• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
منگل, جنوری 31, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

مشرف کی سزا، مقدس گائے اور ریاست کا طرز حاکمیت

اکرام راجہ by اکرام راجہ
دسمبر 21, 2019
in تاریخ, تجزیہ, جمہوریت, حکومت, سائنس
4 0
0
مشرف کی سزا، مقدس گائے اور ریاست کا طرز حاکمیت
21
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

ریاستوں اور مملکتوں کو دستور/ آئین پر چلنا ہوتا ہے۔ ملک کا آئین کیسا ہوگا اس پر بحث ممکن ہے۔ عموما نوزائیدہ ریاستوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہوتا ہے کہ آئین کیسا ہو۔ اس کی بنیاد کن چیزوں پر رکھی جائے۔ جمہوری ممالک میں یہ مسئلہ منتخب عوامی نمائندے طے کرتے ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد بھی یہی مسئلہ سامنے آیا۔

بھارت اور پاکستان برطانوی تسلط سے نکلے تو انکے سامنے سوال تھا کہ کیا اب دونوں نئی ریاستوں کو پرانے آئین (برطانوی ہند کے آئین) پر چلنا ہے یا نہیں، بلاشبہ پاکستانی قوم کو برطانوی آئین نامنظور تھا۔ قوم کے بڑوں نے سوچ بچار شروع کی، آخر ہمارا آئین کیسا ہونا چاہیے۔ طے پایا اسلام اور شریعت ہمارے ملکی آئین کی اساس ہو گی۔

RelatedPosts

پاکستان میں جمہوریت کی آڑ میں پاکستانی عوام پر شخصی آمریت مسلط

جدید مغربی طرزِ جمہوریت، انڈین نیشنل کانگرس اور متحدہ قومیت کی تشکیل کا نام نہاد فلسفہ

Load More

قرارداد مقاصد اسی کا نام ہے۔ ملک میں پہلی بار 1956 کا آئین بنا۔ بدقسمتی سے 1958 میں ایک فوجی آمر نے اس آئین پر شب خون مارا۔ پھر 1962 میں ایک دوسرا آئین ہمارے سامنے لایا گیا۔ اس بار قوم تقسیم ہو چکی تھی۔ آئین جیسی مقدس چیز قوم کا اجتماعی شعور ظاہر کرتا ہے۔ کسی بھی ملک کا آئین دراصل اس ملک کے عوام اور اسکی سوچ کی نمائندگی کرتا ہے۔ پاکستان میں بدقسمتی سے عوام کا حق حکمرانی چھن چکا تھا۔ ڈکٹیٹر ایوب نے 1962 میں اپنی مرضی کا آئین قوم کے سر پر تھونپا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ 70 تک ملک کی بنیادیں اس قدر کھوکھلی ہو چکی تھیں کہ 1971 میں سانحہ مشرقی پاکستان اس قوم کو سہنا پڑا۔

اب کی بار بچے کچے پاکستان کو محفوظ کرنے کا سوال تھا۔ ڈکٹیٹروں نے حکومت سویلینز کے حوالے کی اور ذوالفقار علی بھٹو نے 1973 میں ایک نیا آئین دیا جسے عام طور پر 73 کا آئین کہا جاتا ہے۔

اس کے بعد سے آج تک یہی آئین پاکستانی ریاست کے امور چلانے کا ذمہ دار ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ آمروں نے اسے بھی پہلے 1977 اور پھر 1999 میں پامال کیا یعنی ملک کے منتخب عوامی نمائندوں نے پاکستان کو مسقبل کیلئے جو سمت دی اسے دو بار دبوچا گیا۔ کہا گیا کہ یہ آئین تو محض کاغذ کا ٹکڑا جسے ردی کی ٹوکری میں ہونا چاہیے۔ اس کا خمیازہ پوری پاکستانی قوم نے بھگتا اور آج بھی بھگت رہی ہے۔

General Ziaul Haq taking the oath of office of President, 1978

ضیاء دور کی طالبانائزیشن اور اسلامی بنیاد پرستی ہو یا مشرف دور کی روشن خیالی اور سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ، اس ملک کو ان دونوں آمروں کے فیصلوں کا ذرہ برابر بھی فائدہ نہ ہوا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ ان ادوار کے فیصلے پاکستانی قوم کے فیصلے نہیں تھے، یہ مسلط کردہ فیصلے تھے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ ان فیصلوں میں ڈکٹیٹروں کو بھی خود امریکہ سے ڈکٹیشن ملتی رہی تاہم  ان کے پاس طاقت تھی، انہوں نے قوم کے فیصلے طاقت کے بل بوتے پر کئے۔ ان کے سامنے کوئی ضابطہ نہ تھا، نہ ہی وہ کسی آئین کو مانتے تھے۔ انہوں نے بظاہر نام نہاد عوامی نمائندے بھی پارلیمان کی سیٹوں پر بٹھا رکھے تھے۔ پارلیمنٹ ہاؤس کے بینچز شاید ان ادوار میں آج کی نسبت زیادہ آباد تھے۔ وزرائے اعظم بھی تھے۔ کابینہ بھی تھی، سب کچھ ویسے ہی تھا۔ اگر کچھ نہیں تھا تو وہ ملکی آئین تھا۔ جس کی حیثیت جنگ میں مال غنیمت کیساتھ جیتی ہوئی ایک لونڈی کے جیسی تھی کہ جب بادشاہ کا دل کیا رکھ لی، دل بھر آیا تو دربار بدر کر دی۔

جنرل مشرف نے اسے پہلے 12 اکتوبر 1999 کو دربار بدر کیا پھر 3 نومبر 2007 کو دوسری بار دھکے دے کر باہر نکال دیا۔ یہ لونڈی جن کی ملکیت تھی انہیں معلوم ہی نہ تھا کہ اس پر حق ان کا ہے، بلکہ انہیں بھی بتایا یہی گیا تھا کہ اس لونڈی کی حیثیت تو محض طوائف کی سی ہے۔

اصل چیز تو ملک ہے۔ سلامتی تو اسکی ہونی چاہیے۔ ملکی سلامتی کا یہ نظریہ آج بھی ہلکا نہیں پڑا۔ صرف مشرف ہی نہیں ایوب، یحیی اور ضیاء سبھی نے اس آئین کو ردی کی ٹوکری میں پھینکے رکھا۔ ضیاء بہادر نے تو اس میں من مرضی کی حکومتیں بنانے کا بھی خوب بندوبست کر رکھا تھا۔ پرانے وقتوں میں دشمن لونڈیوں سے بھی نکاح کر کے انہیں عزت بخش لیتے تھے مگر مرد مومن نے تو اسے طوائف ہی بنائے رکھا۔

خیر بحث یہ نہیں کہ ماضی میں ملکی آئین کیساتھ کیا کچھ کیا گیا بلکہ موضوع یہ ہے کہ آخر اس آئین کا فیصلہ ہو کیوں نہیں جاتا؟ کیا یہ ایک قوم کی توہین نہیں کہ ستر سال گزر جانے کے باوجود آج بھی اس سے ایک فیصلہ نہیں ہو پارہا۔ لفظ ”آئین “کا مطلب اس قوم کو سمجھنے کیوں نہیں دیا جا رہا؟

اکیسویں صدی کی دوسری دہائی بھی ختم ہونے جا رہی ہے مگر پاکستان کی سلامتی آج بھی اداروں اور شخصیات کو بتایا جا رہا ہے۔ کوئی انہیں یہ کیوں نہیں سمجھا پاتا کہ برطانیہ کا تحفظ افواج نے نہیں آئین برطانیہ نے کر رکھا ہے۔ افواج اگر ملکی سلامتی کی ضامن ہوتیں تو سوویت یونین کبھی نہ ٹوٹتا۔ آج روس اور بیلا روس اگر علیحدہ ہیں تو اسکی صرف ایک وجہ “مشترکہ روسی آئین” کا خاتمہ ہے۔ بنگلہ دیش کی دھرتی تو وہی مشرقی پاکستان والی ہی ہے۔ پھر کیا ہوا کہ نام بدل گیا۔ وجہ صرف ایک ہی ہے ”مشترکہ پاکستانی آئین“ برقرار نہ رہ سکا۔ . روس تو شاید سیکھ چکا ہو مگر ہم کب سیکھیں گے؟

پارلیمان، افواج، عدالتیں سب محض عمارتوں اور اداروں کے نام ہیں۔ انہیں اگر کسی نے وجود بخشا ہے تو وہ ہے لفظ ‘آئین’ ہے۔  ریاستوں اور مملکتوں نے اپنے امور اسی آئین کے تحت چلانے ہوتے ہیں، جہاں ریاستی ادارے آئین کی پیروی کی بجائے آئین کو اپنی پیروی میں لگا دیں وہاں مملکتیں کمزور ہو جاتی ہیں۔ پھر چاہے وہاں کی افواج کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہوں وہاں اس حد تک تقسیم اور خلیج پیدا ہو جاتی ہے جو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتی ہے۔

دنیا کی ماڈرن ہسٹری میں ریاستوں نے ‘مقدس گائے’ کے پرانے تصور کو ترک کر دیا ہے۔ جوابدہی جدید جمہوریتوں اور ریاستوں کی اساس بن چکی ہے۔ جدید جمہوری ریاستوں میں اس جوابدہی accountability کے تصور نے دراصل آئین پر بھروسے اور اعتماد کا درس دیا ہے۔ اب مملکتیں افراد یا ادارے نہیں بلکہ دستور کا نام ہیں۔ جس دستور کی جہاں حد ختم ہو گئی سمجھ لیں آگے دوسرا ملک شروع ہو گیا۔ نظام فکر بدل چکا ہے۔ بائیولوجیکل سائنس کیساتھ ساتھ علوم سیاسیات میں بھی وسعت آ چکی ہے. اب ارسطو کا نظریہ ریاست تو چھوڑئیے، گزشتہ صدی کے میکس ویبر، کارل مارکس اور اینگلز کے نظریات بھی متروک ہوتے جارہے ہیں۔

آپ authoritarian بن کر ماضی کو ہمیشہ کیلئے آباد نہیں رکھ سکتے، آپ کو دوسرے اداروں کو بھی برابر تسلیم کرنا ہی ہو گا۔ اسی طرز کا نام institutionalism  ہے۔ یہی جدید ریاستوں میں آئین کا حلیہ ہے اور یہی پاکستان کا مقدر ہے اور یہی ‘آئین پاکستان’ ہے۔

 

 

Tags: آئین پاکستانجمہوریت
Previous Post

پرویز مشرف پر آئین شکنی کا الزام تو لگایا جاسکتا ہے لیکن غداری کا نہیں، علی محمد خان

Next Post

بچوں کے تحفظ کا بل “زینب الرٹ” متفقہ طور پر منظور

اکرام راجہ

اکرام راجہ

اکرام راجہ صحافت کے شعبے سے منسلک ہیں

Related Posts

فیض حمید صاحب، سب اچھا نہیں ہے!

فیض حمید صاحب، سب اچھا نہیں ہے!

by عاصم علی
جنوری 31, 2023
0

5 ستمبر 2021 کے دن سرینہ ہوٹل کابل میں ایک صحافی کے سوال کے جواب میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی آیس...

مینگورہ؛ ڈی پی او سوات کے مبینہ ‘ہٹ مین’ کے ہاتھوں نوجوان قتل

مینگورہ؛ ڈی پی او سوات کے مبینہ ‘ہٹ مین’ کے ہاتھوں نوجوان قتل

by طالعمند خان
جنوری 30, 2023
0

جب ریاست خود اپنے شہریوں کی قاتل بن جائے اور اس کے ادارے خصوصاً سکیورٹی فورسز کو شہری صرف شکار کی مانند...

Load More
Next Post
اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے، بس کر دیں

بچوں کے تحفظ کا بل "زینب الرٹ" متفقہ طور پر منظور

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

فیض حمید صاحب، سب اچھا نہیں ہے!

فیض حمید صاحب، سب اچھا نہیں ہے!

by عاصم علی
جنوری 31, 2023
0

...

Aamir Ghauri Nawaz Sharif

نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟

by عامر غوری
جنوری 30, 2023
0

...

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

by عاصم علی
جنوری 18, 2023
0

...

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

by طارق بشیر
جنوری 18, 2023
0

...

ایک اقلیتی حقوق کے کمیشن کی تشکیل کیسے بارآور ثابت ہو سکتی ہے؟

ایک اقلیتی حقوق کے کمیشن کی تشکیل کیسے بارآور ثابت ہو سکتی ہے؟

by پیٹر جیکب
جنوری 14, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

Cover for Naya Daur Urdu
64,514
Naya Daur Urdu

Naya Daur Urdu

پاکستان کی ثقافت اور تاریخ کو دیکھنے کا ایک نیا زاویہ

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In