انوکھا لاڈلا کھیلن کو چاند کیوں نہ مانگے؟

انوکھا لاڈلا کھیلن کو چاند کیوں نہ مانگے؟
وہ تو لاڈلا بھی ہے اور انوکھا بھی، تو کھیلن کو چاند کیوں نہ مانگے؟ اور اگر انوکھا لاڈلا چاند نہیں مانگے گا تو پھر کون مانگ سکتا ہے؟ ویسے بھی وہ لاڈلا اور وہ بھی انوکھا لاڈلا بھلا کیوں نہ ہو۔۔۔ آنکھ ایک پوش آبادی میں کھولی۔ گو باپ کوئی بہت امیر کبیر یا بڑا زمیندار سرمایہ کار اور جاگیردار نہیں تھا۔ ہاں ایک ایسا سرکاری افسر تھا جسے بڑا گھر، سرکاری ملازم، گاڑی،  اچھی تنخواہ، پیٹرول وغیرہ ملتا تھا۔ اور ساتھ ہی عہدہ کی بدولت ایسی پوزیشن میں ضرور تھا جس میں دولت کی ریل پیل ہوتی ہی ہے۔ یحییٰ خان حکومت نے بھی اسی بنا پر 313 سرکاری ملازمین کے ساتھ انہیں بھی نوٹس بھیجا جن پر کرپشن کا الزام تھا۔ اور نوٹس کا جواب نہ ملنے پر بقول خورشید شاہ وہ بعد ازاں بھٹو حکومت میں سرکاری ملازمت سے فارغ بھی ہوئے۔لیکن نانا تو جالندھر کی امیر کبیر شخصیت تھے اس لئے گھر میں خوشحالی کا راج تھا۔

بہنوں کا اکلوتا بھائی، ماں باپ کی واحد نرینہ اولاد تو پنجاب اور میانوالی کی خاندانی روایات کے مطابق انکھوں کا تارا تو ہونا ہی تھا۔ اردگرد آباد کزنز میں سب سے چھوٹا، بس ماں باپ کے ساتھ خالاوں نے بھی پلکوں پر بٹھایا ، اوپر سے شکل و صورت میں یکتا، لہذا لاڈلا ہونا تو لازم تھا۔

زمان پارک میں پیدا ہوئے تو اس وقت بلکہ آج کے بھی ارسٹوکریٹک تعلیمی ادارے ایچی سن میں پڑھنا بھی ضروری تھا، سو وہاں داخل کرا دیئے گئے۔ ہر خواہش پوری ہونا بھی لازم ٹھہرا۔ ادھر منہ سے بات نکلی، ادھر پوری ہوئی۔ کچھ بڑے ہوئے تو کالج میں اپنی شکل و صورت، اور اس وقت کے فیشن کے مطابق بہترین جسمانی ساخت کی بدولت مقبول ہوئے۔ پھر موصوف کو کرکٹ کا کھیل پسند آیا، ماجد خان اور جاوید برکی جیسے بڑے بھائیوں جیسے کزنز نے مدد کی تو سکول ٹیم میں منتخب ہوگئے۔ فاسٹ باولنگ شروع کی تو گیند کی رفتار اور بال کی کاٹ نے ساتھیوں، ٹیم اور کالج انتظامیہ کو مجبور کیا کہ پلکوں پر بٹھا لیں، سو بٹھا لیا ۔ اب ان کا کیا قصور کہ اس وقت خان محمد اور فضل محمود کے بعد پاکستان  میں فاسٹ باولرز کا فقدان تھا۔ سارا بوجھ اکیلے سرفراز ںواز نے اپنے کندھوں کر اٹھا رکھا تھا۔ آصف مسعود تھے تو سہی، مگر وہ بات نہیں تھی جو معاصر فاسٹ باولرز، اینڈی رابرٹس، مائیکل ہولڈنگ، ڈینس للی، جیف تھامسن، اور چند انگلش باؤلرز میں تھی، سو اس وقت کا پاکستانی بورڈ آف کرکٹ کنٹرول یعنی بی سی سی پی انہیں پلکوں پر بٹھانے پر مجبور ہو گیا۔ پاکستانی ٹیم میں سلیکٹ ہوئے اور پھر آکسفورڈ جیسی جامعہ اور انگلش کاونٹیز نے پلکوں پر بٹھا لیا۔ اٹھتی جوانی، فاسٹ باولنگ، گورا ٹائپ شخصیت اور مردانہ وجاہت، شخصیت کے ایسے اوصاف تھے جو انہیں دیگر ہم عصر کھلاڑیوں سے ممتاز کرتے تھے۔سو گلوبل اسپورٹس میڈیا ںے بھی پلکوں کر بٹھا لیا۔ قسمت ایسی کہ کرکٹ میں جدت اور سفید بال اور نائٹ کرکٹ کے روح رواں کیری پیکر اپنی پلکوں پر بٹھا کر آسٹریلیا لے گئے۔اور پھر جنرل ضیاء الحق کی دور بین نگاہوں نے انہیں دیکھا اور اپنی پلکوں پر بٹھا لیا۔

بھارت کے ساتھ پاکستان کے کرکٹ تعلقات بحال ہوئے۔ کیری پیکر بھی اپنے انجام کی جانب رواں تھے۔ بس حب الوطنی عود کر آ گئی، واپس آگئے۔ اس سیریز میں  وشواناتھ کی وکٹ ایسی لی کہ کہ پاکستانی میڈیا نے پلکوں پر بٹھا لیا۔یہ وہ وقت تھا کہ نوجوانی سے جوانی کے دور میں داخل ہوئے تو یونانی دیو مالائی کردار ٹھہرائے گئے۔ دنیا کے مہنگے ترین ماڈل بنے۔ یورپ کے بالائی طبقہ خاص کر خواتین کی آنکھ کا تارا بنے۔  لیڈی ڈیانا جیسی بڑی خاتون اور پرنس چارلس تک پرستاروں میں شامل ہوگئے اور پھر دوست بنے۔ سیتا وائٹ  اور نہ جانے کن کن مشہور ہستیوں نے  اپنی پلکوں پر بٹھا لیا۔ پھر خوش قسمتی سے کرکٹ ورلڈ کپ  1992 کے فاتح کپتان ٹھہرے تو پوری قوم نے پلکوں پر بٹھا لیا۔ یورپ کے بالائی طبقہ تک رسائی کی بدولت دنیا کے چند دولتمند ترین خاندانوں میں سے ایک گولڈ اسمتھ خاندان تک رسائی ملی تو جمائمہ خان نے پلکوں پر بٹھا لیا۔ اس کے ساتھ ہی جنرل ضیاء الحق کے پیروکار  حمید گل کی پلکیں بھی وا ہوگئیں اور پھر سیاست میں انٹری کے لئے پر تولنے لگے۔ اس دوران پڑوس سے ریکھا، زینت امان، امیتابھ بچن وغیرہ کی پلکیں بھی انہیں بٹھانے کو دستیاب رہیں۔

مگر سیاست میں قدم رنجہ فرمانے سے پہلے والدہ کی وفات نے شوکت خانم کینسر ہسپتال کی چندہ سے تعمیر پر مائل کیا تو آسٹریلیا سے راس کماری اور کراچی سے کینیڈا تک پرستاروں خصوصا خواتین، لڑکیوں اور نوجوان لڑکو ں نے انہیں پلکوں پر رکھ لیا۔ ہسپتال کا خواب پورا ہوا تو سیاسی جماعت بنوا دی گئی۔ کچھ وقت رینگتے رہے۔ پھر آصف زرداری کی جانب سے نواز شریف کے خلاف انہیں پنجاب میں ری لانچ کرنے کی بات شروع ہی ہوئی تو پہلے پاشا صاحب اور پھر ظہیر الاسلام  نے پلکوں پر بٹھا لیا۔ جہاں سے اٹھا کر باجوہ صاحب، فیض حمید صاحب اور ان کی اسٹیبلشمنٹ نے پلکوں پر رکھ لیا۔

ایسی صورتحال میں ایک مشکل درپیش ہو جایا کرتی ہے وہ یہ  کہ اردو زبان کے محاورے بعض حالات میں بہت سخت ہوجاتے ہیں تو انگریزی محاورہ کی جانب قدم بڑھانا پڑتے ہیں۔ یہاں بھی یہی مشکل درپیش ہوئی تو انگریزی کا محاورہ جس میں ڈیولز ایڈووکیٹ بننے کا تذکرہ ہے یاد آگیا۔ اس کا اردو ترجمہ شیطان کا وکیل ہی ہوسکتا ہے۔   تو چلیے اس محاورہ پر ہی عمل کرکے وکالت کرتے ہیں۔ تو صاحبان جسے پیدائش سے بڑھاپے تک، فیملی، سکول، کرکٹ بورڈ، حکمرانوں، دنیا بھر کی خواتین، نوجوان لڑکے لڑکیوں، اور بوڑھوں نے ہمیشہ پلکوں پر بٹھایا۔ بھلا وہ انوکھا لاڈلا نہیں ہوگا تو کون ہوگا؟ اور اب جب وہ کھیلن کو مانگے چاند تو گلا کیسا؟ لیکن یہاں ایک اور مسئلہ درپیش ہے کہ پلکوں پر مکمل ہونے والے اس سفر نامہ میں 15 اپریل کے بعد 9 مئی بھی آتا ہے اور اسی لئے کہا جاسکتا ہے کہ 'اے محبت تیرے انجام پہ رونا آیا'۔

اعجاز احمد صحافت سے وابستہ ہیں اور کئی دہائیوں سے رپورٹنگ کر رہے ہیں۔