نواز شریف کا خط

نواز شریف کا خط
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس میں حکومت کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ یہ مشکلات اس لئے ہیں کہ آئین، پارلیمان اور جمہور تینوں انتہائی کمزور ہیں جبکہ غیر جمہوری ادارے اور امرا بہت طاقتور ہیں۔ ایسی صورت میں کوئی شخص اگر تین دفعہ ملک کا وزیراعظم بن جائے تو وہ اس کی سیاسی صلاحیت، قابلیت اور عوام میں مقبولیت کا ثبوت ہے، چاہے ہمیں اچھا لگے یا برا۔ اسلئے میں نواز شریف کو ایک باصلاحیت سیاستدان سمجھتا ہوں۔ مگر اصل سوال یہ ہے کہ اس صلاحیت کو انہوں نے استعمال کس طرح کیا ہے۔ اس پر بات کرنے سے پہلے میں اس بات پر بھی روشنی ڈالنا چاہتا ہوں کے پچھلے دس سال میں نواز شریف کے اہم سیاسی فیصلوں سے ملک کی سیاست پر کیا اثر پڑا۔

2009 میں نواز شریف نے وکلا تحریک کے لانگ مارچ میں شمولیت کا اعلان کیا جو بظاہر ایک عوامی تحریک تھی۔ مگر اس کا اختتام فوج کی مداخلت پر ہوا، جب جنرل کیانی کی ٹیلی فون کال پر نواز شریف نے لانگ مارچ منسوخ کر دیا یعنی فوج کی سیاسی مداخلت کو قبول کیا اور اس وقت کی منتخب حکومت کو کمزور کیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ میموگیٹ معاملے میں بھی نواز شریف نے منتخب حکومت کیلئے شدید مشکلات پیدا کیں اور یہاں تک کے عدالت میں پہنچ گئے۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ میموگیٹ کے واقعے کے بعد فوج اور نواز شریف میں تعلقات معمول پر آئے اور وہ ایک دفعہ پھر وزیراعظم کے عہدے تک پہنچے۔

2014 کے دھرنے میں تمام سیاسی پارٹیاں نوازشریف کے پیچھے دیوار بن کر کھڑی ہو گئیں مگر ایک دفعہ پھر ثالثی کیلئے انہوں نے کسی سیاستدان کو نہیں بلکہ جنرل راحیل شریف کو کہا۔ جب پانامہ کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے فوج کے عہدے داروں کو جے آئی ٹی میں شامل کیا تو مجھ سمیت بہت سے لوگوں نے اس پر شدید اعتراض کیا مگر نواز شریف اور ان کی جماعت والے اس کے خلاف کھڑے نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے اسے قبول کر لیا۔ یہاں سے اس انجینئرنگ کا آغاز ہوا جو 2018 کے الیکشن میں دیکھنے کو ملی۔



یہ ساری ماضی کی غلطیاں میں آپ کا کیوں یاد دلا رہا ہوں۔ پاکستان کے موجودہ سیاسی عدم استحکام کی بہت سی وجوہات ہیں، جن میں ایک یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی ایسا بڑا نہیں ہے جو ہمارے درمیان سیاسی اختلافات کو ختم کرائے۔ ایک ایسا شخص جو ایک باپ کی حیثیت رکھتا ہو۔ ایک ایسا شخص جو سیاسی رسہ کشی سے دور رہے اور ہر ایک کو غیرجانبدار ثالث کے طور پر قبول ہو۔

امریکہ میں سابق صدر، جرمنی میں سابق چانسلر اور انگلستان میں سابق وزیراعظم اپنے تجربات اور علم سے بعد میں آنے والوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ تاکہ وہ مسائل حل کریں اور غلطیاں نہ کریں۔ یہ لوگ عملی سیاست سے دور رہتے ہیں تاکہ ہر پارٹی کا سیاستدان بلا خوف اور فکر ان کے پاس آ سکے۔ پاکستان میں یہ ناپید ہے۔ میں یہ امید کر رہا تھا کہ نواز شریف تین دفعہ وزیراعظم رہنے کے بعد ایک بڑے کی حیثیت سے ابھریں گے اور پارٹی اور طاقت کے حصول کی سیاست سے اوپر اٹھ کر سوچیں گے۔ مگر افسوس وہ ایک دفعہ پھر ماضی کی طرح طاقت کے حصول کی دوڑ کا حصہ بن گئے۔ میں یہ مانتا ہوں کہ وہ غصے میں ہیں اور سمجھتے ہیں ان کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ مگر وہ ذاتی تکلیف میں شاید بھول گئے ہیں کہ اس قوم کی ایک بڑی تعداد نے ان کی پارٹی کو ووٹ دے کر صوبائی اور قومی اسمبلی میں پہنچایا اور ان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ ان لوگوں کی خاطر انہیں بڑا بننا چاہیے تھا۔

جو واقعات میں نے اوپر بیان کئے ہیں وہ نواز شریف خود مانتے ہیں کہ ان کی غلطیاں ہیں مگر وہ ایک دفعہ پھر غلطی کر رہے ہیں کہ بذات خود مولانا کے دھرنے کی حمایت کیلئے کھڑے ہو گئے ہیں۔ ہم سب دیکھیں گے کہ کچھ ہی عرصہ بعد نوازشریف خود لوگوں کو کہیں گے کہ ان سے غلطی ہوئی۔

جب کوئی سیاستدان بڑا بننے کو تیار نہیں ہے تو یہ کام فوج نے اپنے ذمہ لے لیا ہے۔ ہر سیاسی کشمکش اور دھرنے میں ثالثی کا کردار فوج ادا کرتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ فوج کا ادارہ سیاسی طور پر مضبوط سے مضبوط تر ہو رہا ہے اور جمہوری ادارے کمزور۔ مولانا کے دھرنے میں بھی یہی ہوگا اور ووٹ کو عزت دو کا مطالبہ کرنے والے انجینئرز کی ثالثی قبول کرتے ہوئے ایک دفعہ پھر اقتدار کی دوڑ میں شامل ہو جائیں گے۔ 70 سال کی تاریخ یہی کہتی ہے۔



موجودہ نظام اور اس کو لانے والے سارے ہی ناکام ہیں۔ اب اس ملک کو ایک نئی جمہوریہ، ایک نئی سوچ اور ایک نئی قیادت کی ضرورت ہے۔