایا ہے؟ محض ڈھنڈورے پیٹنے سے حل نہیں نکلتے۔

جب یہ سارے امیتازی سلوک آپ کے علم میں ہیں اور اس پر ریاست کے ملازمین کے اندر احساس محرومی بھی پایا جاتا ہے اور تفریق بھی اور وہ آئے روز اس پر احتجاج بھی کرتے ہیں تو پھر آپ اس امتیازی سلو ک کو ختم کیوں نہیں کر دیتے؟ آپ کو کس سے اجازت لینے کی ضرورت ہے؟ آپ نے خود قانون بنانا ہے، ایک ہی قانون کے ذریعے سے تمام سرکاری محکموں کے اندر برابری کو رائج کر دیں۔ یا پھر عوام یہ سمجھے کہ آپ نے کرنا کرانا کچھ نہیں، بس نعرے ہی لگانے ہیں۔ پھر ان نعروں سے تو یہ بھی تاثر لیا جا سکتا ہے کہ آپ صرف عدلیہ ہی کی کیوں بات کرتے ہیں، کیا باقی محکموں کے درمیان امتیازی تفریق نہیں ہے؟ کیا آپ کے پارلیمان کے ملازم دوسرے محکموں سے زیادہ تنخواہیں نہیں لے رہے؟ تو اس سے تو یہ تاثر بھی ابھر سکتا ہے کہ کہیں آپ عدالتوں کو بلیک میل کرنے کی کوشش تو نہیں کر رہے؟

جہاں تک تعلق ہے ججز کے مس کنڈکٹ کا یا آئین و قانون سے منافی فیصلوں کا تو اس کا حل حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کا عدلیہ کے سامنے کھڑے ہو کر چیف جسٹس سے استعفے کا مطالبہ نہیں بلکہ ان معاملات سے متعلق قانون سازی ہے۔ ان کو آئینی اور قانونی حدود کے اندر رہ کر مطالبات کرنے چاہئیں تھے جن میں سیاسی اور آئینی معاملات میں فل کورٹ کا مطالبہ شامل تھا جسے وہ پہلے بھی اپنی درخواستوں میں اٹھاتے رہے ہیں۔

اسی طرح جن ججز کے خلاف الزامات ہیں ان کو سیاسی بنچز کا حصہ نہ بنانے کا مطالبہ بھی جائز تھا۔ اسی طرح وہ یہ مطالبہ بھی کر سکتے تھے کہ جن ججز کے خلاف ریفرنس ہیں ان کو سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس بلا کر کیمرے کے سامنے ان ریفرنسز پر کارروائی کا آغاز کیا جائے۔ اس بات کا اظہار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی پہلے کر چکے ہیں اور قانون میں قوم کے سامنے کارروائی کی کوئی ممانعت بھی نہیں۔ اگر چیف جسٹس کے خلاف بھی پارلیمانی کمیٹی کی طرف سے ریفرنس دائر ہو جاتا ہے تو پھر چیف جسٹس صاحب کو اس کارروائی میں جوڈیشل کمیشن کا حصہ نہیں بننا چاہئیے۔

پھر سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے متعلق مقدمے میں بھی فل کورٹ کا مطالبہ ہوتا۔ چونکہ یہ معاملہ چیف جسٹس کے اختیارات بارے ہے لہٰذا ان کا ذاتی طور پر اس بنچ کا حصہ ہونا بھی مناسب نہیں۔
سیاسی جماعتیں وہاں دباؤ بڑھاتیں اور پارلیمان ان کی روشنی میں قوانین مرتب کرتی۔ مطالبات بھی ایسے ہونے چاہئیں جن کو سننے والا بھی سراہے اور جن میں کوئی آئینی، قانونی اور اخلاقی وزن بھی ہو اور جس سے ادارے کے مستقبل بارے بھی کوئی خطرات پیدا ہونے کا احتمال نہ ہو۔

Tags: پارلیمان اور عدلیہ آمنے سامنےپی ڈی ایم حکومتچیف جسٹس عمر عطاء بندیالریاستی اداروں میں اختیارات کی تقسیمریاستی ادارےسپریم کورٹ آف پاکستانسپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹعدلیہ کا احتسابوزیر اعظم شہباز شریف
Previous Post

9 مئی کے واقعات، اور ‘جناح ہاؤس’ کی تاریخ – حامد میر کی طرف سے

Next Post

شیریں مزاری اور فیاض الحسن چوہان نے پی ٹی آئی کو خیرباد کہہ دیا

ڈاکٹر ابرار ماجد

ڈاکٹر ابرار ماجد

Related Posts

سیاست دان پروجیکٹ بننا بند کریں اور عملی سیاست پر توجہ دیں

سیاست دان پروجیکٹ بننا بند کریں اور عملی سیاست پر توجہ دیں

by عظیم بٹ
جون 9, 2023
0

پل میں تولہ پل میں ماشہ؛ یہ کہاوت پاکستان میں برسر اقتدار لوگوں پر مکمل طور پر درست بیٹھتی ہے۔ پاکستان وہ...

10 سالہ سیاسی انجینیئرنگ بے نقاب ہو چکی، ذمہ داران توبہ کریں

10 سالہ سیاسی انجینیئرنگ بے نقاب ہو چکی، ذمہ داران توبہ کریں

by ڈاکٹر ابرار ماجد
جون 8, 2023
0

قدرت کا نظام انصاف و انتقام بھی کیسا ہے کہ ہر کوئی اپنے آپ کو ہی بے نقاب کرنا شروع کر دیتا...

Load More
Next Post
شیریں مزاری اور فیاض الحسن چوہان نے پی ٹی آئی کو خیرباد کہہ دیا

شیریں مزاری اور فیاض الحسن چوہان نے پی ٹی آئی کو خیرباد کہہ دیا

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

امام خمینی اور ان کا اسلامی انقلاب جو آج بکھر رہا ہے

امام خمینی اور ان کا اسلامی انقلاب جو آج بکھر رہا ہے

by خضر حیات
جون 9, 2023
0

...

عمران خان کو وزیر اعظم بنانے کے لئے حمید گُل کی بینظیر کا تختہ الٹنے کی سازش

عمران خان کو وزیر اعظم بنانے کے لئے حمید گُل کی بینظیر کا تختہ الٹنے کی سازش

by حسن مجتبیٰ
جون 9, 2023
0

...

عمران خان کو لگتا ہے دو ہفتوں میں جنرل عاصم منیر کے خلاف بغاوت ہو جائے گی: صحافی عمران شفقت

عمران خان کو لگتا ہے دو ہفتوں میں جنرل عاصم منیر کے خلاف بغاوت ہو جائے گی: صحافی عمران شفقت

by نیا دور
جون 7, 2023
0

...

بغاوت جو ناکام ہو گئی

بغاوت جو ناکام ہو گئی

by رضا رومی
جون 1, 2023
0

...

عمران خان کی ‘سیفٹی’ ریڈ لائن سلیم جعفر کا آخری اوور ثابت ہوئی

عمران خان کی ‘سیفٹی’ ریڈ لائن سلیم جعفر کا آخری اوور ثابت ہوئی

by منصور ریاض
مئی 29, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

Cover for Naya Daur Urdu
64,976
Naya Daur Urdu

Naya Daur Urdu

پاکستان کی ثقافت اور تاریخ کو دیکھنے کا ایک نیا زاویہ

Naya Daur Urdu

11 hours ago

Naya Daur Urdu
زرمبادلہ کارڈز کی کیٹگری میں ایک نئے ڈائمنڈ کارڈ کا اجرا کیا جا رہا ہے جو کہ سالانہ 50 ہزار ڈالرز سے زائد زرمبادلہ بھیجنے والوں کو جاری کیا جائے گا۔قانونی طریقے سے زرمبادلہ کی وطن منتقلی کو فروغ دینے کے لیے مراعات دی جائیں گی۔وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار ... See MoreSee Less

Video

View on Facebook
· Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on Linked In Share by Email

Naya Daur Urdu

11 hours ago

Naya Daur Urdu
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے آئندہ مالی سال 2023-24 کے بجٹ میں فری لانسرز کیلئے ٹیکس سہولتوں کا اعلان کردیا۔آئی ٹی برآمدات کو بڑھانے کے لیے انکم ٹیکس 0.25 فیصد کی رعایتی شرح لاگو ہے اور یہ سہولت 30 جون 2026 تک جاری رکھی جائے گی، ... See MoreSee Less

Video

View on Facebook
· Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on Linked In Share by Email

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
Visit our sponsors. You can find many useful programs for free from them
 Visit