گندم کا بحران کیسے پیدا ہوا، حقائق کیا ہیں اور افواہیں کیا؟

گندم کا بحران کیسے پیدا ہوا، حقائق کیا ہیں اور افواہیں کیا؟
گذشتہ چند روز میں ملک بھر میں آٹے کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پنجاب میں اس وقت آٹا 64 روپے فی کلو کے حساب سے بک رہا ہے جب کہ آٹا مل مالکان کا مطالبہ ہے کہ اس قیمت کو 70 روپے فی کلو تک لے جایا جائے۔ وفاقی وزیر برائے فوڈ سکیورٹی خسرو بختیار اس وقت مل مالکان سے مذاکرات میں مصروف ہیں اور تاحال اس حوالے سے کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا ہے۔ اسلام آباد جہاں مئی 2019 میں آٹا 45 روپے فی کلو کے حساب سے دستیاب تھا، وہاں 16 جنوری 2020 کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 59 روپے فی کلو کے حساب سے آٹا بک رہا ہے جب کہ کراچی میں یہی آٹا مئی 2019 میں 54 روپے فی کلو کے حساب سے دستیاب تھا، آج یہ قیمت 68 روپے فی کلو ہے۔

یہاں دلچسپ امر یہ ہے کہ حکومتِ پاکستان کے مطابق گذشتہ برس گندم کے کل پیداواری ٹارگٹ سے 7 لاکھ ٹن کم پیداوار ہوئی تھی۔ تاہم، حکومت نے اس کم پیداوار کے باوجود یہ دعویٰ کیا تھا کہ گندم کے ذخائر ضرورت سے کہیں زیادہ ہیں لہٰذا اسے برآمد کیا جائے گا۔ اس فیصلے کی روشنی میں ادارہ شماریات کے مطابق ستمبر 2018 سے لے کر جون 2019 تک 6 لاکھ 50 ہزار میٹرک ٹن گندم برآمد کی گئی۔ اس برآمد شدہ گندم کی قیمت 18.5 ارب روپے بنتی ہے۔ تاہم، مئی 2019 میں یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ گندم کے ذخائر کم ہو سکتے ہیں اور فیصلہ کیا گیا کہ وفاقی حکومت اور چاروں صوبائی حکومتیں 62 لاکھ 25 ہزار میٹرک ٹن گندم اٹھائیں گی لیکن جہاں باقی صوبوں اور وفاقی حکومت نے اپنے اپنے قوٹے سے کم گندم اٹھائی، سندھ حکومت نے بالکل ہی گندم نہیں اٹھائی۔

معاملہ کابینہ کی Economic Cooperation Committee یعنی اقتصادی رابطہ کمیٹی میں گیا جہاں ابتدا میں تو فیصلہ ہی نہ ہو سکا کہ اس ابھرتے ہوئے بحران سے بچنے کے لئے کرنا کیا ہے۔ گندم کی برآمد پر پابندی کا فیصلہ بھی نہ کیا جا سکا۔ بالآخر 14 جولائی 2019 کو یہ فیصلہ ہو گیا کہ گندم کی برآمد پر پابندی لگائی جانی چاہیے لیکن 25 جولائی تک اس کا نوٹیفکیشن بھی جاری نہ ہو سکا۔ آخر کار نوٹیفکیشن تو جاری ہو گیا لیکن اس کے باوجود 48 ہزار میٹرک ٹن گندم محض اگست اور ستمبر کے مہینوں میں برآمد کر دی گئی۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ پابندی گندم کی برآمد پر تھی لیکن اس سے بننے والی اشیا مثلاً آٹا، سوجی، میدے وغیرہ کی برآمد پر نہیں تھی۔ تاہم، اکتوبر 2019 میں حکومت کو یہ خدشہ لاحق ہوا کہ کہیں گندم سے بننے والی اشیا کے نام پر گندم نہ برآمد کی جا رہی ہو، لہٰذا ان اشیا کی برآمد پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ واضح رہے کہ پابندی لگائے جانے کے باوجود جو برآمدات جولائی سے اکتوبر کے دوران ہوئیں، ان کی مالیت 1 ارب 83 کروڑ روپے بنتی ہے۔

حیرت انگیز طور پر اکتوبر ہی میں جب حکومت اس نتیجے پر پہنچ گئی کہ اس کے اندازے درست ثابت نہیں ہو رہے تو وفاقی حکومت نے صوبوں اور یوٹیلٹی سٹورز کو پاسکو سے مزید گندم اٹھانے کی اجازت دے دی۔ سندھ حکومت کو 4 لاکھ میٹرک ٹن گندم اٹھانے کی اجازت دی گئی تھی جس میں سے انہوں نے صرف 1 لاکھ 16 ہزار میٹرک ٹن گندم اٹھائی۔ یوٹیلٹی سٹورز کو 2 لاکھ کی اجازت دی گئی تھی، انہوں نے صرف 1 ہزار میٹرک ٹن گندم اٹھائی۔ بلوچستان حکومت کو 50 ہزار میٹرک ٹن گندم اٹھانے کی ہدایت دی گئی تھی، ایک من گندم بھی نہیں اٹھائی گئی۔ خیبر پختونخوا کو 3 لاکھ میٹرک ٹن گندم کی اجازت دی گئی تھی، لیکن اٹھائی صرف 37 ہزار ٹن گئی۔

اب وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ 3 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کر لی جائے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ حالات کو اس نہج پر پہنچنے کیوں دیا گیا؟ ایک بحران جب پیدا ہو رہا تھا تو اس وقت ایمرجنسی میں فیصلے کیوں نہ لیے گئے؟ اور اب 3 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کی جا رہی ہے جب کہ پاکستان 6 لاکھ 50 ہزار میٹرک ٹن گندم برآمد کر چکا ہے۔

کیا اس میں کوئی کک بیکس involved ہیں؟ اگر ہیں تو یہ کون لوگ ہیں جو عوام سے دو وقت کی روٹی بھی چھین لینا چاہتے ہیں؟ اور اگر یہ نااہلی ہے تو پھر اس کا ذمہ دار کون ہے؟ وزیر اعظم عمران خان کے ماضی کے بیانات کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس سارے بحران کا کھرا تو انہی کے گھر پہنچ جائے گا۔ کیونکہ مہنگائی تو ہمیشہ تب ہی ہوتی ہے جب عمران خان صاحب کے بقول حکمران کرپٹ ہوتا ہے۔ لیکن اگر یہ کرپشن نہیں بھی ہے، اور معاملہ صرف نااہلی تک محدود ہے تو پھر کرپشن اور نااہلی میں فرق کیا ہے؟ دونوں میں سے کون کم بری ہے اور کون زیادہ؟

اب اس سارے سکینڈل کی تحقیقات ہوں گی، صوبائی اور وفاقی حکومتیں ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرائیں گی، پھر کچھ لوگوں پر انگلیاں اٹھیں گی، ان میں سے کچھ کے خلاف انکوائریاں ہوں گی، ٹی وی ٹاک شوز میں حکومت اور اپوزیشن بیٹھ کر ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کریں گی اور ایک وقت آئے گا کہ سب لوگ سب کچھ بھول بھال جائیں گے، اور انکوائری کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ اس دوران وہ لاکھوں پاکستانی جو پہلے ہی دو وقت کی روٹی بمشکل پوری کر پا رہے تھے، گندم کی ہوشربا قیمتوں کے باعث خود چکی میں پسیں گے۔ اور اس سارے کھیل سے کچھ لوگ پیسے کما کر مزید امیر ہو جائیں گے۔ اور دوسری جانب ساحر لدھیانوی کے الفاظ میں

لہلہاتے ہوئے کھیتوں پہ جوانی کا سماں
اور دہقان کے چھپر میں نہ بتی نہ دھواں

یہ فلک بوس ملیں دلکش و سمیں بازار
یہ غلاظت پہ چھپٹتے ہوئے بھوکے نادار

دور ساحل پہ وہ شفاف مکانوں کی قطار
سرسراتے ہوئے پردوں میں سمٹتے گلزار

درو دیوار پہ انوار کا سیلابِ رواں
جیسے اک شاعرِ مدہوش کے خوابوں کا جہاں

یہ سبھی کیوں ہے یہ کیا ہے مجھے کچھ سوچنے دے
کون انساں کا خدا ہے مجھے کچھ سوچنے دے