اتحادیوں کی ناراضی، اور وفاقی وزرا کے اپنی حکومت پر خودکش حملے

اتحادیوں کی ناراضی، اور وفاقی وزرا کے اپنی حکومت پر خودکش حملے
ایک تو اتحادی ناراض ہیں۔ دوسری جانب ہر حکومتی وزیر خود میں ایک خودکش بمبار ہے، جس کا ہدف اپنی ہی حکومت ہے۔ کچھ دن قبل (پی ٹی آئی) کے رہنما اور وفاقی وزیر برائے آبی وسائل فیصل واؤڈا نے ’فوجی بوٹ‘ کے ساتھ  (اے آر وائی) کے پروگرام میں شرکت کر کے حکومت کے اس بیانیے کی ’واٹ‘ لگا دی تھی کہ یہ حکومت خود مختار ہے، نہ ہی سلیکیٹیڈ ہے اور نہ ہی کسی سے ڈکٹیشن لیتی ہے، اور آرمی ایکٹ بلز کی قانون سازی میں ووٹ اپوزیشن نے قومی مفاد میں دیے ہیں۔ بلکہ ’فوجی بوٹ‘ نے تمام جماعتوں کو ایک صف میں لاکھڑا کیا تھا۔



فیصل واؤڈا کے بعد اس ماہ تحریک انصاف کی سلیکٹڈ حکومت پر دوسرا خودکش حملہ وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کیا ہے۔ وہ اپنی ہی پارٹی کی حکومت کی کارکردگی پر برس پڑے ہیں۔ وفاقی وزیر نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی کور کمیٹی اجلاس میں پنجاب حکومت کی کارکردگی پر کڑی تنقید کرنے کے بعد وزیراعظم عمران خان کے نام ایک خط لکھا ہے، جس میں پنجاب حکومت اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی ناقص کارکردگی پر شدید تنقید کی گئی ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ  پنجاب کا 350 ارب کا ترقیاتی بجٹ ہے جس میں سے صرف 77 ارب روپے ریلیز ہوئے ہیں۔ صوبے میں پنجاب میں سیاسی سائیڈ ڈیلیور کر رہی ہے اور نہ ہی انتظامی۔ اُن کے نزدیک وزیر اعلیٰ خود کو بادشاہ سمجھتے ہیں جو عوامی مفاد کے خلاف ہے۔ وفاقی وزیر کا مؤقف تھا کہ پنجاب پروونشل فنانس ایوارڈ بھی اضلاع کو نہیں دے رہا، صوبائی سطح پرکچھ ہو رہا ہے اور نہ اضلاع کو فنڈز منتقل ہو رہے ہیں جب کہ جس فارمولے کے تحت وفاق فنڈز صوبوں کو دیتا ہے اسی طرح اضلاع میں فنڈز تقسیم ہونے چاہئیں۔



جب سے اپوزیشن جماعتوں نے آرمی ایکٹ بلز کی قانون سازی میں ووٹ دیے ہیں، اور اتحادیوں کی ناراضگیاں سامنے آئی ہیں، اُس وقت سے حکومتی کیمپ میں بوکھلاہٹ اور بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔ حکومت کو کھٹکا لگا ہوا ہے کہ کہیں اپوزیشن جماعتیں بھی ’ون پیچ‘ پر نہ آجائیں اور ہمارے لئے ’ون پیچ‘ پر جگہ ہی نہ بچے۔ پی ٹی  آئی کے مہربان تجزیہ نگار بھی کہہ رہے ہیں کہ حکومت کے پاس تین چار ماہ کا ٹائم  ہے، اگر اس نے معشیت کو ٹھیک نہ کیا اور ڈیلیور نہ کیا تو پھر ’مائنس ون‘ اور’ان ہاؤس چینج‘ کے ذریعے تبدیلی سرکار کو گھر واپسی کا رستہ دیکھا دیا جائے گا۔



اب تبدیلی سرکار میں پاکستان کی معیشت تباہ ہے، مہنگائی، بے روزگاری، غربت بڑھتی جا رہی ہے، آئی پی ایس او ایس نامی عالمی معاشی تحقیقی و مشاورتی فرم کے ایک تازہ ترین سروے کے مطابق پاکستان کی موجودہ اقتصادی صورتحال کے باعث لگ بھگ 31 فیصد پاکستانیوں کی ملازمتیں ختم ہو چکی ہیں۔ بقیہ بچ جانے والے ملازمت پیشہ افراد شدید پریشانی کے شکار ہیں اور ان میں سے 83 فیصد ملازمت پیشہ افراد کو خطرہ ہے کہ کہیں انہیں بھی ملازمت سے محروم نہ کر دیا جائے۔

عوام تحریک انصاف کی نالائقی سے آئی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری کی سونامی سے خودکشیوں پر مجبور ہیں۔ حکومت اور اس کی اتحادی جماعتیں کس مُنہ سے اپنے حلقوں میں جائیں گے، آئندہ انتخابات میں کیسے کامیابی ملے گی؟ یہ وہ سیاسی حقائق اور سوالات ہیں جو الیکیٹیبلز کو مجبور کر رہے ہیں کہ وہ حکومت سے آہستہ آہستہ فاصلے بڑھا لیں۔ اتحادیوں کا دباؤ جہاں بڑھ رہا ہے، وہاں اپوزیشن جماعتوں کا اثرو رسوخ بھی مسلسل بڑھ رہا ہے۔ حکومت کو خوف لاحق ہے کہ کہیں ان کو مزید مقتدر حلقوں کا اعتماد اور حمایت نہ مل جائے، کہیں ان کے درمیان قربت مزید نہ بڑھ جائے۔ ان حالات میں جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمان نے دوبارہ اسلام آباد مارچ کا کہہ کر حکومتی کیمپ میں بوکھلاہٹ کو مذید بڑھا دیا ہے۔



عمران خان کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ پہلے پنجاب کی حکومت جائے گی، پھر وفاق کی۔ پنجاب اگر قلعہ ہے تو عثمان بزدار اس کا دروازہ۔ جیسے ہی دروازہ ٹوٹتا ہے، تو تبدیلی سرکار کی سلطنت تسخیر ہو جائے گی۔ خطرہ ن لیگ سے بھی زیادہ ق لیگ کا ہے۔ اگر پرویز الٰہی وزارت عظمیٰ کا تاج پہنتے ہیں، تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ بہت سے تحریک انصاف کے اراکین نئے سلطان کی بیعت کرلیں گے، اور یوں عمران خان کے ہاتھ سے نہ صرف پنجاب حکومت جائے گی بلکہ تحریک انصاف کا بھی پنجاب سے صفایا ہوجائے گا۔ خاص کر وہ الیکیٹیبلز جو مشرف کے زمانے میں ق لیگ میں تھے اور اب پی ٹی آئی میں ہیں وہ دوبارہ ق لیگ میں چلے جائیں گے۔ لہٰذا بزدار حکومت کا خاتمہ آگے چل کر تحریک انصاف کو بڑا نقصان پہنچائے گا اور وفاقی حکومت کے خاتمے کا سبب بھی بنے گا۔

مقتدر حلقے دوسری جانب بزدار حکومت کی کارکردگی سے سخت ناراض ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق کئی بار اس حوالے سے خان صاحب کو کہا بھی گیا ہے، اور مشورہ بھی دیا گیا ہے کہ پنجاب میں کارکردگی کے لئے تبدیلی لائیں، مگر وہ بزدار کی ضد پر اڑے رہے ہیں، بلکہ اس دوران انہوں نے عثمان بزدار کا سٹیٹس بھی بڑھایا اور انہیں وسیم اکرم سے وسیم اکرم پلس کا درجہ دیا ہے، اور قوم کو بتایا کہ پنجاب کی اس جدید تاریخ میں اس شیر شاہ سوری نے کئی تاریخ ساز کام کئے ہیں، بس ان کی میڈیا تشہیر نہیں کی گئی۔



شائد ایک بار پھر مقتدر حلقوں کی جانب سے وفاقی وزیر کی وساطت سے عمران خان کے گوش گزار کیا گیا ہے کہ بزدار کو بدلیں! لگتا ایسا ہے جیسے اس بار شائد یہ آخری پیغام ہو۔ تازہ ترین اطلاعات آنے تک عمران خان نے مفادات اور نقصانات کی جمع تفریق کرنے کے بعد عثمان بزدار کی تبدیلی کے حوالے سے حتمی فیصلہ کر لیا ہے، پارٹی کے اندر تحفظات کا اظہار کرنے والوں، اتحادی جماعتوں اور مقتدر قوتوں کو پیغام یہ ہے کہ عثمان بزدار پنجاب کے وزیراعلیٰ ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے۔ ایسی صورت میں معاملات ٹکراؤ کی طرف جا رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں ہمیں تبدیلی سرکار کے وزرا، مشیروں اور معاونین خصوصی کی جانب سے اپنی ہی حکومت کے خلاف مزید خودکش حملے دیکھنے کو ملیں گے۔