جمہوریت کے مامے

جمہوریت کے مامے
پاکستانی سیاستدان کیا واقعی کرپٹ ہیں؟ کیا واقعی انہیں وطن سے کوئی محبت نہیں بلکہ وہ صرف اپنے مال و دولت میں اضافہ کرنے کیلئے ہی اس میدان میں آتے ہیں؟ کیا جمہوریت واقعی کرپشن سکھاتی ہے؟ آئیے حقائق کا جائزہ لیتے ہیں۔

یہ ملکِ خداداد تو حاصل ہی جمہوری روایات کے تحت ووٹ کی طاقت سے کیا گیا لیکن بعد میں ہمیں سبق پڑھایا گیا کہ جمہوریت کوئی اچھا طرز سیاست نہیں یہی وجہ ہے کہ سیاستدان اسے اپنے ذاتی مفاد کیلئے استعمال کرتے ہیں اور یوں کرپشن پروان چڑھتی ہے۔ ساتھ عوام کو یہ بھی سمجھایا گیا کہ آپ جمہوریت کے مقاصد و محاسن سے نابلد ہیں اس لئے پہلے جمہوریت کی الف ب پڑھنا ہوگی اور اس کیلئے 'بنیادی جمہوریت' سے بہتر کوئی نظام نہیں ہو سکتا۔ یوں بلدیاتی کی طرز پر بی ڈی (بیسک ڈیمو کریسی) انتخابات منعقد کئے گئے اور پھر ان سب کو الیکٹرول کالج قرار دیکر ایوب خان صاحب نے منظم دھاندلی کے ذریعہ انتخاب جیتا۔ ان بی ڈی ممبران کو پیسے کے عوض خریدا گیا۔ کیا اس بات سے انکار کیا سکتا ہے کہ پاکستان میں کرپشن کی ابتدا اسی دور سے ہوئی اور پھر پاکستان میں ووٹ خریدنے کے کلچر نے رواج پایا۔

اس کے بعد قوم پر ضیاء الحق ایک عذاب بن کر نازل ہوئے۔ انہوں نے غیر جماعتی بنیاد پر انتخابات کرا کر قوم کو لسانی، نسلی، قبائلی اور مذہبی گروہوں میں تقسیم کر دیا۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ مرحوم نے سندھ کے شہری علاقوں سے جماعت اسلامی اور جمیعت العلامہ پاکستان کا زور توڑنے کیلئے مہاجر قومی موومنٹ جیسی ھشتگرد تنظیم کو پروان چڑھایا۔ کیا لشکر جھنگوی، جیش محمد اور سپاہ صحابہ جیسے خونی مسلکی جتھے اسی دور کی پیداوار نہیں؟ اقوام متحدہ میں مرحوم کے 'تاریخی' خطاب سے قبل قران خوانی کا ڈرامہ اب ساری قوم کو معلوم ہے۔ ان سب کے باوجود باور کرایا گیا کہ وہ مرد مومن اور مر حق تھے۔ 

اب آئیے تیسرے پیٹی بند بھائی کی کارستانیوں کا بھی مختصر جائزہ لیتے ہیں۔ موصوف نے اس وقت کی حکومت کے علم میں لائے بغیر طارق بن زیاد بننے کے شوق میں فوج کو کارگل کے پہاڑوں پر بھیج دیا اور پھر جب لینے کے دینے پڑ گئے تو ناکامی کا سارا ملبہ اس وقت کے وزیر اعظم کے سر ڈال دیا۔ موصوف بھی جمہوریت کے بہت دلدادہ تھے لیکن 'شیم ڈیموکریسی' سے سخت نفرت کی وجہ سے پہلے 'نیب' کے نام سے ایک ادارے کی تشکیل کی گئی اور پھر مسلم لیگ (ن) کے 'کرپٹ' ممبران کو اس کے ذریعہ پاک صاف کر کے اپنی تشکیل کردہ جماعت 'ق لیگ' میں شامل کیا۔ موصوف کے دور حکومت میں ملک اس طرح دھشتگردی کے لپیٹ میں آیا کہ آج تک اس کے اثر سے نہیں نکل پایا۔

9/11 کے بعد اپنے پیشروؤں کی سنت پر عمل کرتے ہوئے سارا ملک امریکہ کے حوالے کر دیا۔ کراچی میں اپنی حمایت یافتہ لسانی اور دہشتگرد تنطیم متحدہ قومی موومنٹ (سابقہ مہاجر قومی موومنٹ) کے ذریعے قتلِ عام  کیا گیا۔ بلوچستان کے معمر سیاستدان سردار اکبر بگٹی کو دھمکی دینے کے بعد جس طرح قتل کیا گیا صوبہ آج تک اس آگ میں جل رہا ہے۔ ہمارے ؛مہربانوں' نے اپنے زر خرید سیاستدانوں کے ذریعہ عوام کو یہ تو باور کرانے کی کوشش کی کہ نواز شریف کی ایما پر سپریم کورٹ پر حملہ ہوا لیکن یہ کوئی نہیں کہتا کہ آمر وقت نے عدالت عظمیٰ کے تمام ہی ججز کو فارغ کر کے گھروں میں نظر بند کر دیا۔ اپنے آپ کو کمانڈو کہنے والا اگر اتنا بزدل ہو کہ اپنے خلاف قائم مقدمات کا سامنا کرنے کا حوصلہ نہ رکھتا ہو تو پھر سوال تو اٹھیں گے کہ ایسے کمانڈو ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے قابل بھی ہیں؟ یہ بتانے کی تو ضرورت ہی نہیں کہ موصوف کو ملک سے کس نے فرار کرایا کیونکہ وہ خود ٹی وی پر کہہ چکے ہیں لیکن کیا کریں ہمارے پاس یہی کچھ ہے جس پر قوم کو گزارہ کرنا ہوگا۔

آج ملک جن گوناگوں مسائل کا شکار ہے اس کے مرکزی کرداروں کا ایک مختصر جائزہ پیش کر دیا ہے۔ امید ہے مستقبل میں عوام اپنے 'مہربانوں' سے ہوشیار رہے گی۔

مصنف ایک سیاسی ورکر ہیں۔