• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
بدھ, مارچ 29, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے لئے قانونی جواز لازمی بنا دیا

اسد علی طور by اسد علی طور
نومبر 28, 2019
in تجزیہ, سیاست
2 1
1
سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے لئے قانونی جواز لازمی بنا دیا
14
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

سماعت کا آغاز ہوا تو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل کیپٹن (ر) انور منصور خان سے سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو دی گئی ایکسٹینشن کی دستاویزات اور جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کی دستاویزات پیش کرنے کا حُکم دے کر 15 منٹ کے وقفے کا اعلان کردیا۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے دونوں سابق آرمی چیف سے متعلق ریکارڈ کی طلبی کی وجہ یہ بتائی کہ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ جنرل کیانی کو توسیع دیتے وقت کِس قانون کا سہارا لیا گیا اور جنرل راحیل شریف اگر ریٹائر ہوئے تو کِس قانون کے تحت ان کی ریٹائرمنٹ ہوئی اور مراعات ملیں کیونکہ کل تک تو اٹارنی جنرل کا مؤقف تھا کہ جرنیل کبھی ریٹائر نہیں ہوتا۔

RelatedPosts

‘اکرم شیخ کے مطابق جنرل فیض حمید نے حساس دستاویزات کے لئے ان کے گھر پر ڈاکہ ڈلوایا’

ہئیت مقتدرہ ‘پروجیکٹ 1985’ کے ذریعے اب کپتان کا راستہ روک رہی ہے

Load More

سماعت کے وقفے میں کورٹ کے منجھے رپورٹرز ناصر اقبال بھائی، عمران وسیم، قمر زمان اور دیگر سے ممکنہ فیصلے اور عدالت کے موڈ پر گرما گرم بحث ہوئی۔ ناصر بھائی کا مؤقف تھا کہ عدالت دراصل یقینی بنانا چاہ رہی ہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت کے خلاف فیصلہ دینے سے پہلے حکومت کو دفاع اور قانون سے حل نکالنے کا پورا موقع دیا۔ میں نے انتہائی احترام سے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ نہیں کھوسہ صاحب نے کل آخری سیشن میں واضح اشارہ دے دیا تھا کہ وہ ایکسٹینشن کو کالعدم قرار نہیں دیں گے۔ ایک ساتھی صحافی نے لقمہ دیا کہ آپ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کو جانتے نہیں۔ میں نے ہلکی سی مسکراہٹ سے جواب دیا کہ آج دیکھ لیجئے گا جس چیف جسٹس کھوسہ کو میں جانتا ہوں آپ سب بھی جان لیں گے۔

سینئیر صحافی عمران وسیم نے میرے سامنے سے ڈائری کھینچ کر اپنے سامنے کی اور اُس پر انگریزی زُبان میں تحریر کیا ’باجوہ نو مور‘ اور اپنا نام لکھ کر نیچے دستخط بھی کر دیے۔ میں نے اپنی ڈائری واپس لی تحریر پڑھی اور سر اُٹھا کر عمران وسیم کی طرف دیکھا اور پوچھا ’لگ گئی شرط؟‘ اتنے میں آواز آئی اٹارنی جنرل آ گئے ہیں تو فوری اُٹھ کر وُکلا کی ٹیبل کے ساتھ آ کر کھڑا ہو گیا تاکہ ججز اور اٹارنی جنرل کو صرف سن ہی نہ سکوں بلکہ چہرے کے تاثرات بھی نظر آئیں۔

اٹارنی جنرل نے دونوں سابق آرمی چیفس جنرل کیانی کی مُدتِ ملازمت میں توسیع اور جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کا ریکارڈ تین رُکنی بینچ کو پیش کر دیا۔ تینوں ججز نے قریباً پانچ منٹ تک ریکارڈ کا مطالعہ کیا اور مُشاورت کرنے کے بعد بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ یہ تعیناتی کی نئی سمری پُرانی سمری سے مُختلف کیسے ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا یہ سمری مُکمل طور پر آرٹیکل 243 کی روشنی میں بنی ہے۔ چیف جسٹس کھوسہ نے اٹارنی جنرل سے پوچھا وہ مزید کُچھ فرمائیں گے؟ اٹارنی جنرل نے نفی میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ جو تھا آپ کے سامنے رکھ دیا۔ چیف جسٹس نے اپنا اگلا سوال کیا کہ اب آپ ہمیں اِس بات پر آمادہ کریں کہ آپ نے نئی سمری میں جو طریقہ کار اختیار کیا ہے وہ قانونی ہے۔ چیف جسٹس نے اِس بات پر ناگواری کا اظہار کیا کہ آپ نے سمری میں لِکھ دیا ہے کہ یہ سمری سُپریم کورٹ کے حُکم پر تیار ہوئی ہے اور یہ تو ایسا لگ رہا ہے کہ اگر یہ غلط بھی ہے تو سُپریم کورٹ پر ڈال دو جیسے بعض ایف آئی آرز میں ایس ایچ او لِکھ دیتے ہیں کہ سُپریم کورٹ کے حُکم پر۔

اٹارنی جنرل نے ایسا کرنے کی وجہ بیان کی کہ آپ کا آرڈر اتنا تفصیلی تھا تو لکھنا پڑا۔ چیف جسٹس کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ تعیناتی تو آئین کے تحت ہونی تھی لیکن حکومت قانون ڈھونڈتی رہی اور ترامیم کرتی رہی۔ جسٹس منصور نے نئے نوٹیفکیشن کو دیکھتے ہوئے سوال پوچھا کہ آئین میں تین سال کا اب کہاں درج ہے؟ اٹارنی جنرل کیپٹن (ر) انور منصور خان نے جواب دیا کہ آئین میں تو نہیں لکھا بس خود ہی لِکھ دیتے تھے لیکن اب ترمیم کر کے مُلازمت کی مُدت شامل کر دیں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پہلے آپ یہی کرتے رہے ہیں، جو کتاب ہمیں دی وہ کسی کو نہیں دی تھی پہلے کبھی، سینے سے لگا کر رکھی ہوئی تھی۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ جِس نے جو چاہا کر دیا جبکہ قانون میں اتنا بڑا خلا تھا اور اب پہلی بار آئینی فورم پر آئے ہیں تو سوچ رہے ہیں کہ اِس کو سٹرکچر تو کرنا پڑے گا۔ چیف جسٹس نے بھارت کی مثال دے کر کہا کہ بھارت کے قوانین دیکھ لیں وہاں پر درج ہے کہ تعیناتی کیسے ہوگی، ریٹائرمنٹ کیسے ہوگی اور برطرفی کیسے ہوگی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اُٹھایا کہ آرٹیکل 243 واضح طور پر آرمی چیف کی تعیناتی، تنخواہ اور مراعات کا ذِکر کرتا ہے لیکن نوٹیفکیشن میں تنخواہ اور مراعات کا کہیں ذِکر نہیں جبکہ آرٹیکل 243 آرمی چیف کے عہدے کی معیاد کی بات نہیں کرتا لیکن وہ آپ نوٹیفکیشن میں لِکھ لائے ہیں۔

اِس موقع پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اہم ریمارکس دیے کہ کل سوشل میڈیا پر ہمارے خلاف مُہم شروع کر دی گئی کہ یہ ججز سی آئی اے کے ایجنٹ ہیں، ففتھ جنریشن وار کا حصہ ہیں اور بھارت کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے بتایا کہ انہوں (چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ) نے تو کسی سے پوچھا یہ ففتھ جنریشن وار کیا ہے؟ اٹارنی جنرل نے سوشل میڈیا مُہم پر حیرانگی اور افسوس کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک ضابطہ ہونا چاہیے جِس کے تحت طے ہو کہ آرمی چیف کی مُدت تین سال ہے تاکہ مُستقبل کے لئے بھی کام آئے اگر ہم ایسا کر دیں گے تو نظیر قائم ہو جائے گی۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سر اِس سے پہلے بھی یہ ہوتا رہا ہے لیکن چیفس ریٹائر ہو کر پینشن لیتے رہے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل کیپٹن (ر) انور منصور علی خان کو ٹوکا اور ریمارکس دیے کہ کل تو آپ کو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ جرنیل ریٹائر بھی ہوتا ہے۔

بینچ کے سربراہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ اِس کے لئے قانون سازی کی ضرورت ہے اور وفاقی حکومت اِس معاملے کو دیکھے۔ اٹارنی جنرل کیپٹن (ر) انور منصور خان نے اِس موقع پر آئینِ پاکستان کو نقائص پر مبنی دستاویز قرار دیتے ہوئے آئین کی کتاب ہاتھ میں اُٹھا کر دلیل دی کہ یہ کتاب بہت قابل ذہنوں نے بنائی تھی لیکن پھر بھی اِس میں بہت سے نقائص ہیں۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل کو جواب دیا کہ آئین کی کتاب میں نقائص ہوں بھی تو ہمارے لئے یہ کتاب بہت مُحترم ہے۔ اِس موقع پر بینچ کے کم گو رُکن جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل نے اہم ریمارکس دیے کہ نئی قانون سازی کرتے وقت یہ بھی آئین میں طے کر لیں کہ مُدتِ ملازمت میں توسیع ہوگی یا نہیں۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو حُکم دیا کہ اِس دستاویز سے سُپریم کورٹ کا نام نکال دیں تاکہ یہ تاثر نہ جائے کہ قانون سازی کے لئے آپ ہمارا کندھا استعمال کر رہے ہیں ورنہ مُستقبل کی قانون سازی میں بھی یہی نظیر استعمال ہوگی۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ وہ اِس پر عمل کریں گے۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل کو تسلی دی کہ ہم آپ کو آج ہی قانون بنا کر لانے کا کہہ بھی نہیں رہے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ قانون بنانے میں کتنا وقت چاہیے؟ اٹارنی جنرل نے قانون سازی کے لئے تین ماہ کا وقت مانگا۔

اِس دوران آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم روسٹرم پر آ گئے۔ اٹارنی جنرل کیپٹن (ر) انور منصور خان نے معزز ججز کو بتایا کہ فروغ نسیم کی وکالت کا مسئلہ بھی حل ہو چُکا اور اُن کا لائسنس بحال ہو گیا ہے۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مُسکرا کر آبزرویشن دی کہ ہمارے پاس آنے سے بہت سے مسئلے حل ہو جاتے ہیں، لوگ ہمارے پاس آتے نہیں ہیں اور کہتے ہیں نوٹس لے لیں۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اِس موقع پر آرمی چیف کی مُدتِ ملازمت کے خلاف پیٹشنر ریاض حنیف راہی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ دیکھیں راہی صاحب ہمارے پاس آئے تو مسئلے کا حل نکل آیا ہے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جنرل کیانی کی ملازمت میں توسیع کا ریکارڈ پڑھتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اِس میں ایکسٹینشن کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اِسی طرح جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کا ریکارڈ پڑھتے ہوئے ریمارکس دیے کہ وفاقی حکومت اُن کی ریٹائرمنٹ منظور کی ہے رولز کے مُطابق لیکن رولز میں تو کہیں درج ہی نہیں کہ جرنیل ریٹائر ہوتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہم یہ قانون میں تین ماہ میں شامل کر دیں گے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ پھر ہم ایکسٹینشن بھی تین ماہ کی نا دے دیں؟ اٹارنی جنرل نے درخواست کی کہ جو بھی قانون بنے گا وہ آج کی تاریخ سے رائج ہوگا اِس لئے آپ ایسا کوئی مشروط فیصلہ مت دیں۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے یہ بھی کہا کہ یہ وزارتِ دفاع کی جو سمری آپ لائے ہیں یہ غیر ضروری ہے اور اِس میں سے آپ سُپریم کورٹ کا حوالہ نکال دیں۔ اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کروائی کے سُپریم کورٹ کا حوالہ ختم کر دیا جائے گا۔ چیف جسٹس نے حکومت کی قانونی ٹیم کو مُخاطب کر کے کہا کہ ہم آپ کو آپ کے فائدہ کی بات بتا رہے ہیں لیکن آپ کو سمجھ نہیں آ رہی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس کی بات میں اپنی بات شامل کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ہم حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور حکومت کی مدد کر رہے ہیں۔

سماعت عدالتی وقفہ کی طرف بڑھ رہی تھی تو چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل اور بیرسٹر فروغ نسیم کو طنزیہ انداز میں کہا کہ کل آرمی چیف کو آپ کے ساتھ بیٹھ کر خود دستاویزات تیار کروانی پڑیں اور آپ نے اِس سب عمل میں آرمی چیف سے مُشاورت کی حالانکہ آرمی چیف کا وقت بہت قیمتی ہوتا ہے لیکن کتنا زیاں ہوا وقت کا کل۔ چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ آرمی چیف مُلک کا دفاع بھی دیکھیں اور اپنی ایکسٹینشن کے معاملات بھی صرف آپ لوگوں کی وجہ سے انہیں دیکھنے پڑیں۔ اِس موقع پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل کو حُکم دیا کہ وہ ایک بجے تک حکومت سے چھ ماہ کی انڈر ٹیکنگ لے کر آئیں کہ حکومت چھ ماہ میں آرمی چیف کی ملازمت کی مُدت پر قانون سازی کرے گی اور پھر وہ دو بجے تک شاٹ آرڈر جاری کر دیں گے۔ اِس کے بعد ججز اُٹھ کر اندر چلے گئے۔

کورٹ نمبر ون سے باہر نکلا تو کاشف عباسی، اُن کی اہلیہ مہر عباسی، ماریہ میمن اور شہزاد اقبال کھڑے تھے۔ کاشف بھائی نے اپنے مخصوص انداز میں پوچھا ہاں بچہ کیا ہوا؟ میں نے جواب دیا کہ وہی جو کل نظر آرہا تھا آخری سیشن میں۔ انہوں نے اتفاق کیا کہ جب سب کُچھ وزارتِ قانون پر ڈالا گیا تو اندازہ ہوگیا تھا کہ آرمی چیف کی مُدتِ ملازمت میں توسیع کو نہیں روکا جائے گا۔ ماریہ میمن نے شرارتی انداز میں پوچھا پوری سماعت کا ون لائنر نتیجہ دو اسد۔

میں نے اُن کی کروائی گئی بال کو بھانپتے ہوئے مُسکرا کر شہزاد بھائی کی طرف دیکھ کر جواب دیا کہ جیو نیوز پر ارشاد بھٹی اگلے تین سال بھی پروگرام رپورٹ کارڈ میں تجزیہ دیتے رہیں گے۔ سب نے ایک بُلند قہقہ لگایا۔

بہرحال اب سُریم کورٹ نے ایک مُختصر فیصلے میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مُدتِ ملازمت میں قانون سازی سے مشروط کر کے چھ ماہ کی توسیع دے دی ہے۔ سُپریم کورٹ نے مزید قرار دیا کہ قانون میں گنجائش نہیں لیکن عدالت تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ اب میرے ذہن میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے الفاظ گونج رہے ہیں کہ ہمارے لئے کوئی شخص طاقتور نہیں، اگر طاقتور ہے تو صرف قانون ہے۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیراعظم عمران خان کے طنز کا جواب دیتے ہوئے دو مُنتخب وزرائے اعظم کو مُدت پوری کرنے سے پہلے نکالنے کا کریڈٹ بھی لیا تھا اور آج یقیناً اُن کے کریڈٹ پر ایک آرمی چیف کی ملازمت کی مُدت ملازمت میں چھ ماہ کی توسیع بھی آ گئی۔

ریٹائر ہونے سے صرف تین ہفتے قبل چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے آرمی چیف کی مُدتِ ملازمت میں چھ ماہ کی توسیع ایک ایسے قانون کے تحت دی ہے جِس کو بننے میں ابھی چھ ماہ باقی ہیں اور یہ بھی مُمکن ہے کہ یہ قانون چھ ماہ بعد بھی نہ بن پائے لیکن چھ ماہ کی ایکسٹینشن ہو چکی۔

Tags: General Bajwa extensionاسد علی طورجنرل باجوہ ایکسٹنشنجنرل باجوہ توسیعجنرل باجوہ کیسجنرل قمر جاوید باجوہنیا دور
Previous Post

طلبہ یکجہتی مارچ: پاکستان کے کس دشمن کو بہتر تعلیم سے مسئلہ ہے

Next Post

آپ کی عمر کتنی ہے؟

اسد علی طور

اسد علی طور

Related Posts

ہئیت مقتدرہ ‘پروجیکٹ 1985’ کے ذریعے اب کپتان کا راستہ روک رہی ہے

ہئیت مقتدرہ ‘پروجیکٹ 1985’ کے ذریعے اب کپتان کا راستہ روک رہی ہے

by حسنین جمیل
مارچ 28, 2023
0

جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء زوروں پر پہنچ چکا تھا۔ سماج میں جنرل ضیاء الحق کے خلاف نفرت عروج پر تھی...

طاقت کے عالمی سنگھاسن پہ پھر سے کمیونسٹ بلاک براجمان ہو رہا ہے؟

طاقت کے عالمی سنگھاسن پہ پھر سے کمیونسٹ بلاک براجمان ہو رہا ہے؟

by یوسف بلوچ
مارچ 27, 2023
0

ایک بات تو ہمیں برسوں کی طرح اس بار بھی پلے باندھ لینی چاہئیے کہ بین الاقوامی طور پر دو ممالک کی...

Load More
Next Post
آپ کی عمر کتنی ہے؟

آپ کی عمر کتنی ہے؟

Comments 1

  1. Khalil ur Rahman says:
    3 سال ago

    اس وقت حکومت کو اپوزیشن سے زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔وہ یہ چاہتے ہیں کہ جنرل باجوہ ان کا مشکل وقت کو دھکا لگا دیں۔بعد میں چلے بھی گئے تو حکومت کو کوئی مصیبت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا،کوئی قانون پاس نہیں ہو گا،بس حکومت کو وقت چاہیے تھا اپوزیشن سے جان چھڑانے کا، وہ ان کو مل گیا،کیونکہ حکومت اپوزیشن سے مقابلہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہے اور نہ ہی سامنا کر سکتی ہے اسپشلی مولانا فضل الرحمان سے، اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ فوج کے ہوتے ہوئے مولانا فضل الرحمان سے بچ بچا کر نکل جائیں،

    جواب دیں

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

by شاہد میتلا
مارچ 22, 2023
1

...

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

by ہارون خواجہ
مارچ 18, 2023
1

...

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

by رضا رومی
مارچ 20, 2023
0

...

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

by مزمل سہروردی
مارچ 15, 2023
1

...

جنرل فیض حمید

نواز شریف کو نکالنے کے ‘پروجیکٹ’ میں باجوہ اور فیض کے علاوہ بھی جرنیل شامل تھے، اسد طور نے نام بتا دیے

by نیا دور
مارچ 14, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In