جہانگیر ترین کی زیر قیادت نئی پارٹی میں ماضی کی بازگشت سنائی دیتی ہے

جہانگیر ترین کی زیر قیادت نئی پارٹی میں ماضی کی بازگشت سنائی دیتی ہے
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کسی بھی بڑی سیاسی جماعت میں سے ناراض اراکین کا موقع اور نظریہ ضرورت کے تحت نئی سیاسی جماعت کی طرف رجوع کرنا کوئی نئی بات نہیں۔ تاریخ گواہ ہے پاکستان کی سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ سے تو ہر عام انتخاب سے پہلے نئی مسلم لیگ گروپ کا نکلنا معمول کی بات رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی میں سے پیپلز کھر گروپ، پیپلزشیر پاؤ یا پھر پیپلز شہید بھٹو جیسی نئی جماعتیں نکلی ہیں جو الیکشن کے بعد کبھی سیاست میں فعال نظر نہیں آئیں۔ جنوبی پنجاب سے نئی بننے والی سیاسی جماعت کی بنیاد عمران خان کے دیرینہ دوست جہانگیر ترین رکھنے جا رہے ہیں۔

مقبول سیاسی جماعت میں سے ایک الگ جماعت کا ارتقا پاکستان کی سیاست میں انرجی اور ٹوسٹ لانے کے لئے ایک خاص نظریہ کی تائید کرتا ہے۔ پاکستان کی انتخابی تاریخ نئی سیاسی جماعتوں سے بھری پڑی ہے۔ 2018 کے عام انتخابات میں پاکستان کی خود ساختہ بنائی گئی مقبول ترین سیاسی جماعت تحریک انصاف کی سیاسی بساط دن بدن کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ اس کی اصل وجوہات، واقعات اور پس منظر سے سب واقف ہیں۔ 9 مئی کے واقعہ میں سے عوام کو شعوری طور پر سیاسی جماعت کے جادوئی طلسم سے باہر نکالنے کے لئے جنوبی پنجاب میں ایک اور نئی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی جا رہی ہے۔

سینیئر تجزیہ کار اور صحافی مبشر بخاری کا کہنا ہے کہ 'پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جب بھی اسٹیبلشمنٹ نے نئی سیاسی جماعت تخلیق کی ہے اس کے نام میں 'تحریک' یا 'موومنٹ' میں سے ایک لفظ ضرور نظر آئے گا۔ مثال کے طور پر مہاجر قومی موومنٹ، متحدہ قومی موومنٹ جیسی مثالیں آپ کے سامنے ہیں'۔

نئی سیاسی جماعت کا نام کیا ہوگا، یہ ایک اہم سوال ہے۔ نئی سیاسی پارٹی اگر بن رہی ہے تو اس کا نام ' پاکستان تحریک انصاف ترین گروپ'، ' پاکستان تحریک انصاف نظریاتی' یا ' پاکستان تحریک انصاف موومنٹ' ہو سکتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف بھی ہو سکتی ہے۔

جہانگیر ترین کی نئی سیاسی جماعت کا جھنڈا کیسا ہو گا؟ یہاں بھی وہی پرانا فلسفہ دہرایا جائے گا۔ مثال کے طور پر پاکستان مسلم لیگ سے نکلنے والی تمام سیاسی جماعتوں نے پارٹی کا بنیادی جھنڈا تو وہی رکھا مگر اس پر شیر اور سائیکل کے انتخابی نشان تبدیل کر لئے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی سے نئی وجود پانے والی سیاسی جماعتوں نے پیپلز پارٹی کے جھنڈے کے تینوں رنگ کالا، سرخ اور سبز بنیادی رنگ رکھے مگر اس میں چاند تارا جیسے نشانات کا اضافہ کیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے جھنڈے میں سبز اور لال بنیادی رنگ تو ہوں گے مگر ہو سکتا ہے یہ بنیادی رنگ افقی کی بجائے عمودی ہو سکتا ہے۔ دوسرا اہم پہلو کہ جھنڈے میں چاند تارا ہو گا یا اس کے بغیر ہی جھنڈا ہو گا۔ تیسرا اہم پہلو نئی سیاسی جماعت کا انتخابی نشان کیا ہو گا؟ پاکستان تحریک انصاف کے کھلاڑیوں کا انتخابی نشان بلا تھا جبکہ عمران خان بہترین فاسٹ بالر تھے۔

حال ہی میں عمران خان نے اپنے بیان میں کہا کہ اگر مجھے گرفتار کیا گیا تو پارٹی کی صدارت شاہ محمود قریشی کے ہاتھ میں ہو گی۔ پاکستان تحریک انصاف کا چیئرمین بھی جنوبی پنجاب سے اور نئی پارٹی کا سربراہ جہانگیر ترین بھی جنوبی پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں۔ جنوبی پنجاب پھر ماضی کی طرح سیاسی اتار چڑھاؤ کا گڑھ بن گیا ہے۔

یاد رہے 2018 کے انتخابات سے پہلے 'جنوبی پنجاب محاذ' بنا تھا جس میں خسرو بختیار اور دریشک خاندان جیسے بڑے نام شامل تھے۔ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کی بات کریں تو اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت 2013 سے ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ کے پی کے میں سے عمران خان نے کسی بھی رہنما کو پارٹی کی قیادت کے لئے منتخب کیوں نہیں کیا؟

نئی سیاسی جماعت میں کیا ناراض پارٹی رہنما ہی ہوں گے یا پھر وہ بھی اس دوڑ میں شامل ہوں گے جنہوں نے پارٹی کے لئے خدمات تو سرانجام دیں مگر اعلیٰ قیادت نے انہیں کبھی کوئی صلہ نہیں دیا۔ واضح رہے 14 مئی کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لئے پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم پر بھی اعتراضات سامنے آئے جبکہ بعدازاں عمران خان نے 32 اراکین کی انتخابی ٹکٹیں تبدیل کیں۔

ایک نظر پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں میں سے نکلنے والے سیاسی گروپس کی تفصیل پر ڈالتے ہیں جس سے قارئین کو یقین آ جائے گا کہ واردات کرنے کے طریقے پرانے اور جوں کے توں ہیں، کچھ نہیں بدلا۔

1970 کے انتخابات میں مسلم لیگ کنونشن، مسلم لیگ کونسل اور مسلم لیگ قیوم تھیں۔ 1977 کے انتخابات میں ایک ہی مسلم لیگ قیوم تھی۔ 1988 کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ فارورڈ بلاک، پاکستان مسلم لیگ ملک قاسم گروپ، پاکستان مسلم لیگ قیوم گروپ، پاکستان پیپلز پارٹی، نیشنل پیپلزپارٹی کھر گروپ، جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان گروپ، جمعیت علمائے اسلام درخواستی گروپ جیسی جماعتیں تھیں۔ 1990 کا الیکشن دو بڑے سیاسی اتحاد پیپلز ڈیموکریٹ الائنس اور اسلامی جمہوری اتحاد کے مابین ہوا مگر اس کے ساتھ سیاسی جماعتوں میں سے بننے والے گروپس میں جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان گروپ، جمعیت علمائے اسلام نیازی گروپ اور جمعیت علمائے اسلام نورانی گروپ، سندھ میں سندھ نیشنل الائنس حمید جتوئی گروپ اور سندھ نیشنل الائنس حمیدہ کھوڑو گروپ بنیں۔

1993 کے جنرل الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ فنکشنل گروپ، پاکستان مسلم لیگ جتوئی گروپ، پاکستان مسلم لیگ نواز گروپ اور پاکستان مسلم لیگ قیوم گروپ اور پاکستان پیپلزپارٹی میں سے شہید بھٹو کمیٹی بنی۔ مجاہد لاہوری اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ '17 اپریل 1993 کو ڈپٹی سپیکر حاجی نواز کھوکھر کے گھر مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کا اجلاس ہوا جس میں نواز شریف کو مسلم لیگ کا صدر نامزد کرنے کے فیصلہ کی توثیق کر دی گئی۔ کچھ دن بعد نگران حکومت نے دوسرے دھڑے کی سربراہی ہوتی کے بجائے چٹھہ کو سونپ دی۔ یوں پاکستان کی خالق جماعت قیام پاکستان کے بعد تیسویں بار تقسیم ہوئی'۔ بلوچستان سے بلوچستان نیشنل موومنٹ ڈاکٹر عبد الحئی گروپ اور بلوچستان نیشنل موومنٹ مینگل بنی۔

1997 میں جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان گروپ، جمعیت علمائے اسلام سمیع الحق گروپ اور جمعیت علمائے اسلام پاکستان، پاکستان مسلم لیگ فنکشنل، پاکستان مسلم لیگ جونیجو، پاکستان مسلم لیگ چٹھہ گروپ، پاکستان مسلم لیگ نواز شریف گروپ اور پاکستان مسلم لیگ ملک احمد شجاع گروپ جیسی جماعتیں بنیں۔ اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی شہید بھٹو، پاکستان پیپلزپارٹی زیڈ اے بھٹو، پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان تحریک انقلاب دو جماعتیں بنیں۔

2002 مارشل لاء دور کے انتخابات میں بلوچستان نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل کانگریس، بلوچستان نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی، بلوچستان نیشنل موومنٹ، پاکستان مسلم لیگ فنکشنل، پاکستان مسلم لیگ جناح، پاکستان مسلم لیگ نواز، پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم اور پاکستان مسلم لیگ ضیاء جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین، پاکستان پیپلزپارٹی شیر پاؤ اور پاکستان پیپلز پارٹی شہید بھٹو بنیں۔

2008 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ قائد اعظم، مسلم لیگ فنکشنل اور مسلم لیگ نواز جبکہ پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین، پاکستان پیپلز پارٹی شیر پاؤ اور پیپلز پارٹی شیر پاؤ۔ اس انتخاب میں پاکستان تحریک انصاف کا بائیکاٹ تھا جبکہ اسی کے نام کی پی ٹی آئی پاکستان تحریک انقلاب الیکشن کا حصہ تھی۔ 2013 کے انتخابات میں تین جماعتوں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے امیدواروں کے درمیان مقابلہ دیکھنے میں آیا۔ 2018 کے انتخابات میں بھی تین بڑی جماعتیں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور پلانٹیڈ جماعت تحریک انصاف کے امیدواروں میں مقابلہ تھا۔

2023 کے الیکشن میں ایک بار پھر نئی سیاسی جماعت بننے جا رہی ہے جس میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے کئی اراکین سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کو تیار ہیں بلکہ اسی طرح 90 کی دہائی میں مسلم لیگ ن سیاسی رنجشوں کی وجہ سے نئے گروپوں میں تقسیم ہوئی تھی۔

پنجاب کو سیاست کا گڑھ اس لئے بھی کہا جاتا ہے کہ ہر بار پنجاب میں مقبولیت حاصل کرنے والی سیاسی جماعت کی جمع تفریق کر کے ایک نئی سیاسی جماعت ایک خاص وقت اور خاص مقصد کے لئے بنائی جاتی ہے۔

وجیہہ اسلم صحافت سے وابستہ ہیں۔