میڈیا معاشرے کا ستون نہیں، ایک کاروبار ہے

میڈیا معاشرے کا ستون نہیں، ایک کاروبار ہے
میڈیا کی ڈگری لیتے ہی ہر طالب علم کا دماغ ہواؤں میں ہوتا ہے۔ لگتا ہے بس یہاں یونیورسٹی سے نکلے اور وہاں بی بی سی میں پہنچے۔ تاہم زیادہ عرصہ نہیں لگتا قدموں کو زمین پر واپس آنے میں، کیونکہ پاکستان جیسے بحران زدہ ملک میں میڈیا معاشرے کا ستون نہیں بلکہ ایک کاروبار ہے۔

یہاں ہر نکڑ پر اخبار اور چینل کا دفتر ملے گا۔ تھوڑے چکر کاٹنے پر انٹرنشپ بھی مل جائے گی، ہاں کچھ نہیں ملے گا تو وہ ہے تنخواہ۔ مگر المیہ یہ ہے کہ چھوٹے اداروں کا کوئی پرسان حال نہیں اور بڑوں پر ہاتھ ڈالنے کی کوئی ہمت نہیں رکھتا۔ رکھے بھی کیسے کہ یہ میڈیا جائنٹس سیاستدانوں سے لیکر اداروں تک کو بنانے اور بگاڑنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ ہاں لیکن ان مضبوط میڈیا ہاؤسز کے کمزور ملازمین استحصال کی الگ ہی داستان ہیں۔

معمولی تنخواہوں پر رپورٹر بھرتی کیے جاتے ہیں اور پھر ان سے دن رات کام لیا جا تا ہے، اس پرُکجا یہ کہ صحافت کے یہ بلڈنگ بلاکس میڈیا ہاؤس کی سب سے زیادہ مظلوم مخلوق ہوتے ہیں۔ سولہ سولہ گھنٹے کی ڈیوٹی کے بعد مڈل پاس اسائنمنٹ ایڈیٹر سے جھڑکیں کھاتے ہیں، یا تو خرچہ پورا کرنے کے لیے باہر سے لفافے پکڑتے ہیں یا پھر تنخواہ ملنے کی حسرت لیے نوکری سے برخاست کر دیے جاتے ہیں۔ اور کیوں نہ نکالے جائیں کہ آگے ایک بھیڑ لگی ہے گریجوایٹس کی جو کم تنخواہ پر بلا چوں چراں کام کریں گے۔ ہاں تنخواہ مانگیں گے تو انُکو بھی نکال دیا جائے گا۔

دوسری جانب نیوز روم والوں کی حالت بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ ڈاؤن سائزنگ کے خوف تلے کام کرتے ایڈیٹرز اور پروڈیوسرز، نیوز ڈائریکٹرز کو خوش کرنے کے چکر میں چپ چاپ، چار، چار بندوں جتنا کام کرتے رہتے ہیں۔

اگر صحافتی خوابوں کو چکنا چور کرنے کیلئے یہ سب کافی نہیں، تو اس بات کو جان لیجئے کہ اس فیلڈ میں کوئی حاصل وصول نہیں۔ یہاں زبان ہے نہ اصول، نہ قول نہ ہی فعل، نوازنے کا دل آئے تو کسی کو ایک دن میں اینکر بنا دیا جاتا ہے۔ صاحبوں کا مزاج ٹھیک نہ ہو تو کسی کو کھڑے کھڑے ذلیل کیا جا سکتا ہے۔ کام کی ستائش تو کیا ہی ہو گی، ہر عید ہر سرکاری چھٹی ادارے کو دینے والے ملازمین کو، اپنی جائز چھٹی بھی احسان کی طرح ملتی ہے۔

ایسے میں کون کہتا ہے یہ صحافت معاشرے کا چوتھا ستون ہے۔ نہیں پاکستان میں صحافت ایک عفریت ہے جو صرف امیر مالکان کو امیر تر کرنے کا ایک دھندا ہے۔ پاکستان میں صحافت بلیک میلنگ اور میڈیا مالکان کی مختلف محکموں میں اپنی اجارہ داری قائم کرنے کا ذریعہ ہے۔

کوئی محکمہ فائدہ نہیں پہنچا رہا تو اسکی ناک کاٹنا ضروری ہے۔ کسی نے فائدہ پہنچا دیا تو اس محکمے کی تمام کالی بھیڑیں عطر گلاب سے پوتر۔ میڈیا یعنی کہ صحافت، طاقت ور کی غلام ہو چکی ہے۔ کہیں کسی نے صحافتی علم بلند کرنا چاہا تو اسے اسکے خاندان سمیت بھوکا مار دیا جاتا ہے۔

کسی محلے میں بوڑھی بیوہ کی بیٹی کے ساتھ زیادتی ہو جائے تو میڈیا ظالم کی نشاندہی کرتا ہے۔ مگر ظالم کا میڈیا مالکان سے کاروباری تعلق ہو تو میڈیا زیادتی کی شکار کو معاشرے کا کلنک بنا دیتا ہے۔ میڈیا عوام کی وکالت کرتے کرتے کارپوریٹ دنیا کا دوست بن چکا ہے۔ پستی ہوئی عوام کی آواز اب صرف فروخت ہوتی ہے۔ ریٹنگ کے لیے، اشتہارات کی قیمت بڑھانے کے لیے، ملزم کو بلیک میل کر کے پیسے بٹورنے کے لیے، بے قصور کو رسوا کر کے من مرضی کا مافیا عوام کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے۔

میڈیا ملازمین صرف اب میڈیا مالکان کے لئے جلادی کا کام کر رہے ہیں۔ مجبوری کے عالم میں۔ افلاس کی مجبوری میں۔ وہ جانتے ہیں کہ وہ جو بول رہے ہیں، ویسا وہ دیکھ نہیں رہے۔ مگر بولنا وہی ہے جو وہ دیکھ نہیں رہے۔ وگرنہ وہ بھی وہی ہو جائیں گے، جو وہ دیکھ رہے ہیں