کھاریاں میں شیعہ نوجوان کا جنازہ: مولوی نے وہی کیا جو اس کے مسلک نے سکھایا

اپنے بچپن میں ہمیں نہیں پتہ تھا کہ ہم کون ہیں۔ محرم میں سبیلیں بھی لگتی تھیں، ربیع الاول کی نیاز بھی کھائی جاتی تھی۔ مگر گذشتہ کچھ عرصے میں مسلکی بنیادوں پر منافرت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ آج کھاریاں میں ایک لڑکا گاڑی کی ٹکر سے مر گیا تو اس کا جنازہ پڑھانے کے لئے محلے میں کوئی تیار نہ ہوا۔ وجہ صرف یہ تھی کہ یہ لڑکا شیعہ مسلک سے تعلق رکھتا تھا۔

جی ہاں، کھاریاں کے محلہ نیو آڑا کے رہائشی ’ہینو‘ کا جنازہ محض اس لئے نہیں پڑھایا گیا کہ وہ شیعہ تھا۔ علاقہ مکینوں کے مطابق ہینو ایک نشے کا عادی نوجوان تھا۔ اس کے اصل والد کو کوئی نہیں جانتا کیونکہ ہینو اور اس کے دو بھائیوں کی ماں کی اس علاقے میں دوسری شادی ہوئی تھی۔ کچھ عرصہ قبل ماں کا بھی انتقال ہو چکا تھا۔ دونوں چھوٹے بھائی بھی نشے کے عادی تھے اور وہ بھی اس دنیا میں نہیں رہے تھے۔

نشے کا عادی یہ نوجوان لیکن خود کو مولا علی کا عاشق کہتا تھا اور محرم میں زنجیر زنی اور ماتم بھی کیا کرتا تھا۔ بس، اس کا یہی جرم اتنا بڑا ثابت ہوا کہ اس کا جنازہ تک پڑھانے سے انکار کر دیا گیا۔



علاقہ مکینوں کے مطابق ہینو کے ایکسیڈنٹ کی اطلاع ملی تو کچھ لوگوں نے علاقے کی مسجد کے مولوی صاحب کو جنازہ پڑھانے کے لئے بلانے کی کوشش کی۔ مولوی صاحب، جن کا تعلق بریلوی مسلک سے بتایا جاتا ہے، نے جنازہ پڑھانے سے انکار کر دیا۔ مسجد سے کوئی اعلان نہ ہوا، جس کی وجہ سے لوگ بھی اس بارے میں جاننے سے قاصر رہے۔ جو اکا، دکا لوگ ملے، وہ اس وجہ سے جنازہ پڑھنے کے لئے راضی نہ ہوئے کہ مولوی صاحب نے ہی انکار کر دیا تھا تو وہ کیسے جنازہ پڑھ سکتے تھے؟

اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے دو نوجوانوں نے ہی اس جنازے کی تدفین کا فیصلہ کیا، اور ایک شیعہ مولوی سے جنازہ پڑھانے کی استدعا کی۔ تب کہیں جا کر یہ جنازہ پڑھایا گیا، اور یہ دونوں نوجوان اس جنازے کو لے کر قبرستان کی طرف چل پڑے۔ عینی شاہدین کے مطابق راستے میں دو رکشے والوں نے یہ منظر دیکھا تو وہ بھی جنازے میں شامل ہو گئے۔ اور یوں اس یتیم کی میت کو چار کندھے میسر آئے۔ جنازہ پڑھا دیا گیا۔ جنازہ تو پڑھا ہی دیا جاتا ہے۔ سلمان تاثیر کا جنازہ پڑھانے سے انکار کیا گیا تھا، وہ بھی ادا لیکن ہو گیا تھا۔ مشعال خان کا جنازہ نہ پڑھنے کے لئے بھی مسجد سے اعلانات کیے گئے تھے۔ تو کیا جنازہ نہ ہوا تھا؟ جنازہ تو ہو ہی جاتا ہے۔ زیادہ لوگ ہوں تو جنازہ ہلکا لگتا ہے۔ کم ہوں تو بھاری۔ لیکن یہ جنازہ ان چار لوگوں پر بھاری نہیں ہوتا جو پورے علاقے کا فرضِ کفایہ ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ مرنے والا بھی مر چکا ہوتا ہے، معاشرے کی نفرتوں اور کدورتوں سے بے نیاز ہو چکا ہوتا ہے۔ یہ جنازے تو ان پر بھاری ہوتے ہیں جو انہیں پڑھنے سے انکار کرتے ہیں۔ یہ جنازے تو اس معاشرے، اس قوم پر بھاری ہوتے ہیں جو انہیں پڑھنے سے انکاری ہوتی ہیں۔

ہینو تو مر گیا۔ لیکن کیا ہم نے اپنے ارد گرد موجود معاشرے کی بے حسی پر ایک نظر ڈالنے کی کوشش کی ہے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ مسلکوں، گروہوں اور ذات پات کے نام پر بٹی اس قوم نے ہینو کا جنازہ نہ پڑھ کر اس غریب نوجوان کی نہیں، اپنے آپ کی تذلیل کی ہے؟ ذرا جائیے اور پڑھیے ان مسالک کے بڑے کیا لکھ گئے ہیں۔ دوسرے مسالک کے لئے اپنے ماننے والوں کے دلوں میں سوائے بغض اور کینہ بھرنے کے ان so-called علما نے آخر کیا ہی کیا ہے؟ ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ نہ ملاؤ، دوستیاں مت رکھو، اکٹھے کھانا نہ کھاؤ، ایک دوسرے سے بات چیت نہ کرو، ایک دوسرے کو سلام نہ کرو، تجارت نہ کرو، یہاں تک کہ ’بد عقیدہ‘ مر جائے تو اس کا جنازہ تک نہ پڑھو۔

یہ ان کی تعلیمات ہیں۔ کوئی افسانہ نہیں۔ یوں ہی لکھا گیا ہے۔ اور ماننے والے انہی احکامات پر عمل تو کر رہے ہیں۔



قرآن نے تو حکم دیا تھا کہ ’بے شک وہ جنہوں نے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا اپنے دین کو اور بن گئے وہ گروہ گروہ، نہیں ہے تمہیں ان سے کوئی واسطہ‘۔ الفاظ پر غور کیجئے، سامعین۔ ’نہیں ہے تمہیں ان سے کوئی واسطہ‘۔ کن سے؟ ’جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا‘۔ اور ربِ کائنات سورۃ الانعام کی آیت نمبر 159 ہی میں آگے فرماتا ہے کہ ’اُن کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ پھر وہی ان کو بتائے گا کہ وہ کیا کرتے رہے؟‘

ایک جنازہ ہی تو تھا، اللہ کے سپرد ہی تو کیا جانا تھا۔ پھر اللہ دیکھ لیتا کہ وہ کیا کرتا رہا۔ لیکن ان زمینی خداؤں سے کوئی کیا کہے، جو اللہ کے احکامات کی نفی کرتے ہیں، اس کے کرنے کے کام اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں۔

ہینو کا جنازہ پڑھ دیا گیا۔ مگر اس کی قبر میں شاید ہینو کے ساتھ اس قوم کی بے حسی بھی سو رہی ہے۔ موت تو ہینو کی ہوئی تھی، پر گور پیا کوئی ہور۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.