جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور بعض دیگر ججز مستعفی ہو سکتے ہیں

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور بعض دیگر ججز مستعفی ہو سکتے ہیں
سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بنچ جو آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے خلاف درخواستوں پر سماعت کر رہا تھا اس کو حیران کن حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک تو حکومت کی طرف سے تین ججز پر اعتراض لگایا گیا کہ ان کے مفادات متصادم ہیں لہٰذا ان کو بنچ سے علیحدہ ہوجانا چاہئیے جس کی تائید انکوائری کمیشن کی طرف سے دیے گئے جواب میں بھی ملتی ہے۔

دوسرا اہم نکتہ بھی انکوائری کمیشن ہی کی طرف سے اٹھایا گیا ہے جس کا تعلق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ سے ہے۔ اس میں بنچ کی تشکیل کا اختیار تین رکنی ججز کی کمیٹی کو دیا گیا ہے جس کی رو سے اب چیف جسٹس بنچ تشکیل دینے کا اختیار ہی نہیں رکھتے۔ تو اس کا مطلب ہوا کہ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے ججز بھی یہ رائے رکھتے ہیں کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ نافذ ہونے کے بعد سپریم کورٹ اس پر عمل کرنے کی پابند ہے۔

انکوائری کمیشن کی طرف سے یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ جب ان درخواستوں پر اعتراضات لگے ہوئے تھے تو ان کے خلاف چیمبر اپیل آنی چاہئیے تھی مگر ان کو سپریم کورٹ کا پروسیجر نظرانداز کرتے ہوئے کس طرح سماعت کے لئے فکس کر دیا گیا؟

اب چیف جسٹس کے اختیارات اور سپریم کورٹ کی پریکٹسز اور پروسجرز پر سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔ گو کہ یہ سوالات ایک انکوائری کمیشن کے طرف سے اٹھائے گئے ہیں اور ان کو عدالتی رائے نہیں کہا جا سکتا مگر اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اعتراضات سپریم کورٹ کے جج کی رائے کا درجہ رکھتے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کے سینیئر ترین معزز جج کے نزدیک قانون کے بن جانے کے بعد سے جتنے بھی بنچ تشکیل ہوئے ہیں وہ غیر قانونی ہیں۔ ایسے میں یقیناً ان کے نزدیک ان بنچز کے فیصلوں کی بھی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہو گی۔

اب اس کے بعد کم از کم جسٹس فائز عیسیٰ اور ان کی اس رائے سے اتفاق کرنے والے ججز تو کبھی بھی چیف جسٹس کے تشکیل دیے ہوئے کسی بنچ میں نہیں بیٹھیں گے کیونکہ جب وہ ان بنچز کی حیثیت کو ہی قانونی نہیں سمجھتے تو پھر ان میں بیٹھنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مبینہ طور پر یہ بھی گمان کیا جا رہا ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ آج کل چیمبر ورک اسی لئے کر رہے ہیں کہ وہ چیف جسٹس کے بنائے ہوئے کسی بنچ کو جائز نہیں سمجھتے۔

مگر دوسری طرف سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا اور سپریم کورٹ نے اس پر حکم امتناہی جاری کرتے ہوئے اس کو قانون بننے سے پہلے ہی روک دیا تھا۔ مگر پارلیمان نے اس آرڈر کو نظرانداز کرتے ہوئے قانون بنا دیا۔ ان کا مؤقف تھا کہ جو قانون ابھی بنا ہی نہیں اس کو کیسے روکا جا سکتا ہے۔ انہوں نے قانون کو پاس کر کے گزٹ میں نوٹیفائی بھی کر وا دیا تھا۔ اب سپریم کورٹ کے اندر سے رائے سامنے آنے کے بعد حکومت کا مؤقف مزید مضبوط ہو گیا ہے۔

مزید یہ کہ چیف جسٹس اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ابھی تک بنچز کی تشکیل کر رہے ہیں تو یقیناً ان کا مؤقف یہ ہو گا کہ انہوں نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے نئے قانون کو ہی روک دیا تھا تو پھر اس کے نفاذ کو وہ کیسے مان سکتے ہیں۔ جب انہوں نے بنچ کو تشکیل دے کر اس قانون کو بنانے سے روکا تھا اس وقت تو ان کے پاس اختیارات موجود تھے۔

اب یہاں پر جو ایک اور اہم سوال کھڑا ہوتا ہے کہ کیا سپریم کورٹ کے پاس کسی قانون کو بننے سے پہلے ہی اسے روکنے کا اختیار موجود ہے؟ جسے موجودہ کشمکش کا اہم سبب کہا جا سکتا ہے۔ جس بارے قانونی ماہرین کے نزدیک مختلف آرا ہوں گی مگر اب موجودہ صورت حال میں ایک طرف تو سپریم کورٹ کے اختیارات کا معاملہ ہے اور دوسری طرف پارلیمان کے اختیارات کا۔ اور اس میں چیف جسٹس کے اپنے اختیارات بھی زیر سوال ہوں تو پھر ان سارے تنازعات کا حل صرف چیف جسٹس صاحب کے اختیارات کے رحم و کرم پر تو نہیں چھوڑا جا سکتا جس سے مزید بحران پیدا ہونے کے خدشات جنم لے سکتے ہیں۔

ان متنازع اختیارات کے علاوہ بھی دیکھا جائے تو چیف جسٹس جلد بازی میں کئی ایسے اقدامات اٹھا بیٹھے ہیں جن کا ان کے پاس کوئی جواز نہیں۔ بلکہ انہیں اپنے اس مس کنڈکٹ کی وجہ سے جوابدہی کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ جب وہ انکوائری کمیشن کے نوٹیفکیشن کو اس لئے معطل کر رہے ہیں کہ ماضی کی پریکٹس پر عمل کرتے ہوئے ان سے مشورہ نہیں کیا گیا تو پھرماضی ہی کی عدالتوں کی پریکٹس پر عمل کرتے ہوئے متصادم مفادات کی بنیاد پر اپنے آپ کو بنچ سے علیحدہ کیوں نہیں کر رہے جس کی حکومت کی طرف سے بارہا درخواستیں بھی آ چکی ہیں اور اس پر انکوائری کمیشن نے بھی اپنے جواب میں اعتراض اٹھایا ہوا ہے۔ کیا چیف جسٹس صاحب کے پاس اس سوال کا کوئی جواب ہے؟

اب چیف جسٹس کو محتاط ہو جانا چاہئیے۔ اگر یہ معاملہ اسی طرح چلتا رہا تو ان کی اپنی ہی عدالت کے ماضی کے سوموٹو یا دہرے معیار والے فیصلے بھی زیر سماعت آ سکتے ہیں۔ ان لمحات سے پناہ مانگیں جب ادارے کی اپنی ہی غلطیاں انصاف کی پکڑ میں آ جائیں۔ جس طرح سے یہ درخواستوں کا رواج بنتا جا رہا ہے اگر جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف توہین عدالت کی درخواست آ سکتی ہے تو کل کوئی چیف جسٹس کے اقدامات کے خلاف بھی درخواست دے سکتا ہے۔

ماضی میں کبھی بھی کسی عدالت میں زیر سماعت کیسز کو ٹاک شوز میں ڈسکس نہیں کیا گیا تھا؟ مگر آج کل کورٹ رپورٹرز ججز کے ایک ایک حرف پر اپنے وی لاگز میں تبصرے اور مستقبل کے فیصلوں کی پیش گوئیاں دے رہے ہوتے ہیں جو دوسرے دن صحیح بھی ثابت ہو رہی ہوتی ہیں۔

مبینہ طور پر یہ پیش گوئیاں بھی ہو رہی ہیں کہ جسٹس مظاہر علی نقوی کے خلاف گھیرا تنگ ہوتا جا رہا ہے اور اگر یہ سلسلہ چل پڑا تو ان سمیت کئی اور استعفے بھی آ سکتے ہیں۔ اب ایک ایسی صورت حال میں جب سپریم کورٹ خود کسی معاملے پر متنازع رائے کا شکار ہو چکی ہو تو تنازعات حل کون کرے گا؟

اس کا جواب میری سمجھ میں تو اب صرف اور صرف فل کورٹ بنچ کے پاس ہے۔ پہلے بھی کئی ایسے آئینی معاملات پر سیاسی جماعتیں اور وکلا فل کورٹ کی استدعا کرتی رہی ہیں مگر چیف جسٹس صاحب اپنے اختیارات کی ڈھال کے پیچھے چھپ کر اپنے آپ کو بچاتے رہے ہیں۔ مگر اب تو ان کی وہ ڈھال ہی نشانے پر آ گئی ہے جس کے بعد اب ان کے چھپنے کا کوئی جواز نہیں رہتا۔

چیف صاحب پارلیمنٹ کو عدلیہ سے مشورے کی تجویز تو دیتے ہیں مگر خود اس پر عمل کرتے ہوئے اپنے ادارے کے ہم منصب ججز سے مشورے کی پریکٹس کو رواج نہیں دیتے۔ کوئی فل کورٹ تشکیل دے کر ہی اس کا آغاز کر دیں جو مستقبل کے لئے ایک پریکٹس بن جائے گی جس کی پیروی کرتے ہوئے مسائل کا حل تلاش کرنا آنے والے ججوں کے لئے آسان ہو جائے گا۔

اب میں سمجھتا ہوں کہ ایسے حالات میں چیف جسٹس صاحب کے پاس اپنی تمام جلد بازیوں کے اقدامات، اختیارات کے استعمال اور متنازع فیصلوں کے ازالے کا ایک ہی حل ہے کہ وہ ان تنازعات کو فل کورٹ کے سامنے رکھ کر اپنے آپ کو سرخرو کر لیں اور شاید ان کے پاس یہ آخری موقع ہو۔