اختیاراتی اجارہ داری ختم کرنے کے لئے عدلیہ میں مزید اصلاحات لانا ہوں گی

اختیاراتی اجارہ داری ختم کرنے کے لئے عدلیہ میں مزید اصلاحات لانا ہوں گی
نیا قانون جس میں ریویو کا حق ملا ہے اس سے چیف جسٹس کی سوموٹو کی اجارہ داری کم ضرور ہوئی ہے مگر یہ کوئی مکمل حل نہیں کیونکہ بنچز بنانے کا اختیار تو چیف جسٹس کے پاس ہی ہے۔ اب نظرثانی کے بنچ میں ججز کی تعداد تو بڑھے گی مگر کون کون بیٹھے گا، یہ اختیار تو ابھی بھی چیف جسٹس کے پاس ہی ہے اور وہ اپنے بندوبست میں تو ابھی بھی کسی حد تک مطلق العنان ہی ہیں۔

اس سے پہلے سوموٹو کے خلاف اپیل کی اجازت نہیں تھی مگر اس قانون کے تحت ریویو کی صورت میں اچھی تبدیلی لائی گئی ہے۔ اب یہ ریویو ایک اپیل کی طرح کا ہو گا جس میں نظرثانی وہی ججز نہیں کریں گے بلکہ اس میں لارجر بنچ بنایا جائے گا اور اس سے کسی حد تک چیف جسٹس کے اختیارات جن کے تحت وہ سوموٹو لیتے ہیں ان کے فیصلوں کو نظرثانی میں لارجر بنچ کے سامنے عدالتی رائے کا سامنا ہو گا اور اس میں بہتری آئے گی۔ لہٰذا اب چیف جسٹس کو سوچنا پڑے گا کہ ریویو میں ان کے بندوبست کو شرمندگی کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے اور دوسرا یہ ایک دیرینہ مطالبہ تھا کہ مفادات عامہ کے تحت لئے جانے والے ان سوموٹو ایکشنز کے خلاف بھی اپیل کا حق ہونا چاہئیے جو اب پورا ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور یہ خوش آئند بات ہے۔

جہاں تک انتظامی اختیارات کے استعمال کا معاملہ ہے اس کا تو سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل قانون میں بھی کوئی جامع حل نہیں تجویز کیا گیا۔ جس میں بنچز کی تشکیل اور سوموٹو کا اختیار تین رکنی ججز کی کمیٹی کو دیا گیا ہے تو وہاں بھی اگر کل تین سینیئر ترین ججز ہم خیال آ جاتے ہیں تو پھر ہم نیا قانون متعارف کروانا شروع کر دیں گے۔ آخر یہ معاملہ کہاں تک چلے گا؟ دراصل ان چیزوں کا بنیادی تعلق ہماری سوچ، تربیت اور اخلاقیات سے ہے اور اس طرح کے مسائل کا حل تو آئین و قانون کے بس کا روگ بھی نہیں ہے۔

دوسرا ان کا تعلق ان حلقوں کی ذمہ داری سے بھی ہے جنہوں نے پاکستان کے 70 سالوں میں ججوں کی تعیناتی پر کوئی ایسا قانون نہیں بنایا جس سے قابل، اہل اور اچھے اخلاق کے ججز ہمیں میسر آ سکتے۔ وہاں بھی تعلقات اور مفادات کو ہی پیمانہ بنائے رکھا گیا ہے اور اس کی مشق آج بھی جاری ہے۔

بنیادی حل کے طور پر ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار میں اصلاحات لائی جانی چاہئیں اور دوسرا ججز کے احتساب کے عمل کو بھی فعال بنانے کی کوشش کی جائے کیونکہ جب تک ان کے اندر جواب دہی کا احساس نہیں پیدا ہو گا تو وہ اپنی اداؤں پر کیسے غور کر سکتے ہیں؟

پاکستان جوڈیشل کونسل کو بھی فعال بنانے کی ضرورت ہے اور ججز کے خلاف جو بھی ریفرنس آئے اس کی کارروائی بلا تفریق اور مکمل ہو۔ ایسا نہیں کہ اگر جج صاحب اپنے تمام تر مفادات کے ساتھ ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کر لیتے ہیں تو ان کے خلاف مس کنڈکٹ کی انکوائری بھی ختم ہو جائے۔ ایسے میں تو پھر جج صاحب کھل کر اپنی خواہشات پر کھیلیں گے اور جب سمجھیں گے کہ اب بچنے کی امید نہیں رہی تو پھر وہ باعزت گھر چلے جائیں گے اور آنے والوں کے لئے بھی حوصلہ افزا مثالیں قائم کر جائیں گے۔

جو کچھ پچھلے 75 سالوں سے ہو رہا ہے، کوئی شاذ و نادر مثال ہی ملے گی جس میں ججوں کا احتساب ہوا ہو اور جب انتقام کی کارروائی کرنی ہوتی ہے تو پھر سپریم جوڈیشل کونسل کو بھی سپیڈیں لگ جاتی ہیں جیسا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے معاملے میں ہوا تھا۔

اہم اور قابل غور نکتہ ججز کی تنخواہیں، وظائف اور مراعات ہیں جن کی گونج آج کل پارلیمان سے لے کر سرکاری دفاتر اور عوامی محفلوں تک سنائی دے رہی ہے۔ ان کو بھی کسی برابری کے پیمانے میں لانے کی ضرورت ہے۔ وگرنہ موجودہ حالات میں تو کوئی بھی پروفیسر لگنے سے زیادہ سپریم کورٹ میں چپڑاسی لگنے کو ترجیح دے گا۔ کیونکہ یہاں نہ جسمانی کام ہے، نہ دماغی جبکہ پیسوں کی بھرمار ہے اور یہی اس قوم کی نفسیات ہے۔ جب تنخواہیں اور مراعات باقی اداروں کے برابر ہوں گی تو پھر کم از کرم مالی فوائد والی کشش تو ختم ہو جائے گی اور ایسے لوگ آئیں گے جن کو مالی لالچ نہیں ہو گا۔ معاشرے کے اندر برابری کو یقینی بنانا تو ویسے بھی پارلیمان کی پہلی ترجیح ہونی چاہئیے، اگر وہ سمجھیں تو۔

اس معاملے میں وزیر قانون کو اپنی برادری کی اداؤں پر بھی غور کرنا ہو گا اور کچھ بنیادی اصلاحات لا کر وہاں بارز کے ماحول کو بھی بدلنا ہو گا۔ بارز ایک ایسا ادارہ ہے جو وکلا کی تربیت کا کام سر انجام دیتا ہے۔ ان بار ایسوسی ایشن کی قیادت کرنے والے بعد میں بڑے بڑے آئینی عہدوں پر پہنچتے ہیں اور وہاں آئینی اور قانونی ذمہ داریاں سنبھالتے ہیں۔ لہٰذا بارز کی سیاست سے یہ تاثر ملنا چاہئیے کہ وہاں کی قیادت سے ابھرنے والے افراد غیر جانبداری، شفافیت، انسانی حقوق، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کا ایک عملی نمونہ ہوتے ہیں تا کہ وکلا کی برادری بارے معاشرے میں ایک مثبت تاثر بنے اور یہ کہا جائے کہ جہاں بھی انصاف کی فراہمی مقصود ہو وہاں وکلا میں سے تعیناتیاں کی جائیں چہ جائے کہ جس طرح آج اعتراض کیا جا رہا ہے کہ ججز چونکہ وکلا میں سے آتے ہیں اور ان کا سیاست اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ الحاق ہوتا ہے لہٰذا یہ ان آئینی عہدوں پر بیٹھ کر انصاف کی فراہمی میں غیر جانبداری اور شفافیت کو کیسے قائم رکھ سکتے ہیں؟

بار ایسوسی ایشنز کو تو چاہئیے کہ اس طرح کے لوگوں کا انتخاب کریں جن کو ان آئینی عہدوں کی خواہش نہ ہو بلکہ وہ اپنی بارز کی قیادت کی حیثیت کو ان آئینی عہدوں سے زیادہ معتبر سمجھتے ہوں اور ان کے اندر اپنی پوری برادری کے اجتماعی مفادات اور انصاف کی فراہمی کے عمل میں غیر جانبداری، شافیت اور انصاف کے اصولوں کی پیروی پہلی ترجیح ہو اور وہ یہ سمجھتے ہوں کہ وہ ایک ایسی برادری کی نمائندگی کرتے ہیں جو اس معاشرے کے باشعور اور آئین و قانون کو سمجھنے والے طبقہ کے لوگ ہیں اور اس لحاظ سے ملک میں انسانی حقوق، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے لئے کوشش ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داری اور فرض ہے۔

وکلا بارز اور تنظیموں کے اندر ریسرچ کمیٹیاں ہونی چاہئیں جو ہماری سیاست، معاشرت اور نظام انصاف کو درپیش مسائل پر تحقیق کریں اور اس پر اپنی اجتماعی قانونی آرا کی روشنی میں سفارشات مرتب کر کے اعلیٰ عدلیہ اور پارلیمان کو بھیجیں جن کو ایک دانش مندانہ رائے کے طور پر لیا جاتا ہو۔

جب بار ایسوسی ایشنز کو معاشرے اور عدالتی نظام کے اندر اس طرح کا مقام مل جائے گا تو میں نہیں سمجھتا کہ کوئی بھی ان کا منتخب نمائندہ کسی جج، اٹارنی جنرل یا ایڈووکیٹ جنرل کے عہدے میں کوئی کشش سمجھے گا۔

اگر ریاست اور معاشرے میں وکلا کے پروفیشنل کام کی اہمیت کا اندازہ ہو جائے تو ان کی تعلیمات اور تجربات سے فائدہ اٹھانے کے ہر شعبہ زندگی میں ہزاروں مواقع ہیں جن کے کردار سے ہمارے کئی مسائل ختم ہو جائیں گے، قانونی پیچیدگیاں ختم ہو جائیں گی اور اس سے عدالتوں پر موجود بوجھ کم ہو جائے گا۔ جب ہر کام قانون کے مطابق ہونا شروع ہو جائے گا تو لوگوں کے درمیان تنازعات پیدا ہی نہیں ہوں گے اور جب تنازعات پیدا ہی نہیں ہوں گے اور اداروں کے معاملات بہتر ہو جائیں گے تو معاشرے کے اندر قانون اور قانون دانوں پر اعتماد بڑھے گا اور وہ خود ہی ان کو اہمیت دینا شروع کر دیں گے۔ لیکن اس کے لئے وکلا کو خود کام کرنا ہو گا۔ اس پر ریسرچ کی جائے کہ کہاں کہاں وکلا اپنی قانونی مہارتوں سے مستفید کر سکتے ہیں اور پھر اس پر عمل درآمد کے لئے حکومت کو سفارشات دی جائیں۔

جیسا کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں جائیداد کی خرید و فروخت میں ڈاکومنٹیشن کی تیاری سے لے کر منی ٹرانزیکشن تک کا عمل وکلا کے ذریعے سے ہوتا ہے جس میں تمام قانونی ریکوائرمنٹس پوری ہوتی ہیں اور کسی بھی تنازع کا چانس نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے۔ اسی طرح باقی کاروباری معاملات میں بھی اگر وکلا کی قانونی آرا شامل ہو جائیں تو ہر ایک کے حقوق محفوظ ہو جائیں گے اور لوگوں کے اندر ریاستی نظام پر اعتماد بڑھے گا اور قوم و ملک کی توانائیوں، وسائل اور صلاحیتوں کا ضیاع ختم ہو کر اس کا مثبت استعمال شروع ہو جائے گا جس سے ترقی کا پہیہ چلنا نہیں بلکہ دوڑنا شروع ہو جائے گا۔