لنگوٹ کے پجاری

لنگوٹ کے پجاری
جب دیکھو رو رہے ہیں۔ ملک کی معیشت تباہ ہو گئی، صحافت پر قدغنیں لگ گئیں، آزادئ اظہار پر پابندیاں لگ گئیں، احتساب کے نام پر انتقام لیا جا رہا ہے اور نجانے کیا کیا۔ لیکن جب بات آتی ہے کہ جمہوریت کی خاطر کچھ کرنے کی، تو آپ کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح اس میں سے اپنے لئے کوئی خفیہ راستہ نکال کر کوئی مفاد حاصل کر لیا جائے۔ اب جب مولانا مارچ کر رہے ہیں تو بھی یہ لوگ کسی اور آسروں پر بیٹھے ہیں۔ سہیل وڑائچ صاحب فرماتے ہیں کہ شاید کسی کو بھاگتے چور کی لنگوٹی مل جائے مگر مسئلہ ہی یہ ہے۔ چور کے پیچھے نہیں بھاگتے، سب لنگوٹ میں خوش ہیں۔

اس پر طرہ یہ کہ راستے میں کہیں کوئی استقبالی کیمپ پر سو، سوا سو بندا اکٹھا کر لیں تو ٹوئٹر پر حامی بڑھکیں اس طرح مارتے ہیں جیسے ایک مکا مار کے سنی لسٹون کو گرا دیا ہو۔ بھئی آپ کو یہ تو کوئی کہہ ہی نہیں رہا کہ آپ کے پاس لوگ نہیں۔ آپ پر تو الزام ہی یہ ہے کہ آپ نکال نہیں رہے اور اگر یہ جھوٹ ہے تو دکھا دیں کتنے لوگ ہیں ریلی میں شامل۔ خود احسن اقبال صاحب فرما چکے ہیں کہ ہم تو صرف جلسہ کریں گے، ہم سے اور کوئی بات نہیں ہوئی۔



دوسری طرف پیپلز پارٹی ہے۔ ان کا رونا یہ ہے کہ نواز شریف صاحب بیمار ہوئے تو انہیں ضمانت دے دی لیکن زرداری صاحب کے لئے کسی ’لبرل‘ نے آواز نہیں اٹھائی کیوں کہ زرداری صاحب پنجابی نہیں۔ پہلے تو انہیں یہ یاد کروانا چاہیے کہ لبرلز کے آواز اٹھانے سے کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ دوسری بات جو انہیں یاد کروانے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ جب ’لبرل‘ چلّا رہے تھے کہ بلوچستان میں یہ مت کرو، سینیٹ میں دونمبری نہ کرو، سینیٹ ہی میں دوبارہ دو نمبری نہ کرو، یہ کسی کے نہیں بنیں گے، تو آپ نے سنی نہیں۔ لوگوں کو یاد رہتا ہے۔ وہ شہباز شریف کو معاف کرنے کو تیار نہیں تو آپ کو بھی اتنی آسانی سے معافی نہیں ملے گی۔ ہاں، زرداری صاحب بیمار ہیں اور انہیں فوری طور پر ضمانت پر رہا کیا جانا چاہیے مگر آپ کا یہ آواز نہ اٹھانے پر رونا نہیں بنتا۔

ان دونوں جمہوریت کی آڑ میں مفاہمت کی چیمپیئن جماعتوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جب مرکزی دھارے کی جماعتیں اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتیں، تو جمہور کی قیادت مولانا فضل الرحمان جیسے مذہب کے ٹھیکیداروں کے ہاتھ میں آ جاتی ہے۔ پورے مشرقِ وسطیٰ میں یہی ہوا۔ اس کو بشار الاسد جیسے آمروں نے اپنے فائدے میں بھرپور طریقے سے استعمال بھی کیا۔ پھر ان مذہبی جماعتوں کے خلاف آپریشن بھی ہوئے اور بغدادی وغیرہ مارے گئے مگر اس دوران بشار الاسد جیسے آمروں نے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط بھی کر لی اور ان کی جمہوری اپوزیشن بھی ختم ہو گئی۔



تو آپ اگر اس آسرے میں ہیں کہ کل کو آپ کو اس کھیل میں کچھ مل جائے گا، کوئی لنگوٹ وغیرہ، تو یاد رکھیں کہ یہ لنگوٹ ان کا ہے اور وہ جس کو چاہتے ہیں، اپنا تن ڈھانپنے کے لئے مستعار دے دیتے ہیں۔ یاد رکھیں، جو لنگوٹ سے آگے کی نہیں سوچتا، تاریخ کے صفحات میں بے ننگ و نام رہ جانا ہی اس کا مقدر ٹھہرتا ہے۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.