آرمی ایکٹ بل پر عوامی رائے عامہ اور سیاسی جماعتوں پر تنقید

آرمی ایکٹ بل پر عوامی رائے عامہ اور سیاسی جماعتوں پر تنقید
اگرچہ سیاسی جماعتوں نے آرمی ایکٹ بل کی غیر مشروط یا مشروط حمایت کی ہے اور ووٹ بھی دیا ہے مگر چاہے وہ حکومتی سیاسی جماعتیں ہوں یا اپوزیشن سیاسی جماعتیں، انہوں نے اپنے حمایتیوں، سپورٹرز، اور ووٹرز سے یہ نہیں کہا کہ وہ آرمی ایکٹ بل یا چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمرجاوید باجوہ کی ایکسٹینشن کی حمایت کریں، اس حوالے سے کوئی گراؤنڈ پر یا سوشل میڈیا پر کوئی منظم مہم چلائیں۔ نہ ہی کوئی ایسا جواز پیش کرنے کی بہت زیادہ کوشش کی گئی ہے، جس سے آرمی ایکٹ بل ناگزیر محسوس ہو۔

حکومت بھی سپریم کورٹ میں کوئی ایسے ہنگامی حالات بتانے میں کامیاب دکھائی نہیں دی تھی، جس سے ایکسٹینشن کو ناگزیر قرار دیا جائے۔ حکومت کے نان سیریس ہونے پر اسے سپریم کورٹ کے ساتھ ساتھ دیگر اداروں سے بھی ڈانٹ کھانی پڑی تھی۔ جس کے بعد تسلی بخش جواز کی عدم موجودگی میں یہ معاملہ پارلیمنٹ کے سامنے آیا۔ پارلیمنٹ میں آنے کا مطلب سیاسی جماعتوں کے سامنے آنا ہے۔ سیاسی جماعتیں جو عوام کی نہ صرف نمائندگی کرتی ہیں، بلکہ رائے عامہ بھی بناتی ہیں۔ اب قومی اسمبلی نے آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2020 کی منظوری دے دی ہے جبکہ پاکستان ایئرفورس ایکٹ ترمیمی بل 2020 اور پاکستان بحریہ ایکٹ ترمیمی بل 2020 بھی قومی اسمبلی سے منظور کرالیا گیا ہے۔ اور اب ان بلز نے سینیٹ سے پاس ہونے کا مرحلہ طے کرنا ہے۔

اب معاملہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں نے ووٹ تو کر دیا ہے، مگر انہوں نے چونکہ نہ ہی اس کے لئے رائے عامہ ہموار کی نہ ہی اس معاملے کو پبلک میں ڈسکس کیا جس کی وجہ سے ووٹرز، سپورٹرز سے شدید تنقید سامنے آرہی ہے۔

ن لیگ کی غیر مشروط حمایت کا فیصلہ بھی لندن میں بیٹھے گروپ کی طرف سے آیا تھا، جس کو پاکستان میں موجود نسبتاً کمزور گروپ نے من وعن قبول کرنا ہی تھا۔ اس کے بعد دیگر اپوزیشن جماعتوں کے پاس بھی کوئی مخالف پوزیشن لینے کی سپیس کم ہوگی تھی۔

اس صورتحال میں یہ معاملہ پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں اٹھایا جس کے بعد میڈیا بریفنگ میں اس کے رہنماؤں نے آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر تحفظات کا اظہار کیا، وہ اسے من وعن تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں تھی، اس ضمن میں تمام سیاسی جماعتوں بالخصوص اپوزیشن سے رابطہ کا کہا گیا۔ اور مطالبہ کیا کہ مناسب ہو گا حکومت آرمی ایکٹ رولز اور ریگولیشن منظر عام پر لائے۔ پی پی رہنما سینٹر رضا ربانی نے کہا کہ حکومت مذکورہ بلز جمع کی صبح قومی اسمبلی اور جمع نماز کے بعد سینیٹ سے منظور کروانا چاہتی تھی، لیکن چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے اصرار کے بعد پارلیمانی طریقہ کار اختیار کیا گیا اور بلز کو متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کو بھیج دیا گیا۔

رضا ربانی نے کہا کہ آرمی ایکٹ-1952 ایک پبلک ڈاکیومنٹ ہے، اور اس سے منسلک قوائد و ضوابط بھی پبلک ڈاکیومینٹس ہیں، لہذا حکومت ان منظرعام پر لائے اور ارکانِ قائمہ کمیٹیوں کے بھی دیئے جائیں تاکہ وہ ان کے تفصیلی جائزے کے بعد فیصلہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ سینٹرل ایگزیکیوٹو کمیٹی کے اجلاس کے دوران یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ مذکورہ بلز کو مزید بہتر و فعال بنانے کی خاطر ان میں ترامیم کے لیے پی پی پی رہنما دیگر سیاسی جماعتوں سے رابطہ کریں گے۔

پی پی رہنما کا کہنا تھا کہ اپوزیشن نے ہمیشہ حکومت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے، قائمہ کمیٹیوں میں یہ رولز، ریگولیشن جائزے کے لیے ارکان کو دیے جائیں، پیپلز پارٹی چاہتی ہے پارلیمانی پراسس کا سہارا لیا جائے، پی پی نے بلز سے متعلق ایک کمیٹی تشکیل دی ہے، جو بلز پر ترامیم اور کچھ سفارشات پیش کرے گی۔ بعد میں پیپلز پارٹی نے آرمی ایکٹ کے مسودہ میں اصلاحات کے لیے ترامیم پارلیمان میں  جمع بھی کروائیں۔

اس کے بعد جب چئیرمین بلاول اسلام آباد پہنچے تو ن لیگ اور پی ٹی آئی آرمی ایکٹ کی غیرمشروط حمایت کر کے ایوانوں سے منظوری کا فیصلہ کرچکی تھیں، یہ صورتحال پیپلز پارٹی کے لئے ایک اور چیلنج لے کر آئی، جس کا اظہار اور شکوہ چیئرمین بلاول نے اپنے ٹویٹس میں کیا کہ پی ٹی آئی اور ن لیگ فیصلہ کر چکی تھیں کہ پارلیمانی قواعد و ضوابط کو نظرانداز کر دیا جائے گا، پی ٹی آئی اور ن لیگ یہ بھی فیصلہ کر چکی تھیں کہ بل کو نہ تو تمام اراکین اسمبلی کو دیا جائے گا اور نہ ہی اسے کمیٹی کو دیکھنے کیلئے بھیجا جائیگا، لیکن جب چیئرمین بلاول نے یہ پوزیشن لی کہ آرمی ایکٹ بل میں ترمیم کے لئے پارلیمانی تقاضوں کو پورا کرنا ہو گا، تو اس کے بعد تمام پارٹیاں بل کو واپس قومی اسمبلی کی کمیٹی میں بھیجنے پر متفق ہوئے، دونوں ایوانوں کے قواعد و ضوابط کی پاسداری کے ساتھ یہ بل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں بھی نظرثانی کے لئے جائیگا، جس پر بلاول بھٹو نے اپنے خوشی کا اظہار کیا۔ اپنے ٹویٹس میں انہوں نے اس عمل کو مثبت اور خوش آئند قرار دیا کہ اب ایک سال سے زائد عرصہ غیرفعال رکھی جانے والی پارلیمان قانون سازی کے لئے تیار ہے، پارلیمان سے اختیارات لینے والے تمام ادارے پارلیمانی بالادستی کو قبول کر کے ہم سے قانون سازی کا کہہ رہے ہیں، یہ ان کے لئے اہم کامیابیاں ہیں کہ جو پارلیمانی بالادستی اور جمہوریت کے لئے ہمیشہ جدوجہد کرتے رہے ہیں۔

اب آرمی ایکٹ ترمیمی بلز پارلیمانی پراسیس سے تو گز رہے ہیں، مگر ان کے حق میں عوامی رائے عامہ موجود نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں، اپوزیشن اور حکومت دونوں پر ان کے ووٹرز، سپورٹرز کی طرف سے شدید تنقید ہے، اصل میں یہ تنقید ایکسٹینشن پر ہے۔ جس کا یہ مطلب ہے کہ اس وقت عوامی رائے عامہ ایکسٹینشن کے حق میں نہیں ہے، وہ اس فیصلے کے خلاف ہیں۔ عوام سمجھتی ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کا الیکشن میں یہ نعرہ  نہیں تھا کہ وہ کامیابی کی صورت میں آرمی چیف کو ایکسٹینشن دے گی۔ جب آپ ایک ایجنڈے پر عوامی رائے عامہ نہیں بناتے اور ایک دم یوٹرن لے لیتے ہیں، تو پھر شدید تنقید آتی ہے۔ جب انتخابات کے وقت آپ کہتے ہو، ووٹ کو عزت دو، اور بعد میں آپ کہتے ہو ایکسٹینشن کو ووٹ دو، تو پھر ووٹر ناراض ہوتا ہے۔ ساتھ ہی رائے عامہ یہ بھی سمجھتی ہے کہ افراد سے زیادہ ادارے اہم ہیں، اور اداروں کو طاقتور ہونا چاہیے، یہی اداروں اور پاکستان کے لئے بہتر ہے۔

یہ عوامی تنقید، اعتراض اور ناراضگی، صرف اُن کے لئے نہیں ہے جنہوں نے ووٹ دئیے ہیں، بلکہ اُن کے لئے بھی ہے جنہوں نے ووٹ لئے ہیں۔ لہذا اپوزیشن جماعتوں پر تنقید کو دیکھ کر خوش نہ ہوں، یہ صورتحال پاکستان، اس کے اداروں، سیاسی جماعتوں اور عوام کسی کے لئے بھی بہتر نہیں ہے۔